Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Saneha 9 May Ke Baaz Muqadmat Ke Faislay

Saneha 9 May Ke Baaz Muqadmat Ke Faislay

"سانحہ" 9 مئی کے حوالے سے جناح ہائوس لاہور، کینٹ چیک پوسٹ ملتان، پی اے ایف ایئربیس میانوالی، جی ایچ کیو، بنوں کینٹ حملہ، چکورہ قلعہ حملہ، پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان حملہ کے مقدمات میں فوجی عدالتوں نے 25 افراد کو 2 سے 10 سال قید بامشقت کی سزائیں سنادی ہیں۔ ان سزائوں کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کئے جانے والے اعلامیہ پر آئندہ سطور میں بات کرتے ہیں۔

فی الوقت ایک سوال چین نہیں لینے دے رہا وہ یہ ہے کہ جناح ہائوس لاہور پر 9 مئی 2023ء کو ہونے والے حملے کے نامزد ملزموں میں پاکستانی نژاد امریکی شہری خدیجہ شاہ بھی شامل تھیں یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی بعض دیگر خواتین رہنمائوں کے علاوہ عمران خان کے بھانجے حسام نیازی ایڈووکیٹ، پی ٹی آئی وسطی پنجاب کی صدر محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اس مقدمے میں شامل ہیں تو کیا ملٹری کورٹس میں مقدمات کو حصوں میں چلایا جارہا ہے؟

نیز یہ کہ خدیجہ شاہ اس مقدمہ میں ضمانت پر رہا ہیں (چند دیگر خواتین کو بھی ضمانتیں ملی تھیں) خدیجہ شاہ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کی نواسی ہیں ان کے والد سلمان شاہ معروف ماہر معاشیات ہیں یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر خزانہ بھی رہ چکے۔

جناح ہائوس حملہ کیس میں انہیں سب سے پہلے ضمانت ملی تھی۔ خدیجہ شاہ ان دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے قائم کردہ جیل اصلاحات کمیشن کی بھی رکن ہیں۔ اشرافیہ کے طبقہ درجہ اول کی دختر نیک اختر سنگین نوعیت کے ایک مقدمے کی ملزمہ ہونے اور ضمانت پر رہائی کے بعد جیل اصلاحات کمیشن کی کیسے رکن بنادی گئیں یہ بذات خود سوال ہے لیکن دلچسپ بات اس سے سوا ہے وہ یہ ہے کہ جیل اصلاحات کمیشن کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے گزشتہ ہفتے کے دوران اڈیالہ جیل راولپنڈی کا دورہ کیا۔

دورے کے دوران انہوں نے جیل حکام کو حکم دیا کہ ان کی سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرائی جائے۔ جیل اصلاحات کمیشن کے رکن کی اس فرمائش نما حکم پر جیل حکام نے سرتسلیم خم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ کمیشن کے لئے وضع کردہ ٹی او آرز میں اس طرح کی ہدایت درج نہیں کہ کمیشن کا کوئی رکن کسی خاص قیدی سے ملاقات کا حق رکھتا ہے۔

یہ اطلاع بھی ہے کہ خدیجہ شاہ کی فرمائش یہ تھی کہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی جیل کے دفتر میں ان سے ملاقات کرائی جائے تاکہ وہ اپنے ہمراہ لائے ہوئے لنچ (دوپہر کے کھانے) کو ان کے ساتھ شیئر کرسکیں۔ جیل حکام کی معذرت کے بعد خدیجہ شاہ نے "سنتِ پیر منصور علی شاہ" پر عمل کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر اڈیالہ جیل حکام کی شکایت لگائی کہ ان کے حکم کے باوجود عمران خان سے ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی۔

خدیجہ شاہ کے خیال میں حکم کی یہ عدم تعمیل کمیشن کے رکن کی ہی نہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی بھی توہین ہے جنہوں نے جیل اصلاحات کمیشن قائم کیا تھا۔ ہمارے ایک قانون دان دوست رانا شرافت علی ناصر نے خدیجہ شاہ کے خط کو چیف جسٹس پر "بوجھ" قرار دیا ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ضمانت پر رہا ایک ملزمہ کسی ریاستی یا عدالتی طور پر بنائے گئے کمیشن کی رکن بن سکتی ہے۔ کیا جیل میں کچھ عرصے کا ان کا قیام جیلوں کے معاملات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔

ذاتی طور پر مجھے اس "خبر" سے کوئی دلچسپی نہیں کہ انہیں (خدیجہ شاہ کو) جیل اصلاحات کمیشن کا رکن بطور خاص "اہتمام کے ساتھ بنوایا گیا"۔ یہ اہتمام عدالتی تھا یا انتظامی ایک انشائیہ نما کہانی ہے مگر کامل تصدیق کے بغیر اسے کالم کا حصہ بنانے یا اس پر اظہار اچھا نہیں لگتا۔

البتہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اشرافیہ کے درجہ اول (فقیر راحموں کے بقول درجہ سپر اول) سے تعلق رکھنے والی خاتون پر ضمانت کے بعد ہوئی مہربانیوں نے سوالات کو ضرور جنم لیا۔

