زندگی اور موت کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ "موت اک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر" اس کے مطابق تو موت کو جو ایک حقیقت ہے اسے بہرحال قبول کر لینا چاہیے لیکن اس کا خوف اور آیندہ کے بارے لا علمی انسانی جذبات کو شاعر کی اس منطق کو سمجھنے اور قبول کرنے کے درمیان حائل ہو کر اسے ناقابل قبول قرار دیتی ہے یعنی موت کو خاتمہ بالخیراور رضائے الٰہی تسلیم کر لینا چاہیے لیکن جو حق ہے وہی سچ ہے۔
مذکورہ بالا بحث جو چند لوگوں کے درمیان ایک مرگ پر جاتے ہوئے موٹر کار میں ہوئی نظر انداز کر کے مجھے ذکر کرنا ہے اس بہادر ڈاکٹر کا جو ڈیڑھ سال کی طویل بیماری کے بعد اللہ کو پیارا ہوا۔ ڈاکٹر عبدل اَحد کے بیٹے ڈاکٹر وقاص سے ملنے اور تعزیت کرنے میرے ساتھ ڈاکٹر نصرت اللہ اور بی اے ناصر تھے۔ مرحوم دوست ڈاکٹر اَحد کی فیملی مختصر تھی۔ بیگم کئی سال قبل وفات پا گئی تو اَحد تنہائی کا شکار ہوا کیونکہ وقاص بھی میڈیکل تعلیم کی غرض سے امریکا وغیرہ زیادہ وقت گزارتا۔ ڈاکٹر احد گھر پر اکیلا ہوتا یا بیرون ِ ملک بیٹے وقاص کے پاس چلا جاتا۔ اب وقاص ہی اس کی تنہائی کا ساتھی تھا یا ہم لوگ۔
عبدل اَحد کی پیدائش 1943 میں شہر کوئٹہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے لیاقت میڈیکل کالج اور GC سے ڈاکٹری پاس کی۔ اس کے بعد اس نے سرجری کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے والد بھی ماہر سرجن تھے اور دادا بھی ڈاکٹر تھے۔ عبدل اَحد کی واحد اولاد وقاص ہے جو سرجری کا ماہر اور ایک امریکی کالج میں پڑھاتا ہے۔ یہ مختصر خاندان چار ڈاکٹروں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عبدل اَحد کا بیٹا وقاص والد کی بیماری کا سن کر آگیا تھا۔ ڈاکٹر اَحد کنگ سعود یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا۔ فوجی فائونڈیشن، ایف جے کالج، شیخ زید کالج اور سینٹرل پاک میں بھی کام کیا۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس میں چار ڈاکٹر انسانوں کی زندگیاں بچانے کی خدمت میں مصروف رہے اور ایک اب بھی مصروف ِ عمل ہے۔ ڈاکٹر احد بچپن ہی سے اسمارٹ اور پھرتیلا، تیز طرار تھا اس لیے اسپورٹس کا دلدادہ تھا۔
انھیں اعلیٰ اور قیمتی سوٹ بطور ڈریس پہننے کا ہی شوق نہیں تھا، جوانی میں اپنی اچھی موٹر کار رکھنے کا بھی شوق رہا۔ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے سول سرجن دوستوں کے ساتھ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کا دورہ ضرور کرتے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل نے ان ریٹائرسول سرجن دوستوں سے کہا کہ تمہاری ظاہری جوانی کا جائزہ لینے کے لیے تمہاری Race دیکھنا چاہتا ہوں۔ تم سب پرنسپل کے کمرے کو دوڑتے ہوئے ہاتھ لگا کر واپس آئو۔ ڈاکٹر احد اس دوڑ میں اوّل آئے۔ پھر تو دوڑکا یہ مقابلہ ایک معمول بن گیا اور ہمیشہ ڈاکٹر احد اوّل آتے۔
پونے دو سال قبل خدائی قہرکی صورت کورونا وبا اُتری تو ڈاکٹر احد اس میں مبتلا ہو کر اسپتال داخل ہو گئے۔ ان کے مکان پر ان کا اکلوتا Cook بھی اس سے متاثر ہوا اور اس کی بیوی بھی۔ یہ دونوں تو جلد صحت یاب ہو گئے لیکن ڈاکٹر احد کی صحت بے حد متاثر ہوئی۔ ان کی تکلیف دہ بیماری چار ماہ تک رہی۔ اس میں بہتری تو ہوئی لیکن انھیں مختلف بیماریاں گھیرنے لگیں۔ میری ان سے ٹیلیفون پر بات ہوتی لیکن وہ مجھے ملاقات کی اجازت نہ دیتے۔
دراصل Covid نے ان کے دل اور پھیپھڑوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔ وہ شخص جس کی چار نسلوں نے بیمار لوگوں کی صحت یابی کے لیے رات دن ایک کیے رکھا تھا، آج خدا کے رحم و کرم پر تھا۔ ایک طویل عرصے سے ڈاکٹر نصرت اللہ، ڈاکٹر احد، بی۔ اے ناصر، جاوید اقبال، رانا ادریس اور مجھے ہر بدھ کے روز شام 3 بجے ڈاکٹر نصرت کے PA کا فون آتاکہ آج بُدھ ہے اور ہم 8 بجے اکٹھے مل کر کھانا کھاتے۔ کبھی کبھار فون آ جاتا کہ آج بدھ نہیں ہے۔ اور اب Covid کے دن ختم ہوں گے تو سب دوستوں کو فون جایا کرے گا ماسوائے ہمارے عزیز ترین دوست احد کے۔