چند روز قبل نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سامنے سے گزر ہوا تو یاد آیا کہ کئی برس قبل ملکہ برطانیہ کو پہلی باراور شاید آخری مرتبہ اس معروف کالج کا دورہ کرتے دیکھا تھا۔
لاہور میں اس کے علاوہ ایک کرسیچن اسکول کا وزٹ بھی محترمہ نے اسی روز کیا تھا پھر یہ بھی یاد آیا کہ میں ایک روز مہرالنساء کو شام کے ایک آرٹس فنکشن کے بعد Pick کرنے گیا تو وہاں معروف آرکیٹکٹ پرویز مرزا سے ملاقات ہو گئی۔ مرزا صاحب کے قریب اس وقت کی NCA کی پرنسپل فیض احمدفیضؔ کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی بھی موجود تھیں جنھوں نے مجھے عنقریب منعقد ہونے والی کالج کی Convocation پرمدعو کیا۔
پرویز اختر نے مجھ سے کہا کہ Convocation پر کثیر اخراجات آئینگے اگر آپ اپنے تعلقات والوں سے کالج کے لیے کچھ Donations کاانتظام کروا دیں تو فنکشن زیادہ اچھا ہو جائے گا۔ دوسرے دن نگینہ گروپ کے شیخ شوکت الٰہی اور چند اچھے کاروباری حضرات کے تعاون سے NCA کے لیے معقول انتظام کروا دیا۔ اسی روزپرویز مرزا نے میری ملاقات مشہور سنگر اقبال بانو سے کروادی لیکن ساتھ ہی اقبال بانو کا ایک ذاتی کام میرے سپرد کر دیا۔
سول سروس کی ملازمت کی وجہ سے لوگوں کے جائز کام کروانامیری عادات کا حصّہ تھا لہٰذا اقبال بانو کا مدت سے رُکا ہوا کام جلد ہی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کام کا فوراً ہو جانے کے نتیجے میں محترمہ میرے گھرہی نہ آئیں ہمیں اپنے گھر کھانے کی دعوت بھی دی اور پھر میری بیٹی کی شادی میں اپنی آوازکا جادو بھی جگایا۔
اگر عدلیہ ہی کی موجودہ کارکردگی کو پیش نظررکھ لیں تو مشاہدہ بتائے گا کہ جو ایک بارعدالت میں مدعی یا بطور ملزم کٹہرے تک پہنچ گیا، انصاف کا طالب ہو یا فریق مخالف دن مہینوں اور مہینوں کا سالوں میں بدلنا ایک کھیل میں تبدیل ہو کر عدالت یا وکیل کے رحم و کرم پر ہوتاہے نہ کہ عدل کے ترازو کے پانسے کے پلٹنے کا منتظر۔ جس کا مقصد اولین اگرچہ فوری انصاف ہے نہ کہ کارِ دراز میں ڈھل کر نتیجے کو انتظار کی گھڑیوں میں بدل دینا۔
یہ اصول ساری دنیا میں تسلیم شدہ ہے کہ انصاف میں تاخیر ایک طرح سے بے انصافی ہی نہیں حق اور سچ سے روگردانی اور انصاف کے طالب کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ 2007 میں جب وکلاء اور سول سوسائٹی کی فقید المثال تحریک کے دنوں میں اعتزاز احسن ہائوس اریسٹ ہوئے تو اس وقت فیص احمد فیضؔ کی نظم " وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح ِ ازل پر لکھا ہے ہم دیکھیں گے " اقبال بانو کی گائی ہوئی نظم کئی جگہ سننے کو ملی۔
گائیکہ اقبال بانو جو نہایت رکھ رکھائو والی سخن شناس اور شائستہ خاتون تھی اپنی جوانی میں قتیل شفائی سے بے حد متاثر رہیں۔ ان دونوں مشاہیر کے درمیان گہرا شعری اور قلبی تعلق رہا۔ قتیل شفائی کی مختلف غزلیں اور نظمیں اقبال بانونے گا کر انھیں امر کر دیا۔ اگر چہ ا س وقت یہ دونوں اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا فن زندہ ہے۔ ناصر کاظمی نے اس کا اظہار اپنے ایک شعر میں کیا ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
اقبال بانو اور قتیل شفائی سے میرا تعلق طویل عرصہ رہا۔ قتیل کی بہت سی نظمیں اور غزلیں اقبال بانو نے گا کر امر کر دیں مثلاً:
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو
سکوت ِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جائو
ہمیں بھی نیند آجائے گی ہم بھی سو ہی جائیں
ابھی کچھ بیقرار ہے ستارو تم تو سو جائو