غالبؔ نے کہا تھا: گھر میں تھا کیا کہ ترا غم جسے غارت کرتا۔ دل میں تھی اک حسرتِ تعمیر سو ہے۔ افسوس کہ حسرتِ تعمیر بھی غارت ہونے لگی۔
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں
لوٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لوٹا؟
ایک نجی یونیورسٹی کے واقعے نے دہلا کر رکھ دیا۔ جامعات میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ حسنِ ظن رکھنے والے یاد کرتے ہیں تو سویا ہوا دل جاگ اٹھتا ہے۔ طلبہ سے بات کرنے کے لیے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ اگر وہ بے باکی سے سوال کرنے والے ہوں تو ان کے استفسارات سے سیکھنے کا موقع بھی ملتاہے۔ اپنی کم علمی اور بے بظاعتی کا احساس اجاگر ہونے لگتاہے۔ مطالعے کی کم ہوتی تمنا انگڑائی لے کر جاگ اٹھتی ہے۔
مذکورہ یونیورسٹی ملک کی بہترین جامعات میں سے ایک ہے۔ وحشت کے مارے طلبہ کو جامعہ کے دروازوں پر دھکے دیتے ہوئے دیکھا تو دل پہ برف سی گرتی رہی، بارش سی برستی رہی۔ ربع صدی ہوتی ہے، میری التجا پر اس ادارے کے ایک کالج میں بلایا گیا۔ صاف ستھرے، اجلے کلاس روم، سلیقے سے رکھے ڈیسک اور کمپیوٹر کی قطاریں۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ کاش طالبِ علمی کا عہد اس طرح کے اداروں میں بتایا ہوتا۔
دل پر ایک زخم ہے۔ میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ تعمیرِ ملت ہائی سکول رحیم یار خان کے بعد، مشرقی پاکستان سمیت جو ملک کے دس بہترین اداروں میں سے ایک تھا، گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں داخل ہوا۔ جی نہ لگا کہ معیار نسبتا بہت کمتر تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت خراب سے خراب تر ہو تی چلی گئی۔ اس خلا کو نجی اداروں نے پر کیا۔ زمانہ گزرا، حکومت اس قابل نہیں رہی کہ اپنے فرزندوں کو ڈھنگ کی تعلیم دے سکے۔ دو کروڑ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم۔ ایک نہیں، تعلیم کے میدان میں کئی سانحے مسلسل برپا ہیں۔ سرکار کو چاہئیے تھا کہ منصوبہ بندی کرتی۔ ایک کے بعد دوسری حکومت مگر ہنگامی مسائل میں الجھی رہتی ہے۔ اگر یہ نجی ادارے بھی نہ ہوتے۔
برسوں پہلے کا واقعہ ہے۔ ایک کالج میں بھگدڑ مچی اور سانحہ رونما ہوا۔ شریف برادران کے ایما پر سربراہ کے خلاف قتلِ عمد کا مقدمہ درج ہوا۔ جی ہاں، دفعہ 302کے تحت قتلِ عمد کا۔ اس لیے کہ شاہی خاندان ان سے نا خوش تھا۔ وہ تو خیر گزری کہ ایک اخبار نویس شریف خاندان کو جس کی ضرورت رہتی ہے، بیچ میں قدم جما کر وہ کھڑا ہو گیا، put his foot down۔
مانا کہ بہت سے تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں، فقط کاروبار ہی جن کی ترجیح ہے۔ طلبہ کے حال سے دلچسپی ہے اور نہ مستقبل سے۔ مگر ایسے بھی ہیں کہ عرق ریزی سے منصوبہ بندی کرتے، اساتذہ کے انتخاب پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور نظم و ضبط قائم رکھتے ہیں۔ ناقص اداروں کی نگرانی اور بازپرس ہونی چاہئیے۔ سلیقہ مندوں کی حوصلہ افزائی مگر سرکار؟ اور ایک کے بعد دوسری حکومت نے تعلیم سے اغماض برتا۔ نتیجہ یہ کہ جن سرکاری تعلیمی اداروں سے ڈاکٹر عبد السلام ایسے لوگ اٹھا کرتے تھے، ان سے اب بھوسہ برآمد ہوتا ہے۔ ایم اے پاس طالبِ علم قصور کو "کسور" اور سرگودہا کو "صرگودہا" لکھتے ہیں۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
لگ بھگ پینتیس برس ہوتے ہیں، جنرل محمد ضیاء الحق جاپان گئے۔ جاپانی زعما سے پوچھا: آپ کی خیرہ کن ترقی کا بھید کیا ہے۔ جواب ملا: وسائل محدود تھے، تعلیم کو اولین ترجیح بنایا تو دروازہ چوپٹ کھل گیا۔ ملک میں تعلیم کس کی ترجیح ہے؟ عبقری ذوالفقار علی بھٹو نے نجی اداروں کو قومیا کر تباہی کی بنیاد رکھی، نرگسیت کا شکار تھے۔ ؎
