وطنِ عزیز میں سیاستدانوں اور اہل ادب و صحافت کو وطن فروش قرار دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اقتدار کے نشے میں بے ہوش ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے تو بڑے پُرجوش انداز میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح تک کو وطن فروش قرار دے ڈالا تھا۔ علانیہ اور غیر علانیہ آمریتوں کے باعث پاکستان کی صحافت کو علانیہ اور غیر علانیہ سنسر شپ کا سامنا رہا ہے، اس لئے سیاستدانوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں پر وطن فروشی کے الزامات عائد کرنے والوں کی اپنی وطن فروشی کی داستانیں سامنے نہیں آسکیں لیکن اب آہستہ آہستہ ایسی کتابیں شائع ہورہی ہیں جن میں آمروں کے ساتھ مل کر پاکستان کے آئین و قانون کو تماشا بنانے والوں کے چہرے بےنقاب کئے جارہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کنور انتظار محمد خان نے تحریر کی ہے جس کا نام ہے "ایمان فروش ججوں کی داستان"۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جن ججوں نے غیر آئینی حکمرانوں اور غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر عدلیہ کے ساکھ برباد کی ان میں سے اکثر ججوں کو استعمال کرکے ذلیل و خوار کیا گیا۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق نے جسٹس انوار الحق اور جسٹس مولوی مشتاق حسین کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف استعمال کرنے کے بعد 1981 میں ان دونوں کو عدلیہ سے فارغ کر دیا۔ کنور انتظار محمد خان نے اپنی اس کتاب میں انصاف کا قتل کرنے والے بہت سے ججوں کا ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے زیادہ تفصیل ماضی قریب کی اس تاریخ کے بارے میں بیان کی ہے جس پر ابھی زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ مصنف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججوں کے متعلق لکھا ہے کہ جج کا حلف اس کا ایمان ہوتا ہے۔ کتاب میں قرآن مجید کی سورہ النحل کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا "اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرو اور اپنی قسموں کو پختہ کرو"۔ ان الفاظ کی روشنی میں ججوں سمیت جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کسی بھی آئین و قانون کے تحت کوئی بھی حلف اٹھاتا ہے تو یہ حلف اس کے ایمان کا حصہ بن جاتا ہے اور جب کوئی اس حلف کو توڑ کر کسی پی سی او کے تحت حلف اٹھاتا ہے تو وہ اپنا ایمان بیچ دیتا ہے۔ کنور انتظار محمد خان نے لکھا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے 24 مارچ 1981 کو جو پی سی او(عبوری ا ٓئینی حکم نامہ) جاری کیا یہ عدلیہ کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ جن ججوں نے 1973 کے آئین کے تحت حلف اٹھا کر اس آئین کے تحفظ کی قسم کھائی تھی وہ اسی آئین کو توڑنے والے کے کاسہ لیس بن گئے۔ آگے چل کر ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ان تمام ججوں کے نام تحریر کئے گئے ہیں جو بقول مصنف پی سی او کا حلف اٹھا کر "ایمان فروش" بن گئے تھے۔
کنور انتظار محمد خان کے قلم کی کاٹ سے صرف ڈکٹیٹر نہیں بلکہ وہ سیاسی حکمران بھی محفوظ نہ رہے جنہوں نے عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف انہوں نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے ججوں کی نشاندہی کی، دوسری طرف ان کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے عدلیہ پر دبائو ڈالا اور عدلیہ پر حملے کئے۔ اس کتاب میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ساتھ کئے گئے سلوک کی پوری تفصیل موجود ہے اور ان ججوں کا بھی ذکر ہے جو چیف جسٹس کے بجائے حکومت کے ساتھ مل گئے اور بعد میں نواز شریف سے سیاسی فائدے حاصل کئے۔ اس کتاب میں حمود الرحمان کمیشن، ایبٹ آباد انکوائری کمیشن اور میمو گیٹ کمیشن سمیت کئی ایسی عدالتی انکوائریوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے جن میں اعلیٰ عدلیہ ججوں سے تحقیقات تو کروائی گئیں لیکن کسی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد نہ کیا گیا۔ میمو گیٹ کمیشن کی انکوائری 2012 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن نے کی اور کمیشن کی رپورٹ میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو قصور وار ثابت کیا گیا اور کہا گیا کہ انہوں نے واقعی امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن کو خط لکھ کر پاکستانی فوج کے سربراہ کو تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی۔ آج اسی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس کا سامنا ہے۔ اس کتاب میں ان ججوں پر بھی تنقید کی گئی ہے جو اپنے کوڈ آف کنڈکٹ(ضابطہ اخلاق) کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
کنور انتظار محمد خان نے پاکستان اور بھارت سمیت کئی اہم ممالک میں ججوں کے لئے نافذ ضابطہ اخلاق کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ 1973کے آئین کی دفعہ 209کے تحت جج جس ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں اس کے مطابق ان میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہئے، زبان کا سچا، محتاط اور بےداغ کردار والا ہونا چاہئے، جج کو اپنے اور دوسروں کے ایماپر مقدمے بازی میں ملوث نہیں ہونا چاہئے، جج کو ایسے مقدمے کی سماعت سے پرہیز کرنا چاہئے جس میں اس کا یا اس کے کسی رشتہ دار کا مفاد ہو، اسے سرکاری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے اور ایک بار اٹھائے ہوئے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیا حلف نہیں اٹھانا چاہئے۔ پاکستانی ججوں کا ضابطہ اخلاق اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججوں کو کسی بھی نئے حلف سے روکتا ہے اور خدانخواستہ 1973 کا آئین معطل ہو جائے اور ایک نیا پی سی او آجائے تو موجودہ ججوں کی طرف سے نیا حلف اٹھانا ایمان فروشی قرار پائے گا۔ کنور انتظار محمد خان نے پاناما کیس کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اسے پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین عدالتی تماشا قرار دیا ہے حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ نواز شریف نے اپنا اقامہ چھپایا اور مریم نواز کو زیرِ کفالت بچوں میں شامل کیا حالانکہ وہ بھی ایک آف شور کمپنی کی مالک تھیں۔ مسلم لیگ(ن) کے حامی مصنف کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس رائے سے انکار نہیں کر سکتے کہ جو حکمران عدلیہ پر ناجائز دبائو ڈالتے ہیں بعد ازاں ان کے خلاف عدلیہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مریم نواز نے احتساب عدالت کے ایک جج ارشد ملک کی آڈیو اور وڈیو ٹیپوں کو سامنے لاکر دعویٰ کیا ہے کہ ان کے والد نواز شریف کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ یہ ویسی ہی ناانصافی ہے جیسی ناانصافی نواز شریف نے جسٹس ملک قیوم کے ذریعہ محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ کرائی تھی۔ ارشد ملک کی سعودی عرب میں شریف خاندان کے اہم افراد کے ساتھ ملاقاتوں کی دو ٹیپیں اور بھی ہیں جن میں خاندان سمیت پاکستان سے فرار ہونے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ ان ٹیپوں میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے اس لئے اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے تاکہ عدلیہ کی تضحیک نہ ہو۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے جج بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کیا اور ان میں موجودہ عدلیہ کے جج بھی شامل ہیں جن پر ہمیں فخر ہے۔ قوم یہ امید رکھتی ہے کہ موجودہ عدلیہ کے بااصول جج اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ ساتھی کے ساتھ رعایت نہیں کریں گے اور کنور انتظار محمد خان کی ایک زیرِ تکمیل کتاب کی اس فہرست میں شامل نہیں ہوں گے جسے آئین سے غداری کرنے والوں کا قبرستان قرار دیا گیا ہے۔