یہ قندیلیں سی کیسی جگمگاتی ہیں۔ یہ کہکشائیں سی کیسی ہیں؟ خدا کی اس زمین پر شیر زماں جیسے کردار کس طرح جنم لیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مسافر حیرت سے گونگا ہو جائے، کوئی بتائے، کوئی بولے۔ کوئی عالم، کوئی صوفی، کوئی درویش، کوئی رہبر۔
معلوم نہیں، تیس برس کے بعد آج شیر زماں کیوں یاد آیا۔ گنگ اور حیرت زدہ، میں اس کی زندگی پہ غور کرتا رہا۔ یا رب ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
ستائیس برس پہلے کا یہ واقعہ یکایک خیال کے مطلع پر طلوع ہوا اور لہو میں برق بن کے تیر گیا۔ اپنی کہانی شیر زماں نے خود بیان نہیں کی تھی۔ پشتو کے سوا دنیا کی کوئی زبان وہ نہیں جانتا تھا اور شاید جاننا چاہتا بھی نہیں تھا۔ اس کی کہانی پنج پیر کے بوڑھے، گھر دار عورتیں، سوات سے دریائے سندھ میں اترنے والی بدری ندی کنارے کھیلنے والے بچّے بیان کیا کرتے۔ وہ اسے بل بابا، کہتے ہیں، دوسرا بابا۔ ہر پشتون بچے کا ایک بابا ہوتاہے یا آغا، اس کا اپنا باپ۔ دوسرا بابا نہیں ہوتا۔ شیر زماں ایک استثنیٰ ہے۔ پڑھا لکھا وہ نہیں تھا۔ اسے قرآن کی کچھ سورتیں یاد تھیں، جو وہ صبحِ کاذب سے پہلے نماز میں دہراتا اور دن بھر دہراتا رہتا۔
کالا پہاڑ کی چوٹی پر سورج کی پہلی کرن اترنے سے پہلے وہ مصلے سے اٹھ جاتا اور بھاگتا رہتا، حتیٰ کہ ندی کے پانیوں پہ شام گہری ہوجاتی۔ پھر وہ آخری بار مہمانوں کے لیے چنے گئے چائے کے برتن سمیٹتا اور گھر کے سارے کمروں کا جائزہ لیتا، جہاں ربع صدی پہلے وہ ایک جاننے والے کے ساتھ آیا تھا۔ بے ترتیبی اور سست رفتاری سے نفرت کرنے والا آدمی۔ اس کے کسی جاننے والے کویاد نہیں کہ کبھی آج کا کام اس نے کل پہ اٹھا رکھا ہو۔
صبح سے شام تک ایسی بھاگ دوڑ جو ایک جوان کو رلا دے لیکن بل بابا میں خودترسی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ دن کی پانچ نمازوں اور گاہے انگور، انار، آلوچے او رانجیر کے درختوں اور گلاب کی جھاڑیوں کے درمیان اودھم مچاتے بچوں کو دھیرج کا مشورہ دینے کے سوا وہ کبھی دم نہ لیتا۔ تب تھوڑی دیر کے لیے وہ رک جاتا۔ آنکھوں میں چمک لیے پھولوں ایسے بچوں کو دیکھتا رہتا۔ اس کے کبھی داد کے طالب نہ ہونے، کبھی کہانی نہ کہنے اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کرنے والے چہرے پہ بچوں کی سی نرمی آجاتی۔ شرمیلی بوڑھی آنکھیں مہربان ہوجاتیں۔ بابا کے مطابق اس کی عمر اسّی برس تھی لیکن پنج پیر کے بوڑھے کہا کرتے کہ اسے انہوں نے کبھی جوان نہیں دیکھا۔
لوٹ کر میں دیکھتا ہوں اور چونک جاتا ہوں۔ اس کی چستی حیران نہیں کرتی، حواس گم کر دیتی ہے۔ اسّی پچاسی برس کا آدمی اور بیس بائیس برس کے تیور؟ آخر یہ کس طرح ممکن ہے۔ مدتوں یہ ناممکن ہر روز برپا ہوتا رہا، سال کے 365دن۔ کوئی ہفتہ وار چھٹی نہ ماہانہ، سالانہ بھی نہیں۔ تہوار پربھی اصرار کے ساتھ اسے اپنے گاؤں روانہ کیا جاتا۔
