ریاض محمد خان کی پاک افغان تعلقات کی تاریخ پر لکھی کتاب " پاکستان اور افغانستان " کے حوالے سے بعض باتوں کے شاہد کے طور پر پچھلے کالم میں جو لکھا وہ ان کی تصنیف کے اقتباسات تھے اور ان کے مشاہدات کے ساتھ کچھ کچھ تجزیہ بھی تھا۔
ہماری دانست میں اس امر سے انکار بہت مشکل ہے کہ آج کے پاکستان کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے انہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
پاک افغان تعلقات عجیب تاریخ رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایک بڑے دیندار طبقے نے ہمیشہ ہم مذہب افغان حملہ آورں کو نہ صرف سر آنکھوں پر بٹھایا بلکہ متعدد بار ہند و سندھ کے علاقوں پر حملوں کی دعوت بھی دی جیسا کہ شاہ ولی اللہ کی طرف سے ہندوستان پر حملے کی دعوت یا ملتان کے کچھ مولویوں کا اسماعیلی ریاست کو محض مسلکی بغض میں قرامطی ریاست قرار دینے والا وہ گمرا کن خط جس نے محمود غزنوی کو ملتان پر حملہ کرنے کی ترغیب دی
لیکن دوسری طرف اس سوچ کے حاملین بھی ہمیشہ رہے اور ہیں کہ حملہ آوروں کا مقصد مملکت میں توسیع خزانہ بھرنا اور "جوہر" دکھانا ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ بھی غلط العام ہے کہ افغانستان پر کبھی غیروں نے حکومت نہیں کی۔ باقیوں کو چھوڑیں غزنوی اور بابر کو ہی لے لیں دونوں نے افغانستان پر حکومت کی۔ محمود غزنوی ترک غلام زادے کا بیٹا تھا اور بابر تیموری النسل۔
تیمور بھی افغان نہیں تھا البتہ تیموری دور کا افغانستان علمی مرکز بنا۔
افغانوں کی عام شہرت (کم از کم صدیوں تک متحدہ ہندوستان میں یہی رہی) کہ کرائے کے سپاہی کے طور پر دوسروں کے لئے "خدمات" سرانجام دیتے دیتے ان میں اپنے راج پاٹ کا سودا سر میں سمایا بہرطور جو بھی ہے ہر دو صورتوں میں ا فغانوں کو بھگتنا متحدہ ہنوستان کے لوگوں کو ہی پڑا
برصغیر کے بٹوارے کے وقت بھی افغانستان حکومت کی خواہش تھی کہ پاکستان کے حصہ میں آنے والے پشتون علاقے اسے مل جائیں ان کے بقول یہ علاقے "کبھی" افغانستان کا حصہ رہے تھے لیکن اس خواہش کو پذیرائی نہ ملی۔
خان عبدالغفار خان اور ان کی سرخ پوش تحریک کے مطالبہ پر جو ریفرنڈم صوبہ سرحد (اب کے پی کے) میں ہوا اس کے نتائج پر اٹھتی انگیلوں پر کسی نے توجہ دی نہ صوبہ سرحد کی منتخب حکومت جس کے سربراہ ڈاکٹر خان تھے، کی برطرفی پر اس وقت کے چند اہل دانش کے سوا کوئی بولا، معاف کیجئے گا دوسری سمت کا سفر شروع ہوگیا یہ ایک الگ موضوع ہے، فی الوقت ہم ریاض محمد خان کی تصنیف پر بات کرتے ہیں۔
اس حوالے سے لکھے گئے پچھلے کالم میں پاک افغان تعلقات کے متعدد ادوار و امور پر بات ہوچکی۔
ایک تلخ حقیقت جسے عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد پھوٹی خانہ جنگی میں سوویت تعاون سے قائم افغان حکومت کے خلاف امریکہ اور مغرب کی سرپرستی میں ہوئے جہاد کے برسوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ لوگ مارے گئے۔
افراتفری و خانہ جنگی کی کوکھ سے طالبان نے جنم لیا۔ ابتداء میں تو طالبان کے مختلف گروپوں نے محفوظ راہداریوں کے نام پر "حق خدمت" وصول کیا اس طرح کا کاروبار کرنے والوں میں ملا عبدالسلام راکٹی نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ ریاض محمد خان اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ طالبان کی تخلیق میں آئی ایس آئی کا عمل دخل تھا۔
