یہ بیس سال پرانی بات ہے، شہر کی ایک پارک کے کنارے ایک درخت کے نیچے گھاس پر وہ صاحب ایک مائی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے دس ہزار روپے کے نوٹ گِن کر ساتھ کھڑے دو افراد میں سے ایک کو پکڑائے کہ ذرا دوبارہ گِن کر اس خاتون کو پکڑا دیں۔
یہ قرضِ حسن کا پروگرام تھا جس کا مقصد بلا سود اُن لوگوں کو قرض فراہم کرنا تھا جو تنگدستی کی وجہ سے بدحال ہیں اور پھر چوری ڈکیتی کر کے گزارہ کرتے یا پھر بھوک اور بیماری کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یوں تو ہمارے ملک میں بیشمار لوگ صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن دس ہزار روپے سے قرض حسن کی ابتدا کرنے والے شخص کا پروگرام ملک میں بھکاری پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ لوگوں میں محنت اور کام کر کے ان کو محنتی اور ہنر مند بنانے کا جذبہ پیدا کرنا تھا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں محنت اور کام کر کے خود میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنا اور قرض لینے والے کو قرض دینے کے قابل بنانا تھا تاکہ ملک میں کوئی بھکاری، بیکار، سست اور نا اہل نہ رہے۔ یہ قرض حسن کی ابتدا تھی۔
بیس سال قبل جو شخص درخت کے نیچے گھاس پر بیٹھی غریب عورت کو کاروبار کرنے کے لیے دس ہزار روپے قرض حسن دے رہا تھا وہ میڈیکل گریجوایٹ اور پھر سول سروس جائین کر کے ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے کر اخوت کے نام کی تنظیم قائم کرنے والا ڈاکٹر امجد ثاقب تھا۔ دنیا میں قرض ِ حسن کا سب سے بڑا پروگرام جس کا آغازآج سے بیس سال قبل ہوا، اخوت کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں سے اب تک 150 ارب روپے بلا سود بطور قرض تقسیم ہو چکے ہیں۔ ان قرضوں سے اڑھائی کروڑافراد فیض یاب ہو چکے ہیں۔
ان قرضوں کے ضامن ہونے کی وجہ سے شرح ریکوری 99 فیصد رہتی ہے۔ اگر قرض لینے والا بروقت قرض واپس نہ کرے تو قرض کی واپسی ضامن کی ذمے داری ہوتی ہے۔ یہ رقم جو مستحقین کو دی جاتی ہے دنیا بھر کے نیک اور مخیرلوگ اخوت کو دیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ان کے عطیات گداگری کو ختم کرنے اور ضرورت مندوں کی مشکلات کم کرنے میں ایمانداری سے استعمال ہوں گے۔
دُنیا کی بہترین آڈٹ فرم سے اس تنظیم کے عطیات اور اخراجات کا آڈٹ کرایا جاتا ہے اور اس کے سب سے کم انتظامی اخراجات ہوتے ہیں۔ قرضوں کی تقسیم صرف مساجد، چرچ اور مندر میں ہوتی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں چار ہزار سے زائد ملازمین، آٹھ سو سے زائد دفاتر اور چار سو شہروں میں یہ فرض انجام دیا جا رہا ہے۔ اس کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہے۔
غریب افراد قرض حسن وصول کر کے کوئی نہ کوئی کام شروع کر کے روزی کماتے ہیں۔ ملک کے سارے صوبوں بشمول بلتستان گلگت، آزاد کشمیر، فاٹا سمیت چار سو شہروں میں قرضوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ دس ہزار سے شروع ہونے والا قرض حسن اب تیس ہزار روپے ہے۔
اخوت نے اب لوگوں کی تعلیم اور تربیت پر بھی توجہ دینی شروع کر دی ہے۔ اس وقت اخوت کے چار کالجزجن میں اخوت کالج و یونیورسٹی قصور، اخوت کالج فیصل آباد، اخوت کالج برائے خواتین چکوال اور کراچی قائم کیے گئے ہیں۔ اب تک 600 سے زائد طالب علم اخوت کالج و یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔
اخوت نے ایک کلاتھ بینک بھی قائم کیا ہے اس بینک میں لوگوں سے قابل استعال کپڑے وصول کر کے انھیں ڈرائی کلین کروانے کے بعد پیک کر کے معاشرے کے ضرورتمند افراد کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کلاتھ بینک سے ستائیس لاکھ افراد کو تیس لاکھ سے زائد کپڑے فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اخوت نے ہیلتھ سروسز کی سہولت اور طبی مشوروں کا بھی انتظام کیا ہوا ہے جہاں سے لاکھوں مریض استفادہ کر چکے ہیں۔
ریمون میگ سائے فاؤنڈیشن نے غربت کے خاتمہ، انسانی وقار کی بحالی کے لیے اور بلاسود قرضوں کے ماڈل کی بنیاد رکھنے پر ڈاکٹر امجد ثاقب کو مورخہ31اگست2021 کو ایوارڈ سے نوازا۔ یہ ایوارڈ ایشیا کا نوبل پرائز تصور کیا جاتا ہے۔
دبئی کے پرنس شیخ حمدان نے Global Islamic Economy Summit 2018 ایوارڈ دیا اور ملکہ برطانیہ نےCommon Wealths Point of Light ایوارڈ پیش کیا۔ میگ سائے سائے فاؤنڈیشن فلپائن ہر سال ایشیا کے چالیس ممالک سے 4 عظیم شخصیات کو اس ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ ماضی میں ایوارڈ حاصل کرنے والی نمایاں شخصیات مدر ٹریسا، دلائی لاما اور ڈاکٹر محمد یونس شامل ہیں۔ اخوت اس وقت دنیا میں بلا سود قرضوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