صوفی شاعر شاہ حسینؒ پر میں جب بھی لکھتا ہوں ایسا لگتا ہے کیف و مستی کے اک جہاں میں تمامی کی چادر اوڑھے دھمال ڈال رہا ہوں یہ تحریر میں نے دس برس سے کچھ وقت پہلے لکھی تھی شاہ حسینؒ پر اس کے بعد بھی لکھتا رہا آپ یہ تحریر پڑھیں اور شاہ حسینؒ سے ملاقات کریں۔
شاہ حسین کہتے ہیں"میرا تانا بانا سب کچھ تو ہی ہے، میں تو بس اک عاجز فقیر ہوں۔ تو ہی میرے لؑوں لُوں میں سمایاہے۔ میرے پالنے والے کریم تجھ سے زیادہ میرے حال اور نیت کو بھلا کون جانتا ہے"۔ میں نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا پھر بھی زمانہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ مجھے معلوم ہے یہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا، نہ کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ مالک ان سب کے جھگڑے اپنے اپنے ہیں مگر مجھ سے بلاوجہ جھگڑتے ہیں۔ "کثرت کے اسرارورموز سے آشنا کرنے والے میں اپنی ذمہ داریوں کو دیکھتا ہوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ برکھا رت سے چہرہ بھیگ جاتا ہے۔ " شاہ حسین تو اک عاجز فقیر ہے وہ تو بس یہی کہتا ہے کہ اے بندے! تو ہمیشہ اپنے رب کا ذکر کیا کر"۔
مادھو لال حسین کے نام سے معروف شاہ حسین کا شمار ان صوفیاء میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر انسان دوستی کو اصلِ ایمان قرار دیا۔ لوگوں سے ان کے مذہب، ذات و عقیدے یا رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں اپنے رب کی تخلیق کے طور پر محبت کی۔ محبتوں کے علمبردار شاہ حسین 1538ء بمطابق 945ہجری میں لاہور کے اندرونی محلے ٹلہ میں پیدا ہوئے۔ پرانا محلہ ٹلہ اب ٹیکسالی دروازہ کہلاتا ہے۔
شاہ حسین کے والد اپنے آبائو اجداد کی طرح کھڈیوں پر کپڑا بُننے کا کام کرتے تھے۔ غربت میں آنکھ کھولنے والے شاہ حسین نے کبھی احساس محرومی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جمع کرنے کا کبھی سوچا بھی نہیں البتہ وہ لوگوں سے یہ کہتے رہے "دیانت اور لگن کے ساتھ محنت انسان کو اردگرد کے لوگوں میں ممتاز کرتی ہے۔ ایسے میں سوہنے رب پر یقین قائم رہے تو بے نیازی دنیا کے پیچھے بھاگنے سے روک لیتی ہے"۔
شاہ حسین کے خیال میں"دنیا کے پیچھے بھاگنا اصل میں خود سے بچھڑنا ہے، جو خود سے بچھڑ جائے وہ اس تک نہیں پہنچ پاتا"۔
شاہ حسین جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ اکبر اعظم کا عہد تھا۔ شاہ کے اولین استاد مولوی ابوبکر کا شمار اکبر کے دین الٰہی کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ مولوی اکبر نے شاہ حسین کو قرآن حفظ کرانے کے ساتھ اس زمانے کی مروجہ تعلیم سے روشناس کرایا۔ شاہ نے ایک دن جب ان کی عمر 12سال تھی اپنے استاد سے دریافت کیا "لوگ بانٹ کر کھانے کی بجائے اپنے پیٹ میں بھوک کے بغیر کیوں ٹھونستے چلے جاتے ہیں؟" شفیق استاد نے محبت سے شاگرد عزیز کی طرف دیکھا اور فرمایا شاہ حسین تم بانٹ کر کھانا۔ شاگرد نے جواب دیا "فقیر اتنا کھائے گا ہی نہیں کہ بانٹنے کی ضرورت پڑے"۔
