تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ پھر کچھ لوگ جیت کر ہارنے والے اور کچھ نہتے لوگ ہار کر جیتنے والے ہیں۔ کچھ لوگوں کا انجام دیوار پر لکھا جا چکا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح کسی کو دیوار پر لکھا دکھائی نہیں دے رہا۔ کچھ لوگ تاریخ پر اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف دائر کیا جانے والا ریفرنس ایسی ہی ایک کوشش کا حصہ نظر آتا ہے۔ 15 اپریل 2019ء کو میں نے "شہداء کے ساتھ غداری" کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا "ہو سکتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی ذات اور ان کے فیصلوں کے کچھ حصوں سے مجھے بھی اختلاف ہو لیکن مجھے اُن کی نیت پر شک نہیں۔ جو انا پرست حضرات اس بہادر اور ایماندار جج کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی نیت پر کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ میں دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کی طرف سے حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو متنازع بنانے کی بجائے ان کے لکھے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کریں اور ان شہداء کے ساتھ غداری نہ کریں جن کو قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف دینے کی کوشش کی"۔
میرے اس کالم پر حکومت کی کچھ اہم شخصیات نے مجھے کہا کہ اُنہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نہیں بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے کچھ ججوں کے خلاف شکایات ملی ہیں، اُن کی انکوائری ہو رہی ہے۔ چند دن بعد 25 اپریل 2019 کو ایک اور کالم "آخری فتح" کے عنوان سے لکھا اور ان الفاظ پر ختم کیا "میں عمران خان سے وہی گزارش کر رہا ہوں جو زرداری صاحب اور نواز شریف سے بھی کرتا رہا۔ عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش نہ کریں، آخری فتح آئین و قانون کی ہوگی"۔ اس کالم کی اشاعت کے چند دن بعد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں صاف الفاظ میں کہا کہ میری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی آشنائی نہیں اور نہ ہی کوئی علیک سلیک ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ انہوں نے میمو گیٹ انکوائری کمیشن کی رپورٹ لکھی تو پیپلز پارٹی اُن سے ناراض ہو گئی، کوئٹہ میں بم دھماکے کی انکوائری رپورٹ لکھی تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سیخ پا ہو گئی اور چوہدری نثار علی خان نے اُن کے خلاف پریس کانفرنس کر دی۔ فیض آباد دھرنا کیس میں اُن کے فیصلے پر بھی کچھ لوگ ناراض ہوگئے کیونکہ اُنہوں نے اس فیصلے میں لکھا کہ اگر 12 مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کرنے والوں کو سزا ملتی تو مزید جلائو گھیرائو نہ ہوتا۔ میری باتیں سن کر عمران خان نے کہا کہ اُن کی پہلی ترجیح معیشت کو سنبھالنا ہے، اُن کے پاس سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ محاذ آرائی کی کوئی وجہ ہے نہ وقت۔ لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ایک اخبار نے اپنے باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا گیا ہے۔ خیال تھا کہ حکومت اس خبر کی تردید کر دے گی لیکن حکومت نے نہ صرف اس خبر کی تصدیق کر دی بلکہ یہ ریفرنس 14 جون کو سماعت کے لئے مقرر بھی کر دیا گیا ہے۔ جیسے ہی ریفرنس پر سماعت کی تاریخ مقرر کی گئی تو وکلاء تنظیمیں حرکت میں آ گئیں۔ پاکستان میں دو طرح کی وکلاء تنظیمیں ہیں۔ بار ایسوسی ایشنز وکلاء کی منتخب تنظیمیں ہیں اور بار کونسلیں وکلاء کے سپروائزری ادارے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل، دونوں نے 14 جون کو احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ بلوچستان بار کونسل، سندھ بار کونسل، خیبر پختونخوا بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل نے بھی احتجاج کی حمایت کی ہے۔ پنجاب بار کونسل اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران آپس میں تقسیم ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو چیف جسٹس کی عدالت میں نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ طرزِ عمل نامناسب ہے۔ کنرانی صاحب کا تعلق حامد خان گروپ سے ہے۔ وہ عاصمہ جہانگیر گروپ کے علی احمد کُرد سے الیکشن جیتے تھے لہٰذا یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ امان اللہ کنرانی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی خاطر احتجاج کر رہے ہیں۔ 2007ء میں جب پرویز مشرف حکومت نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر کے اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تو جو وکلاء حکومت کی طرف سے افتخار محمد چوہدری کے خلاف پیش ہوئے اُن میں امان اللہ کنرانی بھی شامل تھے۔ افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی جسٹس جاوید اقبال کر رہے تھے جو قائم مقام چیف جسٹس بن گئےتھے۔ آج وہی جاوید اقبال نیب کے سربراہ ہیں۔ اُن پر ایک خاتون نے جنسی ہراسگی کے الزامات لگائے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں ان الزامات کی انکوائری کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن نیب کے چیئرمین کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ان کیخلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئی نہ ریفرنس دائر کیا گیا۔
ججوں کا احتساب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جنرل ایوب خان نے جسٹس اخلاق حسین کا احتساب کیا کیونکہ وہ آمریت کے مخالف تھے، جنرل یحییٰ خان نے جسٹس شیخ شوکت علی کو گھر بھیجا۔ جنرل ضیاء الحق نے جسٹس غلام صفدر شاہ کے خلاف کیس بنوایا کیونکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے خلاف تھے، پرویز مشرف نے افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس بنوایا جو ناکام ہوا۔ اب عمران خان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ تاریخ کا جبر دیکھئے کہ عمران خان کے وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان دونوں ہی جنرل پرویز مشرف کے وکیل رہے ہیں۔ حکومت کے ایک وزیر نے مجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایف بی آر کے ایک افسر کی طرف سے 10 مئی 2019ء کو لکھا گیا ایک خط بھیجا ہے جس کے مطابق جج صاحب کی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے نے 2014ء میں اپنے بیرونِ ملک موجود اثاثوں کا اعلان نہیں کیا۔ اسی خط میں ایف آئی اے کی ایک انکوائری رپورٹ کا ذکر بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ جج صاحب نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر اثاثوں کو جان بوجھ کر چھپایا ہے۔ جج صاحب نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو اُن کی جوابدہی ضرور کی جائے لیکن ایف بی آر اور ایف آئی اے پانچ سال تک کیوں خاموش رہے؟
یاد کیجئے! سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ماضی بہت قابل فخر نہیں تھا۔ انہوں نے مشرف کے پی سی او پر حلف بھی لیا اور مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق بھی کی تھی لیکن انہیں جس انداز سے ہٹایا گیا اُس پر وکلاء برادری بپھر گئی اور اُن کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔ اب جس انداز سے اور جس وقت پر قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہوا ہے تو اس پرکہا جا رہا ہےکہ اصل مقصد ججوں کا احتساب نہیں بلکہ اختلافی آواز کو دبانا ہے۔ پہلے مرحلے میں دونوں ججوںکے خلاف ریفرنس آئے ہیں دوسرے مرحلے میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے کچھ ججوں کے خلاف ریفرنس لانےکی افواہیں گردش میں ہیں۔ ریفرنس کس نے بنائے؟ جنرل پرویز مشرف کے سابق وکلاء نے بنائے۔ ہماری عدلیہ آئین سے غداری کے ملزم کو تو سزا دے نہیں سکی لیکن اُس سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری نہ کرنے والے ججوں کو سزا دے۔ حالات نے عدلیہ کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور تاریخ کا فیصلہ ہمیں دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