خواجہ سعد رفیق نے ٹھیک کہا: سیاسی جماعتیں کمزور، محتاج اور پست و پامال رہیں گی، جب تک وہ اداروں میں نہیں ڈھل جاتیں۔ بڑھتے بڑھتے سیاست میں فوج کا عمل دخل بہت بڑھ گیا۔ تازہ ترین مثال وزارتِ اطلاعات کی ہے، جو ایک جنرل کی گود میں جا گری ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں کبھی ایسی منظم، مرتب اور تربیت یافتہ نہ تھیں کہ کاروبارِ حکومت ڈھنگ سے چلا سکیں۔ مذہبی سیاسی پارٹیوں کو چھوڑیے، باقیوں کا حال بھی وہی ہے۔ وہ بھی تو ایک طرح کے فرقے ہیں۔
1980ء کے عشرے میں ایم کیو ایم نے اک نعرہ متعارف کرایا تھا کہ "منزل نہیں رہنما چاہئیے" دیکھنے والوں کو چاند میں الطاف حسین کی تصویر دکھائی دیتی۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی قابلِ ذکر تعداد نے الطاف حسین کو دیوتا مان لیا تھا، چنانچہ خدائی کی خواہش پیدا ہوگئی۔ وحشت موصوف پہ سوار ہوگئی اور آدمیت جاتی رہی۔ مدیرِ تکبیر صلاح الدین اور حکیم سعید ایسے اکابر سمیت کتنے ہی لوگ قتل کر دیے گئے۔ سولہ ہزار معصوم شہری۔ اخلاقی اعتبار سے ایک بدحال معاشرہ۔ کتنے ہی اخبار نویس ان کے گن گایا کرتے۔ ان میں سے تین کا تعلق لاہور سے تھا۔
آج ہر شخص جانتا ہے کہ الطاف حسین کو "را" کی سرپرستی حاصل تھی۔ وہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کا حصہ تھا، جس کا ہدف پاکستان کا خاتمہ ہے۔ اللہ کے آخری رسول ﷺکا فرمان یہ ہے کہ کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔ الطاف حسین پہ دیوانگی طاری ہوئی تو اپنے سب جرائم پہ خود گواہی دی۔ بھارت کی سرزمین پہ کھڑے ہو کر کہا کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ یعنی یہ کہ پاکستانیوں کو کشمیری اور بھارتی مسلمانوں ایسی حالتِ زار پہ شاد ہونا چاہئیے تھا۔
اور بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پاگل پن کے باوجودالطاف حسین کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ میڈیا کو یرغمال بنائے رکھا۔ جب چاہتے، حکم صادر کرتے اور ملک کے تمام چینل براہِ راست ان کا خطاب نشر کرتے۔ ذہنی مریض تھے اور انہیں علاج کی ضرورت تھی مگر ایم کیو ایم کے لیڈر ان کے لیے تاویلیں تراشتے۔ ان میں سے ایک نے کتاب لکھی"الطاف حسین کا فلسفہء محبت"۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے اور اس کے طے کر دہ قوانین جو کبھی نہیں بدلتے۔ بھارت ہی نہیں، امریکہ اور برطانیہ بھی الطاف حسین کے سر پہ سایہ کیے تھے۔ اس سے مگر کیا ہوتا ہے۔ قانون تو بدل نہیں سکتا۔ برف کا پہاڑ بھی دھوپ میں رکھا ہو تو پگھل جاتا ہے۔ الطاف حسین صرف پگھلے نہیں، بدنام اور رسوا بھی ہوئے۔ ایم کیو ایم آج سیاسی یتیموں کا ٹولہ ہے۔
عبد الصمد اچکزئی نام کے ایک صاحب ہوا کرتے تھے۔ انہیں بلوچستان کا گاندھی کہا جاتا۔ وہ کانگرس کے حامی تھے۔ محمود اچکزئی انہی کے صاحبزادے ہیں۔ ملک جب بھی کسی خارجی دشمن سے نبرد آزما ہوا، اچکزئی کی ہمدردیاں حریف کے ساتھ تھیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں، انہوں نے ارشاد فرمایا کہ پختون خوا افغانستان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ عجلت اور بے تابی کے ساتھ اسفند یار ولی نے ان کی تائید کی۔
اسفند یار ولی کی لیڈر شپ کا جواز اس کے سوا کیا ہے کہ وہ عبدالولی خاں کے فرزند ہیں۔ سکڑتے سکڑتے اے این پی ایک چھوٹی سی پارٹی رہ گئی ہے۔ بے شک عبد الولی خاں غیر معمولی صلاحیت کے آدمی تھے مگر منصب اس لیے ملا کہ وہ باچا خاں کے گھر پیدا ہوئے ورنہ کتنے ہی ولی خاں پشاور، کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر مکئی کے بھٹے بیچتے پھرتے ہیں۔ اللہ انہیں جیتا رکھے، غالب امکان یہ ہے کہ اسفند یار کے بعد پارٹی کی قیادت ان کی اولاد کو منتقل ہوگی۔
