اللہ نے اپنی کائنات کبھی شیطان کو سونپی ہے اور نہ کسی سپر پاور کو۔ فرمایا"جو کچھ اس زمین پر ہے، فنا ہونے والا ہے، باقی رہے گا، تیرے رب کا چہرہ، دائمی عظمت اور ہمیشہ کی بزرگی والا"
ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن کی بیان کر دہ داستان ادھوری ہے۔ بہت کچھ آشکار ہونا باقی ہے۔ یہ البتہ واضح کر دیاکہ پاکستانی قیادت کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم ہرگز نہ تھا۔
اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ سی آئی اے کو ایبٹ آباد میں ایک مشکوک عرب کی موجودگی کا علم آئی ایس آئی کے توسط سے ہواتھا۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں باہم رابطے میں تھیں۔ ایک دوسرے سے شکایات بھی ہوتیں۔ اختلافات بھی پیدا ہوتے اور سلجھانے کی کوشش بھی جاری رہتی۔ مکمل اعتماد مگر کبھی پیدا نہ ہو سکا۔
مائیکل ملن، ہیلری کلنٹن، ہالبروک یا جنرل پیٹریاس ہمیشہ جنرل کیانی سے الجھتے رہتے کہ پاکستان طالبان سے رابطہ رکھتا ہے۔ مائیکل ملن کو ایک بار جنرل نے جواب دیا: رابطہ رکھے بغیر معلومات کا حصول کیسے ممکن ہے؟ خوب یاد ہے کہ ہیلری کلنٹن بھی چیخ و پکار کیا کرتیں کہ گاہے جنرل کیانی پریشان ہو جاتے۔ وہ ایک شائستہ آدمی ہیں۔ ایسے میں اکثر وہ خاموشی ا ختیار کر لیتے۔
ایک بار ایک بہت دانا آدمی سے انہوں نے مشورہ کیا۔ فوج اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کی فہم و فراست ضرب المثل ہے۔ اس کا جواب یہ تھا: ہیلری ایک جذباتی خاتون ہیں۔ دس بارہ منٹ تک انہیں بات کرنے کا موقع دیا کیجیے۔ بخار اتر چکے تو اپنا تجزیہ پیش کر دیا کیجیے۔ بہت بعد میں جنرل کیانی نے اس ناچیز کو بتایا کہ یہ نسخہ کارگر رہا۔ وزیرِ خارجہ ہیلری نہ صرف مطمئن ہو گئیں بلکہ انہوں نے قبائلی علاقے کے لیے دو سو ملین ڈالر کی پیشکش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روپیہ جنرل کی ذاتی نگرانی میں استعمال ہونا چاہئیے۔ ہیلری سے انہوں نے کہا کہ منصوبہ حکومت کو سونپا جائے گامگر اس بات کو وہ یقینی بنائیں گے کہ بہترین طور پر وسائل استعمال ہوں۔ سات سو کلومیٹر کی یہ دو رویہ سڑک صرف دو سو ملین ڈالر میں مکمل ہو گئی۔ لطیفہ یہ کہ مزدوروں کو دوگنی اجرت ادا کی گئی۔ جنرل کا کہنا یہ تھا کہ مزدور سال بھر میں ڈیڑھ دو لاکھ روپے کی بچت کر لے تو ایک چھوٹے موٹے کاروبار کا آغاز کر سکے گا۔ ہزاروں زندگیاں بدل جائیں گی۔
ہالبروک بہت شور مچایا کرتے۔ اسی صاحبِ ادراک سے جنرل نے مشورہ کیا تو اس نے کہا: مسٹر ہالبروک ویسے بالکل نہیں، جیسے نظر آتے ہیں۔ ایک بار ملاقات سے انکار کر دیجیے۔ چند ماہ بعد مینگورہ میں جنرل سے ایک اتفاقی ملاقات ہوئی۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے دوچار نوجوانوں کی ذہنی بحالی سے متعلق یہ ایک سیمینار تھا۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی، چیف آف آرمی سٹاف، صوبے کے کچھ ممتاز سیاستدان اور چند اخبار نویس مدعو تھے۔
دوپہر کا کھانا کھایا جا چکا تو جنرل نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اتفاق سے سیّد مشاہد حسین بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن کی ایک ملاقات کے بعد ہالبروک نے دوسری بار ملنا چاہا۔ جنرل نے کہا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔ ہالبروک کی جان پہ بن آئی۔ وہ اصرار کرتا رہا۔ واشنگٹن کی بجائے، جنرل نے اگلے دن اسے نیو یارک میں ملاقات کا وقت دیا۔ جنرل نے مجھے بتایا: مقررہ مقام پر جب میں پہنچا تو ہالبروک فٹ پاتھ پہ کھڑے تھے۔ پھر ہمیشہ کی متانت سے انہوں نے کہا: امریکہ میں ایسا نہیں ہوا کرتا۔
کتنی ہی چیزیں ہیں، وقت کے ساتھ جو کھلیں گی۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد دنیا بھر میں پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کا طوفان اٹھا کہ اسی نے اسامہ کو ایبٹ آباد میں چھپا رکھا تھا۔ عقل کے اندھو، کس لیے۔ چھپانا ہی ہوتا تو کیا پورے خاندان کو ایک ساتھ رکھتے۔ پھر یہ کہ اب اس کا مصرف ہی کیا تھا۔ جنگ میں شریک ہو سکتا، نہ اسے ختم کر سکتا تھا۔
واقعہ بالکل سادہ ہے۔ نواحِ ایبٹ آباد سے عربی زبان میں کی جانے والی ایک کال سنی گئی۔ آئی ایس آئی نے اس کا ترجمہ کرایا۔ مالی معاملات پہ گفتگو تھی۔ آئی ایس آئی نے یہ ