میں نے ایک شخص کو دوسرے سے پوچھتے سُنا کہ دیکھا گیا ہے کہ شروع شروع میں اگر کوئی اقتدار سے الگ ہو تو کچھ لوگ اُس کا تھوڑا عرصہ ساتھ دیتے پھر مڑکر دیکھتے ہیں تو آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا۔
اب حالات چند سال سے یہ ہیں کہ شریف خاندان اور ن لیگ کے دیگر سیاستدان جیل سے ضمانت پر یا پیشی کے لیے باہر آئیں تو ہجوم اُن کے ساتھ نعرہ زن آگے پیچھے چلتا ہے۔ ان کی کاروں پر ڈھیروں گلاب کی پتیاں بچھاور ہوتی ہیں۔ وہ ضمانت پر نکلیں، سزایاب ہو کر جیل کی طرف لیجائے جائیں یا عدالت سے برَی ہو کر نکلیں تو بھی نعروں اور گلاب کی پتیوں والاایک جیسا منظر ہوتا ہے۔ کیا اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے؟
دوسرے نے کہا، ایک تو یہ کہ ان سے فیض یاب ہو کر ساتھ دینے والے یا پھر اِس اُمید پر ساتھ نہ چھوڑنے والے جنھیں ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا پکا یقین ہو۔ شریف فیملی کی اس آئوبھگت اور چینی، گندم دالوں کی گرانی اور اِن ایشوز پر عمران مخالف تقریروں، ہنگاموں کا سوچ کر مجھے صدر ایوب خاں کا چینی کی قیمت چارآنے فی کلو بڑھانا یاد آ گیا۔ ایوب خاں کے دور میں چینی کی قیمت چار آنے بڑھنے پر راولپنڈی میں جلوس اور ہنگامے شروع ہو گئے۔
میں اور ایک DSP جیپ میں جلوس کے پیچھے چلتے رہے۔ جب جلوس رکتا تو ہم بھی جیپ کھڑی کر لیتے۔ یہ سلسلہ بعد دوپہر شروع ہوتا اور شام تک چلتا رہتا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ایک کار ہماری جیپ کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ میں نے ادھر نظر دوڑائی تو یہ دیکھ کر پریشانی ہوئی کیونکہ کار شوکت ایوب چلا رہا تھا اور میری توجہ کا منتظر تھا۔ ہماری نظریں ملیں تو شوکت نے ہندکو پنجابی زبان میں مجھ سے پوچھا "بھاپے ایہہ جلوس کیسا اے " میں نے جواب دیا ــ " صدر صاحب دی" شان وچ" نعرے لگ رہے نے، گڈی موڑ تے دوسرے پاسے نکل جا"۔
صدر بازار راولپنڈی میں ایک موٹر کاروں کا بڑا شو روم تھا جس کا مالک ہمارا دوست تھا۔ شام کے بعد وہاں دوستوں کا اکٹھ ہوتا تھا۔ وہاں میرا دوست شوکت ایوب بھی آ جاتا۔ جب جنرل ایوب کا انتقال ہوا تو میں تدفین میں شمولیت کے لیے شوکت کے ہمراہ ان کے گائوں ریحانہ بھی گیاتھا۔ شوکت راولپنڈی میں میری شادی میں بھی شامل ہوا تھا۔
میں ایک چھوٹا سرکاری ملازم اور صدر مملکت کے صاحبزادوں سے دوستی آج ایک خواب معلوُم ہوتا ہے۔ ایوب خاں کے دوسرے بیٹے اختر کو لٹریچر کا شوق تھا، اسی لیے شو روم کلب میں ملاقات تعلق میں بدلی تو کبھی کبھی ہم مغرب کے بعد اکٹھے سیر کے لیے صدر راولپنڈی کے فٹ پاتھ پر گھومتے، باتیں کرتے نکل جاتے۔
ایک روز فٹ پاتھ پر چائے کا کھوکھا دیکھ کر اختر نے کہا کافی سیر ہو گئی، ایک ایک کپ چائے نہ پی جائے؟ یوں ہم نے فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے چائے پی۔ اُن دِنوں اور تعلقات کا مقابلہ آج کے دَور اور حکمرانوں سے کروں تو وہ سب خواب معلوم ہوتا ہے اور یقین ہی نہیں آتا کہ وہ سب سچ تھا۔
ایوب خاں صاحب کے دو بیٹوں کا تو ذکر ہو چکا۔ ان کے تیسرے بیٹے کی شادی ایک سینئر آرمی آفیسر کی بیٹی سے ہوئی۔ میں ان دونوں میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا۔ ایک روز میرے پاس سیشن کورٹ سے بھیجے کاغذات آئے جس کے مطابق کسی کی ضمانت منظور ہونے کے بعد Bail Bonds کی تصدیق کر کے اسے رہا کرنا تھا۔
ضمانت والا یہ شخص ایوب کا تیسرا بیٹا اور شوکت کا بھائی تھا۔ راولپنڈی سے تبادلے کے بعد میں مذکورہ تینوں بھائیوں سے کبھی نہیں ملا۔ اگر یاد آتی ہے تو شوکت ایوب کی۔ سوچتا ہوں کہ میری کیا حیثیت تھی کہ ان دونوں نے مجھے اتنی اپنائیت دی۔