ادھوک سنگھ نے لکھا شاہ چوبیس گھنٹوں میں محض چند نوالے وہ بھی پانی کے ساتھ کھاتے۔ اس دوران عقیدت مند جو حاضر کرتے شاہ حسین ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے۔ فقیر راحموں کے بقول شاہ حسین جانتے تھے کہ "جمع کے مال کو دیمک لگ جاتی ہے"۔
شاہ حسین کے سوانح نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ شاہ عربی و فارسی کے بلند پایہ عالم اور ہندی کے علاوہ لاہور میں اس عہد میں بولی جانے والی پنجابی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ ادھوک سنگھ مالڑو کے بقول شاہ حسین کے بڑے ان کی پیدائش سے لگ بھگ 100سال قبل پنجاب کے کسی دورافتادہ گائوں سے تلاش رزق کے لئے لاہور آن بسے تھے۔ مالڑہ کے خیال میں ان کی زبان و لہجہ صادق ہے کہ وہ چناب دریا کے کنارے کے کسی شہر سے لاہور آئے تھے۔ میاں ظفر مقبول، شفقت تنویر مرزا، دلیپ تارا اور بھائی آشام سنگھ سمیت دیگر محققین نے ادھوک سنگھ مالڑہ سے اختلاف تو کیا مگر سوائے اس کے کچھ بھی نہ کہا کہ شاہ حسین جدی پشتی لاہوری تھے پتہ نہیں ان صاحبان نے اس روایت کو کیوں یکسر نظر انداز کردیا کہ شاہ حسین کے بزرگ ملتان کے علاقے وہاڑی کے کسی دور افتادہ گاوں سے لاہور منتقل ہوئے اور وہ ذات کے ڈھڈی راجپوت تھے۔
خیر اس بحث کو اٹھا رکھئے پھر کسی وقت شاہ حسین کی شاعری کے لہجے اور ان الفاظ پر بات کریں گے جن سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ شاہ حسین کا خاندان غم روزگار سے بندھا لاہور پہنچا تھا۔
1008ہجری 1599ء میں شاہ حسین دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاگئے۔ بھائی آشنام سنگھ اور شفقت تنویر مرزا ان کا سال وفات 1601ء کو قرار دیتے ہیں۔ پیدائش اور وفات کے برسوں میں سال بھر کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں۔
بڑی بات یہ ہے کہ شاہ حسین اس دور میں پیدا ہوئے جس میں تبدیلی مذہب کے ساتھ دنیا کمانے کا جنون پروان چڑھ رہا تھا۔ مسلمان خاندانوں کے نوجوان شاہی لشکر میں بھرتی ہونے کو سعادت کے ساتھ بہتر زندگی کی ضمانت سمجھتے تھے۔
اس ماحول میں آنکھ کھولے والے شاہ حسین شعور کی پہلی سیڑھی پر کھڑے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں"رب کو جنگ کی نہیں محبت کی ضرورت ہے"۔
ایسا لگتا ہے کہ شاہ حسین اپنے زمانے کے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کوئی بھی خالق اپنی تخلیق کی بربادی پر خوش نہیں ہوتا یا پھر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ عالمین کا رب اپنی مخلوق کی بربادی کو اس سے محبت کو جزا وار ٹھہراتا ہے۔ شاہ حسین کہتے ہیں"جدائی کی چھریاں تیروں اور تلواروں سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہیں۔ ان کا زخم زیادہ گہرا ہوتا ہے"۔ اے لوگو! ہم برے ہیں ہم ہی برے ہیں تم ہم جیسے گناہ گاروں سے دور رہو۔ ہمیں شام سویرے کی کچھ خبر نہیں۔ ہم تو محبوب کی تلاش میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں"۔
"جس بستی میں مالک کا ذکر اور بندوں سے محبت کا رواج نہ ہو وہ انسانوں کی نہیں ٹیں ٹیں کرنے اور بھونکنے والوں کی بستی ہے"۔