نواز شریف فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی کے طفیل پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہوئے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی مدد سے وزیرِ اعظم۔ الطاف حسین تو نہیں مگر ذہنی توازن وہ بھی قائم نہ رکھ سکے۔ بھائی کو وزیرِ اعلیٰ بنایا اور اب صاحبزادی ان کی جانشین ہیں۔ دھڑلے سے جو اعلان کرتی ہیں کہ ان کا تعلق حکمران خاندان سے ہے، حکمراں یعنی شاہی خاندان۔
دوسرا شاہی خاندان بھٹو کا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ وہ بھی ایک چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی گود میں پروان چڑھتے تھے اورفوج کے سہارے وزیرِ اعظم ہوئے۔ عوامی تائید ہی پیمانہ ہوتی تو شیخ مجیب الرحمٰن وزیرِ اعظم بنتے، قومی اسمبلی میں جن کی سیٹیں دو گنا تھیں۔ بھٹو سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرتے۔
وہ کیا چیز ہے، جو لیڈروں کو دیوانہ کر دیتی ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ غلبے کی جبلت۔ زمین پر پہلا قتل اسی لیے سرزد ہوا تھا۔ جنابِ آدمؑ کے صاحبزادے نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا۔ حسد اور غلبے میں مبتلا آدمی نے۔ تجزیے پر نہیں، انسانوں کی اکثریت اپنی افتادِ طبع پر جیتی ہے۔ دلیل کے نہیں، لوگ اپنی خواہشات اور جبلتوں کے اسیر ہوتے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھی صعوبتوں سے گزریں لیکن پارٹی کی سربراہ نصرت بھٹو تھیں۔ مصلحت پسندی سے نا آشنا ایک بہادر خاتون۔ چاہتیں تو آسانی سے وزیرِ اعظم بن جاتیں۔ ممتا غالب آئی اور اقتدار صاحبزادی کو سونپ دیا۔ پھر ایک دن جب سندھ پولیس نے ان پر فائرنگ کی، چلّا کر انہیں کہنا پڑا: یہ تو ضیاء الحق سے بھی بدتر ہے۔
خرابی کہاں ہے؟ سیاسی جماعتیں مغرب کی طرح منظم اور مرتب کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اللہ کے حکم کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیا۔ "و امر ھم شوریٰ بینھم" ان کے فیصلے باہم مشورے سے صادر ہوتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ تاریخی تجربے سے مغرب نے سیکھ لیا، ہم نہ سیکھ سکے۔ تحریکِ انصاف کے پاس ایک بھی ایسا شخص کیوں نہیں، مکمل طور پر جسے وزارتِ اطلاعات سونپ دی جائے۔ تعلیم، تربیت، محنت اور ریاضت سے آدمی ہنر مند ہوتاہے۔ فارسی کی ضرب المثل یہ ہے: کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی۔ مغرب میں سیاسی پارٹیاں اپنے لوگوں کی تربیت کرتی ہیں۔ انہیں ذمہ داری سونپتی اور ان پر اعتماد کرتی ہیں۔
چرواہوں اور تاجروں کی رحمتہ اللعالمین ﷺنے تربیت کی تو ایسی ایک نسل ابھری، جس میں تاریخ کے عظیم ترین رہنما، ایڈمنسٹریٹر، سپہ سالار اور جج شامل تھے۔ بلا استثنیٰ شبلی فراز کا سبھی سیاسی پارٹیوں اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی ہر اہم شخصیت نے خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے باوجود جنرل عاصم باجوہ کے سہارے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ عاصم باجوہ تربیت یافتہ ہیں۔ فوج کیوں بہتر اور برتر ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک ادارہ ہے جدید ترین ادارہ۔ خرابیاں اس میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن وہ ایک نظامِ کار کے تحت کام کرتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے ٹھیک کہا: سیاسی جماعتیں کمزور، محتاج اور پست و پامال رہیں گی، جب تک وہ اداروں میں نہیں ڈھل جاتیں۔