Sunday, 05 January 2025
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Riyasat Ke Iqdamat Aur Roshni Ki Kiran

Riyasat Ke Iqdamat Aur Roshni Ki Kiran

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے 2022ءسے جاری بحران نے جہاں سماجی نفسیاتی دباؤ میں اضافہ کیا وہاں معیشت ناک کے بل زمین پہ جا گری۔ اگرچہ مسلم لیگ کی حکومتیں معاشی بحالی اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں عوامی بہتری کے حوالے سے امتیاز رکھنے کی دعویدار ہیں لیکن ان کی مشترکہ حکومت ابھی تک عوام کو سکھ کا سانس دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ موجودہ جاری دورِ حکومت کو مشکل ترین دور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام پارٹیاں مل کے بھی اقتصادی ابتری کو سنبھالنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں۔

مجھے کہنے دیجئے کہ ان کی بھی مجبوری رہی ہے کہ انہیں چار و ناچار مالیاتی اداروں کی گائیڈ لائنز پر چلنا پڑتا ہے جو پہلے ملکوں کی معیشت کو مختلف حربوں سے غیرمستحکم کرتے ہیں پھر اپنی شرائط پر قرضے عنایت فرماتے ہیں۔ معلومات کے اتنے بہاؤ کے باوجود عام آدمی اب بھی اس بات سے بےخبر ہے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر چھبیس چھبیس سال سیاسی جدوجہد کرنے کے باوجود ملک کے گرد کسے گئے بین الاقوامی شکنجوں سے ناواقف رہتے ہیں۔

سوائے پاکستان کے ریاستی نظام کے جس میں اسٹیبلشمنٹ فارن سیکریٹریز، سینئر سفارتکار اور سکیورٹی ایجنسیز کے سربراہان کے علاوہ ہر شعبے کے محبِ وطن ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ یقیناً ان میں حکومتی عہدیداران بھی شمار ہوتے ہیں لیکن جب تک حکومت میں رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جونہی یہ اقتدار سے باہر آتے ہیں جلاؤگھراؤ کی سیاست کے سوا ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچتا۔

نیاپاکستان بنانے والے نے تو حد ہی کرکے رکھ دی ہے۔ کپتان اور اس کے حواریوں نے ملک کو عدم استحکام سے اختتامِ استحکام کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ جو لیڈر اور اس کے فالوورز سیاسی بیانیوں کو نظریہ سمجھتے ہوں اس سے زیادہ سیاسی جہالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک طرف ہاتھ میں تسبیح اور زبان پر اِیّاکَ نَعبد وَ اِیّاکَ نَستَعین اور دوسری طرف مخلوط ناچ گانا اور گالم گلوچ۔

میں تو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ یہ حضرت پسے ہوئے عوام کو حقیقی انقلاب کی امید سے مایوس و محروم کرنے کے لیے میدان میں اتارے گئے ہیں۔ فاسٹ باؤلر کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ دین ہو یا کوئی نظریہ اس میں مکمل داخل ہوئے بغیر بات نہیں بنتی۔ جسے یہی نہ پتا ہو کہ تبدیلی اور انقلاب میں فرق کیا ہوتا ہے اسے انقلاب کی سائنس اور فلسفے کا کیسے شعور ہو سکتا ہے۔

ادھر ہم بیچارے پاکستانی جو حالات اور رہنماؤں کے مارے ہر نئے نعرے باز پر یقین کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید یہ شخص ہماری تقدیر بدل دے حالانکہ حالات کا معروضی تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کی موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی حالت کے پیشِ نظر بین الاقوامی مالیاتی آرگنائزیشنوں، انٹرنیشنل اسٹیبلشمینٹ اور ڈیپ کیپیٹلسٹ کونسلز سے ٹکراؤ بغیر درمیانی راستہ نکالنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ پاکستان میں اس وقت کون ہیں جو اس پیچیدہ صورتحال کو سمجھتے بھی ہوں اور عملی طور اس سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو میں بلا جھجھک کہوں گا کہ پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمینٹ کے سوا شاید ہی کوئی ہو۔