"بھاڑ میں گئی تیری شان و شوکت جو اس سے دور کرے اور بندوں سے بیزار۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں۔ فقیروں کی گودھڑی میں خوش"۔ شاہ زندگی گزارنے کے لوازمات بارے کہتے ہیں"دردو غم کی روٹی، دکھوں کا سالن، یہ سب ہڈیوں کا ایندھن جلاکر پکایا جاتا ہے"۔
"محبوب کے ہجر میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالی ہوئی ہے اس کا حال کس کس کو جاکر بتائوں۔ موت رانا راجہ نہیں دیکھتی نہ بچپن اور بڑھاپا۔ سب کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، دنیا سے کوچ لازم ہے۔ پھر کاہے کو طمع کی دیگ میں ہلکان ہوتاہے"۔
"دکھاوے کی عبادت کی اس کو ضرورت نہیں۔ دلوں کا حال جاننے والا تیرے من کے کھوٹ کو سمجھتا ہے لوگ تجھ سے متاثر ہوں تو ہوں یہ فقیر اس کے کرم سے سب جانتا ہے"۔
شاہ حسینؒ ملامتی صوفیاء کے طبقے کے نمایاں فرد ہیں۔ دائمی پڑاو پر یقین رکھنے والے شاہ حسین نے انڈس ویلی کے ادب میں (بعض محققین نے پنجابی ادب لکھا ہے) کافی کو روشناس کرایا۔ انہیں کلاسیکی دور کا بڑا اور نمائدہ شاعر تسلیم کرنے والوں کی رائے میں شاہ حسین کا تصوف اصل میں مستی کا تصوف تھا جو ملامتیوں کا اصل ہے۔
حق آگاہ شاہ حسین نے زندگی بھر امن و آشتی، صلح و محبت، بانٹ کر کھانے کی تلقین کی۔ ان کا کلام دلوں کو فتح کرتا ہے۔ ایک سچے انسان دوست شاہ حسین طبقاتی امتیازات اور ذات پات میں گردن تک دھنسے سماج کی اصلاح کے لئے زندگی بھر کوشاں رہے۔
ان کا کہنا تھا "لوگ سمجھتے کیوں نہیں جب اس کے حضور سجدے میں رکھے سر برابر ہیں تو پھر میں و تُو کا جھگڑا کیوں"۔ باغبانپورہ میں جہاں شاہ حسین کا مزار ہے یہ ان کے ابدی آرام کا دوسرا مقام ہے۔ شاہ حسین کو ان کی وصیت کے مطابق وفات کے بعد راوی پار شاہدرہ کے علاقے میں دفن کیا گیا۔ 13 برس بعد سیلاب سے ان کا مرقد متاثر ہوا تو عقیدت مندوں نے بابو پورہ (اب باغبانپورہ کہلاتا ہے) میں موجود مقام پر لا دفن کیا۔ آخری آرام گاہ کی اس تبدیلی کی وہ اپنی زندگی میں نشاندہی کرچکے تھے۔
شاہ حسین کے محققین نے مادھو لال پر ان کی نظر کرم کو کئی رنگ پہنائے مگر شاہ حسین کا اصل رنگ وہی ہے جو ان کے کلام سے عیاں ہے۔ طمع اور جمع سے کھلی نفرت، نفس کے سرکش گھوڑے پر ہمہ وقت سواری، ذات پات اور چھوت چھات سے اعلانیہ بیزاری۔ علم، انصاف، دردمندی کو مقصد زندگی قرار دینے و الے شاہ حسین ہمیں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں"روز اول سے کئے گئے وعدے کے پابند ہیں۔ اس وعدے کی لاج رکھنا ہم پر فرض ہے۔ شمع کے پروانوں کی طرح جل مریں گے مگر اپنے رب کے حضور رسوا نہیں ہوں گے"۔
"شاہ حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجو پریت لگ جائے اس کو توڑنا نہیں، نبھاناچاہیے، یہی حق بندگی ہے"۔
شاہ کہتے ہیں"عشق و مبحت کی حقیقت کو وہی جانتے ہیں جن کی ہڈیوں میں عشق رچ بس گیا ہے۔ سیم و تھور والی زمین میں کنواں کھودنے اور ریتلی زمین میں اناج اگانے کا کیا فائدہ"۔
یا پھر یوں کہ " اے میری ماں! میں کس سے کہوں جدائی کی دکھ بھری کہانی۔ میرے اندر مرشد کی جدائی کی آگ جل رہی ہے۔ مجھے معجزے کے کانٹوں نے زخمی کردیا ہے۔ مرشد کی جدائی کا ہر لمحہ مجھے مارے جارہا ہے"۔