بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے تو نمک کے پہاڑ نہیں دیکھے ہو ں گے نہ جانتے ہوں گے۔ انھوں نے تو صرف کھانے کی میز پر پڑی نمکدانیاں دیکھی ہوں گی۔
دنیا کے نمک کے دو سب سے بڑے پہاڑوں میں دوسرا بڑا پہاڑ پاکستان میں ہے۔ دوسروں کو تو چھوڑئیے پاکستانیوں میں سے بھی شاید ایک سو افراد میں سے ایک کو علم ہو کہ جو نمک وہ ہر کھاتے ہیں وہ کہاں سے آ تا ہے۔ دو دوست بچوں میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا تم نے صبح انڈہ کھایا۔ اس کے لیے نمک کہاں سے لیا۔ جو اب ملا، نمک دانی میں سے۔
پہلے نے پھر پوچھا، نمکدانی میں کہاں سے آیا۔ جواب ملا بڑے جار میں سے، پھر سوال آیا جا ر میں کہاں سے آیا۔ جواب ملا، اسٹور سے خریدا۔ سوال آیا اسٹور میں کہاں سے آیا، اب بچہ لا جواب ہو کر ہنسا تو دوسرے نے کہا میرے ابو نے بتا یا ہے کہ نمک کے پہاڑ ہوتے ہیں۔ دو نمک کے پہاڑ مشہور ہیں۔ دنیا کا سائز میں دوسرے نمبر پر آنے والا پہاڑ کھیوڑہ رینج کہلاتی ہے۔ اس کی دریافت بھی تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔
سال 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان جنگ ہوئی توکچھ گھوڑے بیمار ہو گئے لیکن وہ گھاس کھاتے ہوئے دُور پہاڑیوں کوبھی چاٹتے رہے جس سے وہ صحت یاب ہو گئے، ان گھوڑوں کے پتھر چاٹ کر صحت یاب ہونے سے نمک دریافت ہوا۔
کھیوڑہ میں سفید نمک کے علاوہ Pink نمک بھی ہے لیکن وہ بہت کم مقدار میں لیکن بہت سی خوبیوں کی وجہ سے ایکسپورٹ ہو تا اور مہنگا بھی ہے۔ پنک نمک کے لیے بڑی خوبصورت نمک دانیا ں دنیا کے قیمتی اسٹورز میں پائی جاتی ہیں لیکن پنک نمک کے پتھروں کی تعداد بہت کم ہے اور سفید نمک کے پتھروں میں سے پنک نمک علیحدہ کرنا بھی دشوار عمل ہے۔
اگردنیا کے بے شمار نمک کے پہاڑوں میں سے دس بڑے نمک دانوں کو شمار کیا جائے تو کم سے زیادہ کی ترتیب اس طرح ہو گی: کولمبیا، جرمنی، پیرو، ایتھوپیا، انڈونیشیا، پو لینڈ، چلی، رومانیہ، کھیوڑا پاکستان میں ہے۔ کھیوڑا سے 325000 ٹن سالانہ نمک حاصل ہو تا ہے۔ ان پہاڑوں میں 220 ملین ٹن نمک کی موجودگی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
1۔ اونیٹریو (کینیڈا) کینیڈا میں دنیا کی سب سے بڑی کانِ نمک ہے۔ Lake Huron سے 1800 فٹ نیچے ہے یہاں سے سن1959 میں نمک نکالنے کا عمل شروع ہوا جو مشکل سے نکالا جاتا تھا لیکن اب وہ مشکلات دور کر لی گئی ہیں۔
اسلام آباد سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع جہلم میں موجود کھیوڑہ میں لاجواب نمک کی کان جس کا نمک 98 فیصد خالص بتا یا گیا اور جس کا نظارہ کرنے اسکولوں کالجوں کے چالیس ہزار طالب علم مختلف شہروں سے آتے ہیں کم ازکم اس سے نصف سیاح دنیا کے ہر کو نے سے آنیوالے لوگوں کی بابت معلوم ہونے پر میں نے بھی اپنی فیملی کو ہمراہ لیا اور لاہور سے روانگی پکڑی۔ دو گھنٹے میں ہم کھیوڑہ پہنچ گئے، ریستوران میں چائے پی تو بجلی سے چلنے والی ٹرین کے آنے پر ہم ٹرین میں سوار ہو گئے جو مسافروں کو لے کر کان کی سرنگ میں داخل ہو گئی۔
سرنگ رنگ برنگی روشنیوں میں سے گزرتے ہوئے جادوئی منظر دکھاتے ہوئے چلی جا رہی تھی، سامنے اور دونوں طرف سرخ پیلے اور پنک نمک کے پہاڑوں نے حیرت انگیز مناظر روشن کیے ہوئے تھے، ایک جگہ مسجد نظر آئی جس کا روشن مینار مختلف رنگوں کے نمک کے مناظر دکھا رہا تھا، ایک جگہ ٹرین رکی تو سب مسافر اتر کر گھومنے کے دوران خود کو خلائی مخلوق محسوس کرتے رہے وہاں ایک جگہ کا نام Palace of Mirrors تھا جس میں لوگ خود کو شیشے کے گھر میں محسوس کرتے رہے، واپسی پر ہم نے دوکانیں بھی دیکھیں جہاں نمک کے ٹیبل لیمپ اور نمک سے بنے مختلف سجاوٹ کے برتن برائے فروخت تھے۔
شیشہ نما متعدد نمک کے ڈیکوریشن Peaces دیکھنے کو ملے شوقین حضرات نے کافی خریداری بھی کی کھیوڑہ پر اتنی تحریر نا کافی ہے اس لیے باقی آیندہ۔