رائے رکھنا ان کا حق ہے لیکن دو باتوں کو انہوں نے نظرانداز کردیا اولاً 1993ء میں ہی طالبان سے رابطوں کے لئے ڈیسک کا قیام اور دوسرا بینظیر بھٹو کے دوسرے دور کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیراللہ بار کا یہ اعتراف کہ طالبان حکومت پاکستان کی تخلیق ہیں۔ وہ طالبان کے لئے "ہمارے بچے" کے الفاظ بھی استعمال کرتے تھے۔
افغان جہاد کے زمانہ میں دیوبندی مدارس میں زیرتعلیم جو افغان و پاکستانی طلباء جہاد پر گئے ان میں سے افغان طلباء نے بعدازاں"امارات اسلامیہ افغانستان"کا علم بلند کیا۔ افغانستان نے خانہ جنگی کے خاتمے اور پرامن حکومت کے قیام کی خواہش پر اول اول تو امریکہ بھی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہمنوا تھا۔
کیونکہ افغان جہادی تنظیموں کے مقابل میدان میں اترنے والے طالبان کو ابتداء میں امریکی حکام نے پاکستان کی رضامندی سے اسلحہ فراہم کیا جو کراچی بندرگاہ سے بلوچستان اور چمن بارڈر کے راستے قندھار پہنچایا گیا۔
اس اہم ترین بات کو ریاض محمد خان نے نظرانداز کیا لیکن وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی ابتدا اکتوبر 1994ء میں قندھار کے قریب پاکستان سے وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف جانے والے این ایل سی کے 40 ٹرکوں کے لوٹے جانے کے بعد طالبان نے جرائم پیشہ افراد اور ان کے سربراہ کمانڈر منصور کے خلاف کارروائی ٹرکوں کے عملے کی رہائی اور اگلے مرحلہ پر ان ٹرکوں کی بازیابی کے لئے تعاون کیا اور یہیں سے آئی ایس آئی اور طالبان کے درمیان تعلقات استوار ہوئے۔
یہی واقعہ آگے چل کر تحریک طالبان افغانستان کے قیام کا باعث بنا جس کے سربراہ پشتون غلزئی قبیلے کی ذیلی شاخ ہوتک سے تعلق رکھنے والے ملا عمر بنے۔ ملا عمر افغان جہاد کے زمانہ میں مولوی یونس خالص کی تنظیم سے منسلک رہے۔ اکتوبر 1994ء میں قندھار میں منظرعام پر آنے والے طالبان نے 1996ء تک متعدد کامیابیاں حاصل کیں۔
جلال الدین حقانی سمیت کئی اہم جہادی کمانڈر ان کے ساتھ مل گئے۔ گل بدین حکمت یار کے مرکز چارسیاب پر طالبان 1995ء میں ہی قبضہ کرچکے تھے۔ اردگان، پکتیا، خوست سمیت بہت سارے افغان صوبے ان کے کنٹرول میں آچکے تھے۔
جس وقت طالبان نے کابل کے دروازے پر دستک دی کابل احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کی انائوں کی سزا بھگت رہا تھا۔ ریاض محمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طالبان کی دو ٹوک انداز میں کھل کر حمایت اس وقت شروع کی جب احمد شاہ مسعود اور اسماعیل خان کے حامیوں نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو نذرآتش کردیا۔ اس واقعہ میں ایک پاکستانی اہلکار جاں بحق ہوا تھا جبکہ پاکستان کے سفیر قاضی ہمایوں زخمی حالت میں مشکل سے اپنی جان بچاکر وطن پہنچ سکے۔