جب زائد روپیہ صرف کیا جاتا، جب کھانا ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا، جب کوئی جھاڑیوں سے پھول نوچتا تو اسے ناگوار گزرتا۔ خواہ وہ خاندان کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے چہرے پہ ناراضی امنڈتی اور گونگے نقوش بو ل اٹھتے۔ شیر زماں کو باتیں کرنا پسند نہیں تھا۔ ہرگز وہ نہیں جانتا تھا کہ لوگ سارا وقت بات چیت کیوں کرتے ہیں۔ اپنا مدعا وہ کم از کم الفاظ میں بیان کرتا، وہ بھی اس وقت، جب ضروری ہو۔ اس کا اندازِ فکر یہ لگتا کہ آدمی کو اپنے کام میں جتے رہنا چاہئیے اور بروقت انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئیے لیکن وہ کوئی فلسفی نہیں کہ وعظ و نصیحت کرے۔
حرکت کرتی ایک مثال کی طرح وہ سامنے موجود ہے، کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھ لے۔ دیاجلانا چاہے تو جلا لے۔ اسے کیا پرواہ۔
بائیس سالہ حفیظ اس گھر کا ایک اور ملازم تھا۔ اسے بدقسمتی نے آلیااور وہ بیمار ہو گیا تو لوگوں نے بابا کو پہلی بار روتے دیکھا۔ پہاڑ سے چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔ حفیظ کے دل پہ زخم تھا۔ اپنے بزرگوں کی باہم ناراضی سے اس کا زخم رستا رہتا۔ ایک دن نصف شب کو جب ندی پر کہر چھایا تھا اور پہاڑوں پہ بادل تیر رہے تھے، اس نے درّے کا پستول جیب سے نکالا اور اپنے سر کا نشانہ لیا۔
بوڑھے پہاڑ سے اس دن چشمہ پھوٹا تو دیر تک بہتا رہا۔ ندی کا پانی اگر حیرت کا اظہار کر سکتا تو دیواریں پھلانگ کر چمن میں داخل ہو جاتا اورانجیر کے سفید پھولوں سے گلے مل کر روتا۔
آنسو نہ مسرت، دعویٰ نہ دھمکی، مطالبہ نہ احتجاج، یہ شیر زماں کا دستور نہیں تھا۔ اس کا دستور بہت سادہ، صاف اور واضح تھا۔ اپنے فرائض کی ادئیگی، مسلسل، متواتر اور پیہم ادائیگی۔ اپنے اللہ پر توکل، مسلسل، متواتر اور دائمی توکل۔ مجھے خطاب کا چرواہا یاد آیا، فاروقِ اعظمؓ۔ کیا سرکارؐ کا یہ بیان آپ ہی نے بیان کیا تھا: اگر تم توکل کرو تو پرندوں کی طرح رزق دیے جاؤ۔ یہ راز بوڑھے شیر زماں کو کس نے بتادیا، جو جوانی مستانی میں جوان نہ تھا اور بڑھاپے میں بوڑھا نہیں۔ جس نے کبھی کتاب نہ پڑھی اور شاید ہی کبھی وعظ سنا ہو۔ اسے کس نے سکھایا کہ سب سے اچھا جینا مسافر کا جینا ہے اور سب سے بھاری بوجھ زر کا بوجھ ہے۔ شیر زماں کا دل نور میں کیسے نہا گیا۔ کوئی درویش، بدری ندی کے کناروں پہ سفر کرتا ہوا چلا جاتا اور اس معجزے کو دیکھتا۔ اس کا کوئی شیخ ہے اور نہ مرشد، استاد نہ معلم۔ ساڑھے پانچ فٹ کے اس پیکر پہ تو براہِ راست ستاروں سے نور برسا اور کس طرح ٹوٹ کر برسا۔
سارے سیانے، سارے لیڈر، سارے دانشور، مفکر مجھے ہیچ لگے۔ کیا یہ جذبات سے مغلوب ہو جانے کی ساعت تھی؟ شاید ایسا ہی ہو لیکن ایک سوال ایسا ہے، جس کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ پتھر پگھل کیسے جاتے ہیں۔ ایک نیم خواندہ آدمی کے قلب میں قائم رہنے والا گداز کہاں سے جنم لیتا اور نموپاتا رہتاہے۔
یہ قندیلیں سی کیسی جگمگاتی ہیں۔ یہ کہکشائیں سی کیسی ہیں؟ خدا کی اس زمین پر شیر زماں جیسے کردار کس طرح جنم لیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مسافر حیرت سے گونگا ہو جائے، کوئی بتائے، کوئی بولے۔ کوئی عالم، کوئی صوفی، کوئی درویش، کوئی رہبر۔