صدر مملکت آصف علی زرداری، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور ان کے رفقا کار نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں پاکستان کو درپیش حقیقی تھریٹ کا شعور ہے اور یہ ادراک بھی ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے کس سے کس طرح نپٹنا ہے۔ چین اور امریکہ جیسے دو دشمنوں سے بیک وقت تعلقات کے توازن کو قائم رکھنا ایک عظیم ڈپلومیٹک قابلیت کا غماض ہے۔

اسی طرح خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام پاکستان پر چھاؤ معاشی ابتری کے گہرے سیاہ بادلوں کے درمیان سے نکلتے سورج کی طرح ہے کہ جس نے ٹریک سے اترے ہوئے پاکستان کو واپس لا کر معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے۔

پولیٹیکل اکانومی کے ایک تھیورسٹ کی حیثیت سے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے پاس بزنس پارٹرشپ کے سوا کوئی محفوظ راستہ نہیں بلکہ اب تو دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے اقتصادی شراکت داری کے علاوہ راستہ ہی کوئی نہیں۔

میری اس بات کو آرمی چیف سید عاصم منیر کی خوشامد یا اسٹیبلشمینٹ کی حمائت کی سمجھنے کی بجائے اگر انٹرنیشنل معاشی تناظر اور ریجنل ڈویلپمینٹ کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ عراق، لیبیا، شام، افغانستان اور یوکرین کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ یہ سب اکنامک وار ہے۔ پاکستان پچھلے چالیس سالوں سے دہشت گردی کے جس عفریت کا شکار چلا آ رہا ہے یہ بھی اکنامک وار ہی ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔

اکنامک ٹیرر ازم کا عذاب الگ سے مسلط ہے۔ کرنسی کلیش سے لیکر اقتصادی پابندیوں تک معاشی ٹیرر ازم کے اتنے پہلو ہیں کہ جس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ جو انڈسٹری مالکان اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے ملکوں کے درمیان جنگیں کرانے سے نہ ٹلتے ہوں ان سے کسی طرح کی انسانیت اور امن کی کیا توقع کی جاسکتی۔ ریاست پاکستان کا ان مسلسل چیلنجز کا سامنا کرنا ہی ایک مشکل کام ہے چہ جائیکہ اندرونی عذاب بھی نچلا نہ بیٹھنے دے۔

پچھلے دوسالوں میں ریاست کو اندرونی سیاسی محاذ، بیرونی دہشت گردی اور دیگر انٹرنیشنل پریشرز جیسے ہر طرح کے محاذوں پر لڑ کر ملک کی حفاظت بھی کرنا پڑی ہے اور معاشی اقدامات کرکے مستقبل کے لیے چراغ بھی روشن کرنے پڑے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ کیا ہمارا کسی بھی ناسمجھ اور عاقبت نا اندیش لیڈر کے پیچھے لگ کے اپنے وطن، عوام اور خود کو مشکلات میں ڈالنا سمجھداری ہے؟ دانائی اسی میں ہے کہ انفرادی یا پارٹی بازی کی سوچ سے نکل کر ملک کے بارے سوچا جائے، اپنی اپنی رنجشیں بھلا کے اور اناؤں سے باہر نکل کر ایک دوسرے کو گلے لگایا جائے اور بڑے ویڑن کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔

کب تک دشمنوں کے مذاق کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ جو لوگ گھبرا کے ملک چھوڑ کے بھاگے ہیں ذرا ان سے پوچھیں تو سہی کہ جناب کسی پرائے ملک میں سیکنڈ کلاس شہری بن کر رہنا کیا ہوتا ہے؟ سب سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ اپنی اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کریں اور ان قوتوں اور عناصر سے خبردار رہیں جو ہمیں یکجان دیکھنا گوارا نہیں کرتیں۔ نیا سال مبارک ہو۔