ان کے خیال میں طالبان اور عالمی برادری کے درمیان اختلاف اس وقت کھل کر سامنے آئے جب کابل میں ملا ربانی کی سربراہی میں قائم 6 رکنی شوریٰ نے طالبان کی مخصوص مذہبی تشریح کے مطابق نفاذ اسلام کا اعلان کیا۔ خواتین اور اقلیتوں سے سخت گیر رویہ ہی عالمی برادری کی بدظنی کا موجب بنا۔ طالبان نے لڑکیوں کے سکول بند کردیئے خواتین کے ملازمت کرنے پر پابندی لگادی، کابل شوریٰ نے ہندوئوں اور سکھوں کو حکم دیا کہ وہ مخصوص رنگ کا لباس پہنے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
شمالی افغانستان کی صورتحال کے موجب روس، وسط ایشیائی مسلم ریاستیں اور ایران طالبان سے شدید نالاں تھے۔ ایران اپنے 40 ٹرک ڈرائیورں اور گیارہ سفارتکاروں کے قتل پر برہم تھا۔ معروف بین الاقوامی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا دعویٰ تھا کہ ایرانی سفارتکاروں اور ڈرائیوروں کے قتل میں پاکستانی مدارس کے طلبا جو طالبان کی صفوں میں شامل ہیں ملوث تھے۔
ریاض محمد خان نے نہ صرف تین بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی اس رپورٹ کو نظرانداز کیا بلکہ وہ نومبر 1998ء میں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی اس رپورٹ سے بھی پہلو تہی کرگئے کہ
"طالبان کے شمالی افغانستان پر حملہ کو پاکستان کے ان دیوبندی مدارس میں (جو انجمن سپاہ صحابہ کے ہم خیال تھے) جہاد اکبر کا نام دیا گیا۔
یوں ہرات، مزار شریف، بامیان اور ہزارہ جات پر طالبان کے قبضے کی لڑائی خالص فرقہ وارانہ عقائد کے جذبوں سے لڑی گئی۔ ان چاروں مقامات پر ہی افغانستان کے صوفی سنی اور شیعہ مسلمانوں کو زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ان جیسا جہاندیدہ آدمی اس حقیقت سے بھی آنکھیں چراکر آگے بڑھ گیا کہ یہ طالبان ہی تھے جنہوں نے پاکستان میں مسلکی اسلام کی بالادستی کے لئے جہاد و قتال کے عقائد رکھنے والی انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو خوست، پکتیا اور قندھار میں محفوظ تربیتی کیمپ بناکر دیئے اور بدلے میں مخالفین سے اپنی لڑائیوں کے لئے پاکستان کے دیوبندی مدارس سے افرادی قوت حاصل کی۔
گو انہوں نے مزار شریف میں طالبان کے ردعمل کو ان کے سال بھر قبل کے جانی نقصان کا نتیجہ قرار دیا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
ملا ربانی کی 6 رکنی کابل شوریٰ اکتوبر 1997ء میں ہی فتویٰ نما حکم جاری کرچکی تھی جس کے تحت طالبان کے عقیدے کے مخالف دیگر عقائد کی تبلیغ، مساجد و دیگر عبادتگاہوں کا قیام غیرقانونی قرار دے دیا گیا تھا۔
شمالی افغانستان کے شہر جوڑجان پر قبضہ کے بعد طالبان نے بیدردی کے ساتھ مخالف مکاتب فکرکے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس المناک سانحہ کے بعد ترکی کی حکومت نے پہلی بار کھل کر طالبان کی نہ صرف مذمت کی بلکہ عبدالرشید دوستم کو مالی و عسکری امداد بھی دی۔
اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں طالبان سے تعاون کرکے پاکستانی اشرافیہ نے شمالی اتحاد کو مستقل نظرانداز کیا اور اسے اپنا دشمن بنالیا۔
اس پالیسی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا بالخصوص اس وقت جب طالبان کو مزار شریف میں شکست ہوئی تو شمالی اتحاد نے طالبان کی صفوں میں موجود پاکستان کو وحشیانہ سزائیں دیں۔
جاری ہے۔۔