میں نے اپنے آخری کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ پچھلے چھ سال سے عموماً اور پچھلے تین سال سے خصوصاً پاکستان کے معاشرے میں نحوست کی آکاس بیل کی طرح چھائی ہوئی مہنگائی کہ جس نے عوام کی جائز خواہشات، ضروریات اور تعیشات کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے کی بنیادی وجہ بانی تحریکِ انصاف اور تحریکِ انصاف کی سابقہ حکومت ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ جب میں اِس دعوے کی سچائی ثبوتوں کی صورت میں عوام کے سامنے رکھوں گا تو سوچنے کی دنیا سے تعلق اور واسطہ رکھنے والوں کی آنکھیں ایک دفعہ ضرور کُھلیں گی لیکن نک دا کوکا پر ناچنے والی عوام اور "آستانہ فیضیہ" کے بیعت یافتہ خواص کی آتما کو میرے دلائل اور ثبوتوں سے کسی قسم کی شانتی نہیں ملے گی اور وہ ویسے کے ویسے عقیدت وچاہت اورمفاد و منافقت کا "لنگی ڈانس" کرتے رہیں گے۔
2019-2020ء اور2021ء کی لازوال وبے مثال اور جاندار و شاندار مہنگائی کا تجزیہ کرنے کی تو شاید ضرورت نہیں کہ وہ کس کی وجہ سے اور کیوں کرعوام کی زندگیوں میں وبال اور کوڑھ کا مرض بن کر شامل ہوئی کیونکہ اُس وقت تو پاکستان کی سیاست اور حکومت پر "آستانہ فیضیہ" کے سر صدقے بانی تحریکِ انصاف کی قیادت و سیادت کا طوطی بولتا تھا۔ اصل مسئلہ تو 2022-2023ء اور 2024ء کی شتر بے مہار اور آوارہ اور آبرو باختہ مہنگائی کا ہے جس کا ذمہ دار اور "گھسم" بننے کو نہ پی ٹی آئی تیار ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کی حکومتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جولائی 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ تحریکِ انصاف کی حکومت نے چھ ارب ڈالرز کا معاہدہ کیا جو اگلے سال مزید ایک ارب ڈالرز بڑھا دیا گیا اور یہ اُس سے بھی بڑی اور تلخ حقیقت ہے کہ بانی تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے دعویدار تھے کہ اگر میں نے وزیر اعظم بن کر آئی ایم ایف کا در کھٹکٹایاں تو میں خود کشی کر لوں گا۔ یہ معاہدہ اتنی سخت شرائط کے ساتھ تھا کہ عوامِ پاکستان اور ریاستِ پاکستان دونوں کی چیخیں نکل گئی تھی۔
اِسی معاہدے کے تحت پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بظاہراً اٹانومی اور خود مختاری دے کر سو فیصد عالمی طاقتوں کے مرہونِ منت کر دیا گیا تھا۔ اِسی معاہدے کے تحت پاکستان کی عوام، کسان، کاشتکار، تاجر، صنعت کار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے غریب اور مڈل کلاس لوگوں کو مختلف شعبوں میں ملنے والی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی کا خاتمہ کیا گیا۔ ٹیکسز کی بھر مار اور آسمان کو چھوتے ریٹ طے کروائے گئے۔ اِس کے علاوہ اِس معاہدے کے ذریعے ایسی ایسی مالی اور زری پالیسیز نافذ العمل کروائی گئی کہ جس سے ریاست کا خزانہ تو بھر گیا لیکن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
ابھی عوام جولائی 2019ء کے آئی ایم ایف معاہدے کی تباہ کاریوں سے مستفید ہو رہی تھی کہ مارچ 2022ء میں بانی تحریک انصاف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے آئی ایم ایف معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ صرف کم کر دی بلکہ تین ماہ کے لیے جامد کر دی۔ بانی تحریکِ انصاف نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اپنی حکومت کا تختہ اُلٹتا دیکھ کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے اور ٓانے والی پی ڈی ایم حکومت کے لیے معاشی بارودی سرنگیں بچھا کر اُسے آئی ایم ایف کی کچھار میں پھینک دیا۔
