Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home/
  2. Haider Javed Syed/
  3. Ustad Mushtaq Ahmad Khan Ka Saffakana Qatal

Ustad Mushtaq Ahmad Khan Ka Saffakana Qatal

دسمبر 2016ء میں مشتاق احمد خان سے صوابی میں پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا ذریعہ ہمارے نوجوان دوست اسد علی خان یوسفزئی بنے۔ سال دو ہزار سولہ کے دسمبر میں لگ بھگ 15 دن صوابی میں قیام دلچسپ رہا۔ ہمارے میزبان دوست جہانزیب خان اِن دنوں تحریک انصاف میں ہیں اُن دنوں وہ مسلم لیگ (ن) کے سرگرم رہنما تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہی وہ ضلع کونسل صوابی کے رکن بھی رہے۔

پندرہ روزہ قیام صوابی کے دوران جہانزیب خان ہی مرکزی میزبان تھے کیونکہ قیام ان کے (ڈیرے) حجرے پر رہا واپسی حسب پروگرام ہونا تھی کہ اچانک جہانزیب خان نے اپنی والدہ محترمہ کا حکم نامہ سنایا کہ لاہور سے آئے مہمان کو تین دن کے لئے مزید روک لو۔

اس حکم کی وجہ ان کی پوتی اور ہمارے دوست جہانزیب خان کی صاحبزادی کی منگنی کی تقریب تھی۔ منگنی کی تقریب میں شرکت کے لئے روکے گئے مہمان کو میزبان دوست کی والدہ محترمہ کے حکم پر وہ تمام چیزیں لے کر دی گئیں جو میزبان کے دوسرے بھائیوں کے لئے تھیں۔

کپڑوں کے 2 جوڑے، چپل، گرم چادر اور ایک ویسکوٹ کے ساتھ سوئٹر بھی۔ میرے لئے یہ ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا کہ ایک مادر گرامی کے حکم پر مہمان کو خاندانی تقریب میں شرکت کے لئے روکا جائے اور پھر اپنے صاحبزادوں کی طرح اس کے لئے بھی تقریب میں شرکت کے لئے نئے کپڑے وغیرہ دلوائے جائیں۔

مشتاق احمد خان سے صوابی میں پہلے دن ہی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے گلے ملتے ہوئے کہا شاہ جی اس شہر کا ہر وہ شخص جو اخبار پڑھتا ہے آپ کو جانتا ہے کل جب شہر کی سیر کے لئے نکلیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔

گزشتہ شب کے ابتدائی حصے میں ہمارے دوست اور پی پی پی صوابی کے رہنما صفدر علی ایڈووکیٹ نے مشتاق احمد خان کے سفاکانہ قتل کی اطلاع دی تو جسم سُن ہوکر رہ گیا۔ فون پر چند ساعتوں کے لئے خاموشی چھاگئی پھر میں نے سوال کیا یہ سانحہ کیونکر ہوا کوئی رنجش، پرانی دشمنی یا کوئی اور وجہ؟

صفدر علی ایڈووکیٹ بولے، شاہ جی ابھی تو ہسپتال میں موجود ہیں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس سے کچھ دیر بعد صوابی کے صحافی دوست جلیل احمد خان سے بھی اس سفاکانہ قتل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں صفدر علی ایڈووکیٹ نے مشتاق احمد خان کے قتل کی درج ایف آئی آر کا عکس بھجوایا ہے۔ ورثا نے اندراج مقدمہ کی دعویداری میں چند افراد کو ایک نامعلوم شخص کے ہمراہ مقدمہ میں نامزد کیا ہے۔ یہ سطور مکمل ہونے تک مرحوم مشتاق احمد خان کو سپردخاک کردیا جاچکا ہوگا۔

دکھ ہے اور تمام دکھ، میں جس مشتاق احمد خان کو جانتا ہوں ان کے ہمراہ 15 دن صوابی میں بسر کئے وہ ایک صاحب مطالعہ زندہ دل ہمہ وقت مسکراتے رہنے والے اور دوست نواز شخص تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے انہوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ میری رائے میں ان جیسے شخص کو معلم ہی ہونا چاہیے تھا ایک ہنستا مسکراتا کتاب دوست شخص ہی نئی نسل کی درست خطوط پر تربیت کرسکتا ہے۔

دو ہزار سولہ میں وہ ایک مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اپنے شعبہ کے علاوہ انہیں ملکی و علاقائی سیاست سے بھی دلچسپی تھی اس دلچسپی کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کے حامی تھے۔ ان کے بقول ان کا خاندان ہمیشہ مسلم لیگ کا حامی رہا۔

صوابی میں پندرہ روزہ قیام کے دوران وہ روزانہ دوپہر کو جہانزیب خان کے حجرے میں آجاتے اور پھر رات گئے تک دیگر دوستوں کے ساتھ محفل جمائے رکھتے ان محفلوں میں ہم نے دنیا جہان کے موضوعات کے علاوہ دستیاب مسلم مکاتب فکران کے قیام اور اختلافات کی وجہ پر پڑی تفصیل کے ساتھ باتیں کیں، خوب بحثیں ہوئیں میرے لئے یہ حیران کن انکشاف تھا کہ صوابی ضلع میں اس وقت میری مذہبی فہم کا میں ہی واحد شخص موجود ہوں۔

