اقوام کی نشو ونما کاانحصار حکام نہیں بلکہ عوام کی بیداری پر ہوتا ہے۔ علمی فروغ، جذباتی اور فکری توازن میں، مگر افسوس کہ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ دیا جلانے نہیں دیتی۔
وزیرِ اعلیٰ کی بساط الٹ دی جاتی لیکن پھر جنرل محمد ضیاء الحق لاہور پہنچے۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر انہوں نے اعلان کیا: نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے اور خدا کرے کہ میری عمر بھی اسے لگ جائے۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب میں اگرنواز شریف الگ نہ کر دیے جاتے تو کیا آج بھی شریف خاندان ان کے مزار پہ حاضر نہ ہوا کرتا۔ ایک عشرے تک جہاں یہ اعلان وہ دہراتے رہے کہ مرحوم کا مشن پورا کر کے رہیں گے۔
ضیاء الحق اگر نہ ہوتے تو ایک گمنام صنعت کار سے زیادہ نواز شریف کیا ہوتے؟ چھینی گئی اتفاق فاؤنڈری ان کے خاندان کو واپس کی۔ پنجاب کے و زیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ اعلیٰ بنائے گئے۔ انہی کے عسکری جانشین تھے، جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پہ فائز کیا؛درآں حالیکہ غلام مصطفی جتوئی اکثر کے لیے زیادہ قابلِ قبول تھے۔ سچ وہی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
بائیں بازو کے عناصر اگر جنرل ضیاء الحق سے نفرت کرتے ہیں تو یہ قابلِ فہم ہے۔ سوویت یونین کو انہوں نے شکست ِ فاش سے دوچار کیا۔ وہ مذہبی لوگ مگر کیا احسان فراموش نہیں جو ان کی سرپرستی میں سرفراز ہوئے۔ جنرل کی پہاڑ سی غلطیاں اپنی جگہ، کیا وہ ایسے تھے کہ ممنون ان کا نام تک نہ لیں۔
افغانستان میں جاری جنگ کے باوجود، الذوالفقار کی تخریب کاری کے باوجود، پاکستان ان کے عہد میں استحکام کا جزیرہ تھا۔ ان کے دور میں مہنگائی کا فروغ سب سے کم تھا اور غربت سب سے زیادہ کم ہوئی۔ بیت المال اور زکوٰۃ کے ایک مربوط نظام سے لاکھوں خاندانوں کی اعانت کی اور چھچھوروں کے برعکس داد کے طالب بھی نہ ہوئے۔ ان کی وفات کے فوراً بعد انگریزی اخبار دی نیشن کے سروے میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی اسّی فیصد خواتین نے انہیں مردِ شریف قرار دیا تھا۔
مرحوم کی شخصیت کے تین پہلو نہایت ہی تابناک تھے۔ کسرِ نفسی، حب الوطنی اور عامیوں سے حسنِ سلوک۔ انہوں نے بھارت کو اس کی حدود میں رکھا۔ سارک کانفرنس یا کوئی اور موقع، بھارت جاتے تو تمام نگاہیں انہی پہ مرکوز ہوتیں۔ کشمیر میں جہاد کا آغاز کیا۔ کمال عزم کے ساتھ ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی۔ ملک کو ناقابلِ تسخیر عسکری قوت بنا دیا۔ نام نہاد بایاں بازو افغان پالیسی پر ان کی کردار کشی کے ہمیشہ درپے رہتا ہے۔ اگر یہ جرم تھا تو ان کے پیش رو ذوالفقار علی بھٹو اس کے مرتکب ہوئے اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھی۔ یہ بھٹو کا دور تھا، جب گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، استادر بانی اور دوسرے افغان لیڈروں کو پاکستان میں پناہ دی گئی۔ جنرل نصیر اللہ بابر اس باب میں ان کا بازوئے شمشیر زن تھے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں وہی طالبان کے سرپرست تھے۔
اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ وہ افغان بحران کے خالق تھے۔ یہ سوویت یونین تھا، جس نے ایک قبائلی معاشرے میں کیمونزم مسلط کرنے کی احمقانہ کوشش کی اور قیمت چکائی۔ صنعتی تو کیا، جو زرعی عہد میں بھی داخل نہ ہوا تھا۔ دسمبر 1979ء میں سرخ فوج براہِ راست افغانستان میں آدھمکی۔ کیا پاکستان کا حکمران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ رہتا؟ اس وقت جب ایک توسیع پسند اور جارح عالمی طاقت ہمسایہ ملک میں دادِ شجاعت دے رہی تھی اور مرعوب کارندے سرخ انقلاب کا گیت گایا کرتے؟ کیا وہ سوویت یونین کو کراچی کے گرم پانیوں تک رسائی کا موقع فراہم کرتے؟ کیا وہ ملک بائیں بازو کے حوالے کر دیتے، جو بالآخر اسے ایک اور طرح کا افغانستان بنا دیتا؟ ان 122اقوام کے بارے میں کیا کہا جائے گاجو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی پشت پر آکھڑی ہوئیں؟ کیا وہ سب کی سب امریکہ کی تابع مہمل تھیں؟ واقعہ صرف یہ کہ سوویت یونین نے ایک تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا تھا اور اب کریملن کو اس کی قیمت چکانا تھی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی جگہ بھٹو بھی ہوتے تو وہی کرتے، بااندازِ دگر۔