آئی ایم ایف نے ریاستِ پاکستان کے اِس نان پروفیشنل اور نان سیریس رویے کا بہانہ بنا کر جولائی 2019ء کے معاہدے کی بقیہ آخری ایک ارب ڈالرز کی قسط روک لی اور پھر ساری دنیا نے تماشا دیکھا کہ اپریل2022ء سے لے کر فروری 2023ء تک آئی ایم ایف نے ایک سال سے زائد عرصہ پی ڈی ایم حکومت کو اپنی اُنگلیوں پر نچا کرمرضی کے ٹیکس لگوا کر اور ہر قسم کی سبسڈیز ختم کروا کر معاہدے کو بحال کرکے اُس قسط کو ادا کیا تھا۔ اِن تمام عوامل کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں مہنگائی کا جن ریاست حکومت اور عوام کے لیے بے قابو ہوگیا تھا۔
2022 اور 2023ء کی مہنگائی کی دوسری سب سے بڑی وجہ بانی تحریک انصاف، تحریکِ انصاف کی قیادت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر "آستانہ فیضیہ" کے ہدایت یافتہ مرید اور مریدنیاں، ملنگ اور ملنگنیاں ٹائپ اینکرز، اینکرنیاں، وی لاگرز، یوٹیوبرز اور تجزیہ نگارتھے۔ جنہوں نے اپریل 2022ء سے لے کر فروری 2023ء تک پوری پلاننگ سازش اور بندوبست کے ساتھ صبح سے لے کر شام، شام سے لے کر رات اور رات سے لے کر صبح تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا پراپیگنڈہ کیا۔
یہ ایک حقیقت اور روایت ہے کہ جب بھی کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے اُس ملک کی حکومت اور ریاست فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کرتی ہے اور ایٹمی دھماکوں کے وقت نواز شریف حکومت میں یہ تاریخ دُہرائی جا چکی ہے۔ اِس پراپیگنڈہ کی وجہ سے پاکستان کے تمام سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور تاجروں نے کمرشل بینکوں کے اپنے ڈالرز اکاؤنٹس اور قانونی زری شعبوں اور کونوں کھدروں سے ڈالرز نکال کر اپنے گھروں کی تجوریوں میں محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے بانی تحریک انصاف اور"آستانہ فیضیہ" کے صحافتی ملنگ اور ملنگنیاں دیوالیہ دیوالیہ کی قوالی پڑھتے تھے اُتنا ہی پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ دار ڈر کے مارے اپنے ڈالرز بینک اکاؤنٹس سے نکلوا کر اپنی تجوریوں کی زینت بنا لیتے تھے اور جیسے جیسے ڈالرز کمرشل بینکوں اور سرکاری اور لیگل معاشی سرکل سے نکلتا تھا اُتنا ہی ڈالرز مہنگا اور روپیہ سستا ہوتا جاتا تھا۔
ڈالر جوں جوں کمیاب اور مہنگا ہوتا تھا توں توں مہنگائی کا طوفان بپھر کر عوام کی عزتوں جانوں مالوں اور وقار کے درپے ہو جاتا تھا۔ دیولیہ دیوالیہ کی غزل اور قوالی کسی دردِ دل کے ساتھ نہیں بلکہ ملکی اور عالمی سہولت کاروں کے پری پلان ایجنڈے کے ساتھ پڑھی جاتی تھی اور ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان میں معاشی معاشرتی اور سیاسی افراتفری اور تباہی و بربادی مچا کر پاکستان کی ریاست اور حکومت کو ناکام و نامراد کر نا تھا اور پاکستان میں زیادہ سے زیادہ مہنگائی کروا کر عوام کو پی ڈی ایم کی حکومت اور فوج کے خلاف اپنی "حقیقی آزادی کی تحریک" المعروف "تحریک فساد فی الارض" میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شامل کروانا تھا۔
یہ وہ حقائق اور وجوہات ہیں ہیں جن کی وجہ سے 2022ء اور2023ء میں مہنگائی کا جن اور رسوائی کی چڑیل پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام کے سروں پر مسلط ہوئیں۔ اِن حقائق اور وجوہات کو جاننے کے بعد سوچنے والوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر ذی شعور پاکستانی کو بہت سی آگہی حاصل ہوگئی ہوگی لیکن یہ تمام حقائق اور وجوہات "نک دا کوکا" پر ناچنے اور دنیا کی سوچ کے مطابق رہنے اور سوچنے والوں اور "آستانہ فیضیہ" پر "میں نیواں میرا مرشد اُچا اسی اُچیاں سنگ لائی" کی قوالی پر ناچنے والے سیاست، صحافت اور معاشرت کے ملنگوں اور ملنگنیوں کی عقل، سمجھ، دانش، فہم اور سوجھ بوجھ سے بالا تر ہیں۔