ان کی محنت بھی مری حاصل محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے قوت بازو بھی مری
میں خداوند ہوں اس وسعت بے پایاں کا
موج عارض بھی مری نکہت گیسو بھی مری
دوسروں کی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کا مسئلہ اقتدار کا دوام تھا۔ زرداری اور شریف خاندان سے کوئی امید تھی ہی نہیں دھن دولت کی آرزو میں اندھے۔ عمران خان بھی نمک کی کان میں نمک ہو گئے۔ تمام اداروں کے لیے ایک نصاب اور اردو کو قومی زبان قرار دیے جانے کا پیمان کیا لیکن اب انگریزی ہے، نقالی ہے اور شفقت محمود ہے۔
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
مغرب کی بالادستی کا راز کیا ہے؟ قانون کی حکمرانی اور علم کا فروغ، ورنہ ان کے کندھوں پر کیا دو سر ہوتے ہیں؟ کہا جاتاہے کہ دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں پاکستانی قوم کا شمار ہے۔ دولت کی طرح مگر پیدائشی ذہانت بھی کوئی اثاثہ نہیں، اگر علم اور تربیت سے سینچی نہ جائے۔ جاپان کے تعلیمی اداروں میں بچّے بارہ گھنٹے تک پڑھتے ہیں۔ لاہور میں کبھی کسی نے یہ تجربہ کیا تھا اور کامیاب رہا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت کے تحت تین کالج اور تین سو سکول کارفرما ہیں۔ کالج خود بنائے اور ایک یونیورسٹی بھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔ سکول سرکار نے سونپے۔ چند برس میں طلبہ کی تعداد تین گنا ہو چکی، معیارِ تعلیم بھی بلند۔
منگل ہی کے روز ایک دوسرا سانحہ بھی ہوا۔ دینی مدارس کے طلبہ چار دیواریوں سے نکلے اور نعرہ زن ہوئے۔ مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی او ہیں۔ یاداشت اگر دھوکہ نہیں دے رہی تو تیس لاکھ طلبہ ان میں تعلیم پاتے ہیں۔ قدیم کے علاوہ اگر جدید علوم سے بھی استفادہ کریں تو ایک سے ایک گوہرِ نایاب پیدا ہو۔ اسلام آباد کے نواح میں ایسا بھی ایک مدرسہ ہے، درسِ نظامی کے علاوہ جس کے طلبہ میٹرک کا امتحان بھی پاس کرتے ہیں۔ اسلام آباد سیکنڈری بورڈ کی بیس نمایاں پوزیشنوں میں سے اکثر وہ دس بارہ سے زیادہ جیت لیتے ہیں۔ دال روٹی پہ بسر کرنے والے افتادگانِ خاک کے فرزند۔ شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویریؒ نے کہا تھا: ہر علم سے کم از کم اتنا تو حاصل کر لو کہ اللہ کو پہچان سکو۔ اور اقبالؔ نے یہ کہا تھا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اذان کی آواز بلند ہوئی تو طالبِ علم تیزی سے کتابیں سمیٹنے لگا۔ امام مالکؒ نے اس پہ ارشاد کیا: تعجیل نہ کرو، ہم اسی میں مصروف ہیں، جس کی طرف ہمیں بلایا جا رہا ہے۔
رحمتہ اللعالمینﷺ کا ارشاد یہ ہے: طلب العلم فریضتہ علی کل مسلم و مسلمہ۔ طلبِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پہ فرض ہے۔ سہل پسندی، گھن کی طرح سہل پسندی ہمیں کھائے جاتی ہے۔ حال پتلا ہے۔ درس گاہ کی بجائے گھر میں امتحان دینے کا مطالبہ اگر مان لیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ کمتری سے ذہنی اپاہج پن کا سفر۔
عربوں کا محاورہ یہ ہے: الناس علی دین ملوکہم۔ لوگ اپنے بادشاہوں کی راہ چلتے ہیں۔ ہمارے حال پہ اللہ رحم کرے۔ غالبؔ نے کہا تھا: گھر میں تھا کیا کہ ترا غم جسے غارت کرتا۔ دل میں تھی اک حسرتِ تعمیر سو ہے۔ افسوس کہ حسرتِ تعمیر بھی غارت ہونے لگی۔
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں
لوٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لوٹا؟