ہر مشکل کا مقابلہ کیا جا سکتاہے اور ہر چیلنج کا سامنا۔ پروردگار کا فرمان یہ ہے کہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ ایسا لگتاہے وزیرِ اعظم مخمصے کا شکار ہیں۔ سرما کے بعد بہار کا پورا موسم بیت گیا۔ سورج اب آگ برسا رہا ہے۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ ابھی تک کرونا کے خلاف کوئی جامع حکمتِ عملی تشکیل نہیں دی جا سکی۔ ایک طرف تو وزیرِ اعظم کا کہنا یہ ہے کہ وائرس کے پھیلتے چلے جانے کا خدشہ ہے۔ قوم خطرے میں ہے۔ بجا طورپر نشاندہی کی کہ اکثریت حفاظتی تدابیر کی پرواہ نہیں کرتی۔
دوسری طرف آپ نے سیاحت کو فروغ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ وادیء سوات، شمالی علاقوں اور کشمیر میں لاکھوں لوگوں کے رزق کا انحصار سیاحوں پر ہے۔ ان کے ہوٹل اگر بند رہے، چولہے اگرروشن نہ ہوئے تو بھوک اور بیچارگی انہیں آلے گی۔ بہت سے دوسرے ادارے بھی وہ کھول دینا چاہتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ چند دن میں سرکاری اقدامات کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ بائیس کروڑ کی یہ قوم احتیاط کی روش اختیار نہیں کرتی تو سیاحوں کی آمدرفت سے مرض کیا اور نہیں بڑھے گا؟ بے قابو نہ ہو جائے گا؟ تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلقِ خدا کو احتیاط اور پرہیز پر آمادہ کیا جائے۔ بار بار ہر آدمی ہاتھ دھوئے۔ صابن سے، سلیقہ مندی کے ساتھ۔ چہرے ڈھانپ کر رکھے جائیں اور فاصلہ برقرار رہے۔ تلقین سبھی کرتے ہیں مگر ایسے میں فقط وعظ کی نہیں، ایک بھرپور مہم برپا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمیشہ سے ہم جانتے ہیں کہ جب کسی خیال کو راسخ کرنا ہو تو بار بار اسے دہرایا جاتا ہے۔ ہر طرح سے، ہر زاویے سے۔ اس سطح کی کوئی مہم نہیں۔ میڈیا سے بھرپور پروگرام نہیں، اخبار اور ٹیلی ویژن میں اشتہار نہیں۔ مقدور بھر کوشش میڈیا نے کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر۔ اول دن سے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اخبار نویسوں کے باب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے مغائرت بلکہ مخاصمت کا رویہ اختیار کر رکھاہے۔ جتنی نفرت اپوزیشن کے حصے میں آئی ہے، کم و بیش اتنی ہی میڈیا کے حق میں بھی۔ اتنے خطرناک حالات میں ایسی حماقت؟
گلیوں، بازاروں اور دوکانوں میں ہجوم ہر کہیں اور روکنے والا کوئی نہیں۔ ماسک کو لازمی قرار دے دیا اور بہت اچھا کیا۔ کاغذ پر قانون لکھنے سے مگر کیا ہوتاہے؟ فقط سرکاری اعلان سے کیا حاصل۔ ماسک پہنے بغیر جو لوگ گھروں سے نکلتے ہیں بسوں اور کاروں میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہیں۔ دفاتراور دوکانوں میں فاصلے کی پرواہ نہیں کرتے، ان کا ہاتھ پکڑنے والا کون ہے۔ تبلیغ و تلقین اہم ہے مگر قانون نافذ کرنے کے لیے طاقت بھی ضروری ہوتی ہے۔
زندگی کی حفاظت اور فروغ جزا و سزا میں ہے۔ قانون روندنے والوں کو خوف اگر لاحق نہ ہو تو بیشتر لوگ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر ایسے ہیں کہ ہر حکومتی فیصلے کی مخالفت ان کے نزدیک جائز اور طیب ہی نہیں، ضروری ہے۔ تبلیغی جماعت نے اپنا اجتماع ڈٹ کر منعقد کیا۔ سرکاری احکامات کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ یومِ شہادتِ امیرالمومنینؓ پر جلوس نکالے گئے۔ جب کہ محدود اور منظم اجتماعات پہ اکتفا ممکن تھا۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بے باکی سے بعض علمائے کرام نے اعلان کیا: مساجد میں بھرپور اجتماعات کیے جائیں۔ مساجد میں بھرپور اجتماعات ضرور ہونا چاہئییں، خاص طور پر آخری عشرے کی طاق راتوں میں۔ لیکن کیا انسانی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ کرونا میں مبتلا ہونے والا ایک طرح سے خودکشی کا ارادہ کرتا ہے۔ پھیلانے کا ذریعہ بن جائے تو دوسروں کی زندگیاں خطروں میں ڈالتا ہے۔ شریعت، مطہرہ کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ اللہ کے احکام اور سرکارﷺ کے طرزِ عمل کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آپﷺ نے حکم دیاتھا کہ کوڑھ کے مریض سے ایک نیزے کا فاصلہ رکھا جائے، چھ سات فٹ کا۔
جذام میں مبتلا ایک شخص بیعت کرنے کے لیے آیا تو دیکھتے ہی ارشادفرمایا: تمہاری بیعت ہوگئی۔ سرکارﷺ کا کوئی فیصلہ، کوئی حکم مقامی اور وقتی نہیں ہوتا۔ اپنی تمام جہات میں تمام انسانوں کے لیے۔ المناک بات یہ ہے کہ گاہے اعلیٰ سرکاری عہدیدار ماسک کے بغیر نظر آتے ہیں۔ سبھی کو اللہ امان میں رکھے، کتنی ہی سرکاری شخصیات کرونا کا شکار ہو چکیں۔ حکومتِ پنجاب کو پیش کرنے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 14فیصد لوگ وائرس کا شکار ہو چکے۔
عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: تمہیں راستہ دکھانے کی میں کوشش کروں گالیکن باتوں سے نہیں۔ ہمیشہ سے آدمی افتاد اور وباؤں کا شکار ہوتا آیا ہے۔ عمر فاروقؓ کے دور میں طاعون پھیلا اورپانچ برس قحط بھی۔ امیر المومنینؓ نے، سرکارﷺ کے بعد جنہیں تاریخ کاعظیم حکمران مانا جاتا ہے، اپنے گھر کا راشن آدھا کر دیا۔ ان کے پوتے پوتیوں کے لیے یہ دن بہت سخت تھے۔ دن بتانے مشکل ہو گئے تھے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیرکا
عظیم الشان ایثار کا نتیجہ یہ تھا کہ بھوک سے کوئی نہ مرا۔ مشکل وقتوں میں صرف زیادہ احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابتلا کے دن قوموں کی تعمیر و تشکیل میں معجزانہ کردار اداکرسکتے ہیں۔ بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ ہر آزمائش کے کچھ سبق ہوتے ہیں۔ اگر سیکھ لیے جائیں تو آئندہ نسلوں کی زندگی زیادہ ثمر خیز ہو جاتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: فان مع العسر یسراان مع العسر یسرا۔ پس تکلیف کے ساتھ آسانی ہے، بے شک تکلیف کے ساتھ آسانی ہے۔ بندوں کا پروردگار غفور الرحیم ہے۔ ماں باپ بچوں کی بہتری کے لیے گاہے سختی سے کام لیتے ہیں۔ انسانوں کا خالق انہیں ابتلا میں ڈالتاہے تو وہ سیکھیں اور حیات کو بالیدگی عطا کریں۔
ماہرین متفق ہیں کہ جنگلی جانوروں کی قربت نئے امراض کا باعث ہے۔ قربت کیا، بعض اقوام میں صدیوں سے وہ دسترخوان کا حصہ ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا وائرس اسی سے پھیلا۔ آدمؑ کی اولاد نے سبق نہ سیکھا۔ خدا کی پوری زمین اب ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہے۔ کہا جاتاہے کہ کرونا وائرس سے اب کوئی ایک شخص بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ حکومتوں نے گویا سپر ڈال دی ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر، دل اور کینسر کے امراض میں مبتلا سب کے سب لوگ خطرے میں ہیں اور پچاس برس سے زیادہ عمر کے اکثر لوگ بھی۔ یہ ہے وہ عظیم تحفہ، جو نئی تہذیب نے اپنے بزرگوں کو دیا ہے۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟
موت کا ایک دن مقرر ہے۔ زائد زندگی کا ایک لمحہ بھی ممکن نہیں۔ المیہ یہ نہیں کہ زندگی تمام ہو جائے۔ المیہ یہ ہے کہ آدمی چیلنج کے مقابل نہ اٹھ سکے۔ ہر مشکل کا مقابلہ کیا جا سکتاہے اور ہر چیلنج کا سامنا۔ پروردگار کا فرمان یہ ہے کہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