"مجھے اقتدار سے اُتارو گے تو میں آپ کے لیے زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا"۔ یہ پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پر اگست 2018ء سے لے کر 10 اپریل 2022ء تک چلنے والی فلم "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" کے ہیرو کا وہ ڈائیلاگ تھا جسے اُس وقت پاکستان کا کوئی خاص و عام، جاہل و عامل اور سیاسی و غیر سیاسی شخص نہیں سمجھ سکا کہ ہیرو صاحب کس کو تڑیاں لگارہے ہیں اور کیوں لگا رہے ہیں اور نہ ہی سیاست و صحافت کے اہل علم، اہل دانش، اہلِ فکر، اہل ذکر اوراہل تدبرکی فہم و فراست فلم کے اِس کلائمیکس اور ڈائیلاگ کی اہمیت کا اندازہ لگا پا رہی تھی۔ پاکستان کی سیاست و صحافت کے دماغ اِس بات کا اندازہ نہیں لگا پارہے تھے کہ اِس فلم میں ولن کا کردار ادا کرنے والی اپوزیشن تو مسلسل سیاسی دھچکے اور نیب کے ہچکولے کھا کھا کر تھکاوٹ اور افسردگی کا شکار تھی تو یہ ہیرو صاحب کس کو منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیاں دے رہے ہیں۔
آخر کار پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین سے "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" والی فلم بیڈ پرفارمنس، مہنگائی، بے روز گاری، قرضوں کا لامتناہی بوجھ، سٹریٹیجک پارٹنر ممالک سے خراب تعلقات، عالمی طاقتوں سے بے جا اور بے مقصد اُلجھاؤ، سی پیک پر مجرمانہ سست روی، پاکستان کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے فضول رسہ کشی اور دیگر وجوہات کی بنا پرساڑھے تین سال بعد اُتار دی گئی۔
اِس فلم کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب یہ فلم پردہ سکرین پر چل رہی تھی تو بیس فیصد فلم دیکھنے کے بعد ہی عوام وناظرین بور ہونا شروع ہو گئے تھے اور باقی ماندہ اسی فیصد فلم عوام نے مہنگائی لاقانونیت بے روزگاری اور بد انتظامی کے "تتے توے" پر بیٹھ کر لاچار وبیزار ہو کر دیکھی۔ لیکن جیسے ہی یہ فلم پاکستان کی سیاست وحکومت کی پردہ سکرین سے اُتری تو چند ہی دنوں میں فلم کا ہیرو عوام کے دلوں میں گھر کرنا شروع ہوگیا۔ پاکستان کی عوام کو فلم کے ہیرو کی ادائیں یاد آنا شروع ہوگئی۔ اُس کے چلنے کا انداز، بولنے کا سٹائل اور اپنے بالوں پر اپنی اُنگلیاں پھیرنے کا طریقہ بھانے لگا۔ اُس کی تقریریں، اُس کی بڑھکیں اور اُس کے ملکی اور عالمی فورمز پر ادا کیے جانے والے ڈائیلاگ عوام کو بے تاب کرنے لگے۔
ہیرو نے اپنی فلم "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" کے بُری طرح فلاپ ہونے کے بعد ایک تحریک کا آغاز کیاجس کا بنیادی مقصد پاکستان کی عوام اور ناظرینِ فلم کو باور کروانا تھا کہ مجھے فلم میں آزادانہ کردار ادا کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ اِس لیے میں پاکستان کی سیاست و حکومت کی پردہ سکرین پر چلنے والی نئی فلم "پی ڈی ایم کی ڈھائی سالہ حکومت" نہیں چلنے دوں گا۔ اب وہی پاکستان کے عوام اور پچھلے ساڑھے تین سال "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" والی فلم کے ناظرین و شائقین جن کی فلم کا صرف چوتھائی حصہ دیکھنے کے بعد ہی بوریت، حبس اور آوازاری کے مارے جان جوکھوں میں پڑ گئی تھی۔ اُسی عوام نے فلاپ فلم کے ہیرو کو کندھے پر بٹھا کر "میرا ماہی چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی" کا رقصِ عقیدت شروع کر دیا۔
آخر اِس کی وجہ کیا تھی کہ جس فلاپ فلم کو ختم کرنے کی دعائیں اور آہ و زاریاں 2020ء اور2021ء میں پاکستانی عوام ہاتھ اور جھولیاں اُٹھا اٹھا کر کیا کرتے تھے اور اُس فلم کا ہیرو مہنگائی بے روز گاری لاقانونیت اور حکومتی بد انتظامی کی وجہ سے نفرت کی علامت بن چکا تھا۔ فلم کے پردہ سکرین سے اُترتے اور نئے فلم کے پردہ سکرین پر چڑھتے ہی وہ ہیرواپنے پروڈیوسر(اسٹیبلشمنٹ اور فوج) اور ڈائریکٹر(امریکہ) کے خلاف منافقت کے رنگ میں رنگا ہوا علم اور جھنڈا لے کر پاکستان کے میدانِ سیاست میں چھا گیا۔
اِس ساری انہونی اور ناقابلِ یقین صورتِ حال اور "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" والی فلاپ فلم کے نااہل، ناتجربہ کار، ناپختہ، نامراد اور ناکام ہیرو کی منافقت، عیاری، مکاری، چالاکی اور غیر اخلاقی نرگسیت پر مبنی اپنے سابقہ پروڈیوسرز (فوج اور اسٹیبلشمنٹ) اور سابقہ و حالیہ ڈائریکٹرز(امریکہ و عالمی طاقتیں) کے خلاف چلائے جانے والی "تحریک فساد فی الارض" کی کامیابی کی کئی وجوہات تھیں لیکن اِن میں سب سے بڑی وجہ مہنگائی تھیں۔
دلچسپ اور حقائق پر مبنی بات یہ ہے اپریل 2022ء سے لے کر آج اگست 2024ء تک پاکستان کے عوام کی جائز خواہشات، ضروریات اور تعیشات کا منہ کالا کرنے والی اور عوام کو زندگی سے بیزار کر دینے والی اِس مہنگائی کا ذمہ دار صرف اور صرف تحریک فساد فی الارض کا علمبردار اور "مجھے کوئی اقتدار سے اُتار کر دکھائے" والی فلم کا فلاپ ہیرو تھا۔ میرے اِس دعوے پر "آستانہ فیضیہ" کے ہاتھوں بیعت ہو کر "مست ملنگ جنرل عاصم سے دل تنگ" کا وظیفہ کرنے والے سیاست، صحافت، تجارت، عدالت اور معاشرت کے شہسوار میری عقل اور دانش پر ماتم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن میں اپنے اگلے کالم میں دلیل، منطق، استدلال اور ثبوت کے ساتھ اپنے اِس د عوے، نظریے اور تھیسیس کو ثابت کروں گا۔
مجھے یقین ہے ہے کہ میرا اگلا کالم پڑھنے کے بعد "آستانہ فیضیہ" کے بیعت یافتہ ڈالرز کی بھنگ اور ویورشپ کی بوٹی کے نشے میں دھت سیاست اور صحافت کے ملنگ اور "نک داکوکا" پر رقصِ عقیدت کرنے والے عوام کی آتما کو شانتی ملے یا نہ ملے لیکن سوچنے والی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کو بہت سے حقائق سے آگاہی اور آگہی ملے گی۔