جنرل نے جس حماقت کا ارتکاب کیا، وہ یہ تھی کہ گزرے زمانوں میں زندہ، فرقہ پرست مذہبی طبقات کو آگے بڑھایا۔ شاید اس لیے کہ خود ان کا تعلق ایسے ہی ایک خاندان سے تھا۔ تاریخ کے اس سبق کو انہوں نے فراموش کر دیاکہ مذہب واقعی نافذ ہو تو مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں ہوتا اور جب مذہبی طبقات طاقتور ہوں تو ان کی قہرمانی اور تنگ نظری کے طفیل دین کی حقیقی روح فنا ہو جاتی ہے۔ بندے اور اللہ کے د رمیان وہ ایک کردار کا تقاضا کرتے اورفکر و نظر کا انتشار پھیلاتے ہیں۔
اختیار کی حیرت انگیز مرکزیت کے باوجود مالی معاملا ت میں جنرل محمد ضیاء الحق ایک اجلے آدمی تھے۔ ایک واحد سرکاری پلاٹ انہیں الاٹ کرنے کے لیے مرحوم اجلال حیدر زیدی کو دیر تک منّت سماجت کرنا پڑی۔ اس پلاٹ پر مکان کی تعمیر کے لیے انہیں اپنے صاحبزادے اعجاز الحق سے قرض لینا پڑا اور یہ مکان اسلام آباد میں نہیں تھا۔ نفرت کے مارے مخالفین انہیں ایک خوشامدی کے طور پر پیش کرتے ہیں، المناک مبالغہ! بڑا یا چھوٹا، وہ ہر شخص کے سامنے مودب رہتے۔ ایچی سن کالج کے استاد کی کمسن بچی کے ساتھ بھی، جو ان کے کمرے کا جالی دار دروازہ پکڑے جھولتی رہی۔ وہ انتظار میں کھڑے رہے کہ بچی کے باپ کو الوداع کہہ سکیں۔
غلافِ کعبہ کا ایک ٹکڑا فریم کرانے کے لیے بلائے گئے ایک کاریگر کو کھانے کے وقت بھلا دیا گیا تو دیر تک وہ متاسف رہے۔ فوجی تنورچی پہ بگڑے تو دو بار اپنے ہاں مدعو کرکے اس سے معافی مانگی۔ دوسری باراہلِ خانہ کے ساتھ، جب وہ عمرے پر روانہ ہونے والے تھے۔ خوب یاد ہے کہ راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس کے نمائندے کی حیثیت سے کس قدر تلخی کے ساتھ میں نے ان سے بات کی۔ اگلے روز مفتی محمد شفیع کی تفسیر کا تحفہ انہوں نے مجھے ارسال کیا۔ پھر بہت دن اصرار کرتے رہے کہ جو ایک کتاب میں نے دی تھی، اس کی کچھ اور جلدوں کا بندوبست کر دوں۔ یہ ناچیز ان اخبار نویسوں میں سے ایک تھا، ان کے پورے عہد میں جس نے کبھی ایک لفظ بھی ان کی حمایت میں نہیں لکھا۔
جنرل کے دور میں فعال طبقات بے بس تھے اور پریس لاچار لیکن کیا اس سے کچھ زیادہ جتنے کہ فخرِ ایشیا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں؟ وہ شخص جو اپنے چاروں وزراء ِ اعلیٰ سمیت بلا مقابلہ منتخب ہوا؟ جس نے فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام پر ذاتی فوج تشکیل دی؟ جس نے خود اپنے ساتھیوں کو دلائی کیمپ میں رکھا؟ بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور دوسرے اداروں کو قومیا کر صنعت کاری کا سلسلہ محدود کر دیا۔ جس نے کبھی یہ نہ کہا کہ اس سے کبھی کوئی ایک بھی غلطی سرزد ہوئی؛حتیٰ کہ اسیری کے 229ایام میں بھی، جب ایک بار بھی اس نے نماز پڑھی اور نہ تلاوت کی؟ اگر آئین اور ایٹمی پروگرام کی تشکیل پر وہ خراجِ تحسین کا مستحق ہے تو جنرل محمد ضیاء الحق کیوں نہیں؟
آخر بھٹو بھی ایسے ہی ایک ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کی پیداوار تھے۔ جنرل ایک عبادت گزار آدمی تھا۔ حجازِ مقدّس میں ہو تو موم کی طرح پگھل جاتا۔ دوسرے حکمرانوں کی طرح ان کا بویا ہوا بھی ہم کاٹ رہے ہیں۔ کاٹتے رہیں گے، جب تک ادراک نہ کرلیں کہ اقوام کی نشو ونما کاانحصار حکام نہیں بلکہ عوام کی بیداری پر ہوتاہے۔ علمی فروغ، جذباتی اور فکری توازن میں، مگر افسوس کہ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ دیا جلانے نہیں دیتی۔