پنج پیری خاندان کے حوالےسے شہرت رکھنے والے صوابی میں ان دنوں، اے این پی، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقاتیں رہیں اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ یہ ملاقاتی دن بھر آتے رہتے تھے۔

مغرب کے بعد جمنے والی محفل میں جہانزیب خان، استاد مشتاق احمد، اسد علی یوسفزئی، صفدر علی ایڈووکیٹ اور چند دوسرے دوست بھی ہوتے تھے ان چار پانچ گھنٹوں کے دوران میزبان کا حجرہ (ڈیرہ) ہائیڈ پارک بنا رہتا۔ بات کرنے بلکہ یوں کہہ لیجئے سوال کرنے اور جواب دینے کی کامل آزادی سے بھرا ماحول میسر ہوتا۔

فتوے بازی اور نخوت سے محفوظ اس محفل میں سب سے زیادہ سوالات مشتاق احمد خان (اب مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے) کے ہوتے۔ وہ میرے جوابات سے اگر کہیں اختلافات کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے تو انتہائی شائستگی و بردباری کے ساتھ دلیل سے اختلاف رائے کی عمارت اٹھاتے۔

ان کے سفاکانہ قتل پر دکھ کے ساتھ حیرانی بھی ہے۔ ایک شفیق ملنسار و کتاب دوست معلم اور دوست نواز شخص سے کسی کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ یہ سوال گزشتہ شب سے دستک پر دستک دے رہا ہے۔

میں انہیں اولین ملاقات سے ہی معلم ہونے کی وجہ سے استاد محترم کہہ کر بات کرتا فیس بک اور واٹس ایپ پر ان سے نوک جھونک بھی رہتی۔ وہ قدیم مسلم لیگیوں کی طرح اے این پی اور پیپلزپارٹی کے سخت ناقد تھے۔ کبھی کبھی بعض مشترکہ دوست بعض معاملات میں ان کے سخت موقف پر متوجہ کرتے تو مجھے یہ عرض کرنا پڑتا کہ یار یہ بات تو ہے کہ ہمارے استاد جی جس جماعت مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں اس پر بھی کاٹ دار انداز میں بے رحم تنقید کرتے ہیں۔

درست بات یہ ہے کہ وہ منافق ہرگز نہیں تھے۔ منہ آئی بات کہنے سے ٹلتے ہرگز نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی قلابازیوں پر ان کی درجنوں مختصر تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مشتاق احمد خان ایک باشعور انسان تھے اسی لئے وہ اس جماعت پر بھی تنقید کرلیتے جس کے حامی تھے۔

زندہ دلی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دوستوں کی محفل میں چند لمحوں بعد ہی انہیں مرکزی حیثیت مل جاتی ان کے ساتھ گزرے ہوئے 15 دنوں کے دوران پشتون کلچر تہذیبی ارتقا، سیاسی صورتحال، تقسیم برصغیر مروجہ سیاست کے ساتھ قدیم تاریخ کے مختلف ادوار کے علاوہ تقابلی ادیان و ذیلی عقائد (فرقوں) پر لمبی گفتگوئیں ہوئیں۔

2016ء کے بعد سے تقریباً ہفتہ دس دن بعد ان کا فون آجاتا خیر خیریت کے علاوہ وہ میری کسی تحریر یا پوسٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ خیبر پختونخوا کی صورتحال اور حکومتی کارکردگی سے بھی آگاہ کرتے رہتے تھے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ قیام صوابی کے دوران ایک دو بار ان کے ہمراہ شہر میں مٹر گشت (گھومنے پھرنے) کے لئے گیا تو کئی لوگوں نے ہمیں روک کر پشتو میں ان سے دریافت کیا "یہ حیدر جاوید سید" ہے نا؟ وہ مسکراتے ہوئے اثبات میں جواب دیتے اور مجھے کہتے شاہ جی میں کہا تھا نا کہ اس شہر میں اخبار پڑھنے والا تقریباً ہر شخص آپ کو جانتا ہے۔

ہمارے یہ مرنجا مرنج صاحب مطالعہ ملنسار بزلہ سنج دوست اور شفیق انسان گزشتہ روز قتل کردیئے گئے۔ ان کا قتل کیوں ہوا؟ امید تو نہیں کہ اس سوال کا جواب مل سکے پھر بھی قتل کی وجہ سامنے آنا ضروری ہے۔

جہانزیب خان، صفدر علی ایڈووکیٹ اور دوسرے دوستوں کو خم ٹھونک کر پیروی کرنا چاہیے۔ مقتول استاد مشتاق احمد خان سے ہمارے محبت و احترام بھرے تعلق کی ایک وجہ ہم دونوں کا بیٹیوں کا باپ ہونا بھی تھا۔

میں جب بھی اپنی صاحبزادی کے حوالے سے کوئی تحریر لکھتا ان کا فون ضرور آتا اور وہ کہتے شاہ جی بیٹی سے بڑی نعمت کائنات میں کوئی نہیں۔ بیٹیوں کو نعمت سمجھنے والے مقتول باپ کی بیٹیوں پر اس سفاکانہ قتل کی بدولت کیا گزر رہی ہوگی یہ درد صرف بیٹیاں ہی محسوس کرسکتی ہیں۔