اب "سانحہ" 9 مئی کے مختلف مقدمات کی "ٹکڑیوں" برانڈ فیصلے نے ایک اور سوال کو دھمال ڈالنے پرمجبور کردیا ہے وہ سوال یہ ہے کہ لاہور میانوالی، چکدرہ، بنوں، مردان، راولپنڈی میں درج مقدمات کے ملزمان میں سے جن 25 ملزمان کو گزشتہ روز سزائیں دی گئیں یہ سب ملزمان اوسط اور نچلے درجوں کے سماجی طبقات کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں (ایک ملزم بارے عمران خان اور ان کی جماعت کا دعویٰ تھا کہ وہ اینٹیلی جنس افسر ہے پی ٹی آئی کا رکن نہیں ) تو کیا سزا و جزا ملٹری کورٹ سے طبقاتی بنیادوں پر ہواور ملے گی؟

اب آئیے آئی ایس پی آر کے اس اعلامیہ پر بات کرتے ہیں جو 25 افراد کو 2 سے 10 برس کی سزائوں کے ملٹری کورٹس کے اعلانات کے ساتھ جاری ہوا۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں کہا گیا "ان مقدمات کے دیگر ملزمان کی سزائوں کا اعلان ان کے قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جائے گا۔

نیز یہ کہ 9 مئی کی سزائوں کا فیصلہ قوم کے لئے انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل ہے"۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ "صحیح معنوں میں مکمل انصاف اس وقت ہوگا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا مل جائے گی"۔

9 مئی کا ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ ساز کون ہیں؟ ہم نے 9 مئی 2023ء کے واقعات کے بعد ان سطور میں عرض کیا تھا کہ 9 مئی بعض سابقین کا حاضر و ناظر ہم خیالوں کے ساتھ مل کر "انقلاب" کے لئے ایڈونچر تھا۔

باردیگر اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے عرض کئے دیتا ہوں کہ ایک سکیورٹی اسٹیٹ میں جس قسم کی پابند طبقاتی جمہوریت ہوتی ہے ہمارے ہاں عرصے سے ایسی ہی پابند و نیم پابند طبقاتی جمہوریت کا راج ہے۔ درمیان میں کبھی کبھی مالکان اپنے ساجھے داروں کی "بیڈ گورننس" سے ناراض ہوکر اقتدار سنبھال لیتے ہیں۔

مالکان کے براہ راست اقتدار کے 4 ادوار کا مجموعی دورانیہ لگ بھگ 34 برس بنتا ہے۔ 76 برس کے پاکستان میں سے 34 برس منہا کیجئے باقی 42 برس بچتے ہیں ان بیالیس برسوں میں محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کا عرصہ اقتدار بھی شامل ہے اور پھر پہلے صدر سکندر مرزکا تختہ الٹ کر ایوبی دور کا آغاز بھی۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ان 42 برسوں میں پابند طبقاتی جمہوریت اور عوامی جمہوریت کا عرصہ کتنا ہے؟ تاریخ، سیاسیات اور صحافت کے مجھ ایسے طالب علم کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو کا دور بھی لولی لنگڑی جمہوریت کا دور ہی تھا۔ باقی کے سارے نیم جمہوری ادوار نے سمجھوتوں کی کوکھ سے جنم لیا۔

جھرلو برانڈ انتخابات کی اپنی الگ الگ کہانی ہے۔ ہم آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے مندرجات کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ "9 مئی کا ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ ساز" سابقین (فوج کے) کو زعم یا خوش گمانی یہ تھی کہ حاضر و ناظر میں موجود ان کے شاگرد، سابق ماتحت اور بھانجے بھتیجے بیٹے اور داماد اس گرم انقلاب کا حصہ بنیں گے جو چھائونیوں کی دیواروں اور گیٹوں پر باہر سے دستک دے گا، لیکن ان سابقین نے نومبر 2022ء میں آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو روکنے کی اپنی کوششوں کے نتائج کو مدنظر رکھنے کی زحمت نہیں کی۔

عسکری دانش کے یہ سابق نابغے یہ بات بھی بھول گئے کہ کسی چھائونی کے اندر بغاوت یا گرم انقلاب کے لئے چلنے والی پہلی گولی آخری گولی ثابت نہیں ہوتی۔

پاکستان کی چاروں فوجی بغاوتوں میں ایک گولی چلائے بغیر اقتدار پر قبضہ کرلیا گیا تھا اسی طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 9 مئی کے گرم انقلاب کے منصوبہ ساز اس دوچند حقیقت کو بھی نہیں سمجھ پائے کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں جو اصل بینفشری ہوتا ہے وہ اپنے اجتماعی اور طویل المدتی مفادات کی حفاظت کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، کیونکہ کسی بھی طرح کے داخلی انقلاب کو مزید انقلابوں سے بچاکر نہیں رکھا جاسکتا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ ایک حاکمیت کلی سے دستردار ہونا یا کرانا بہت مشکل ہے۔

یہ وہ بنیادی نکات اور حقیقت ہیں جن کی روشنی میں ان سطور میں یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ سکیورٹی اسٹیٹ کی ملکیتی حکمرانی، پابند یا نیم پابند طبقاتی جمہوریت میں سے بہتر انتخاب پابند و نیم پابند طبقاتی جمہوریت ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ ان ادوار میں پرامن جدوجہد کے ذریعے عوامی جمہوریت کی حاکمیت کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے البتہ پابند و نیم پابند طبقاتی جمہوریتوں پر "چڑھ دوڑنے" کا نتیجہ پھر ایک نئے مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

حتمی بات یہ ہے کہ اچھی بری سیاسی جماعتوں کی جدوجہد سے سکیورٹی اسٹیٹ کے مالک نصف صدی میں پندرہ بیس قدم پیچھے ہٹے تھے لیکن 9 مئی کے بھونڈے گرم انقلاب کے منصوبہ نے اسے 120 قدم آگے لاکھڑا کیا ہے۔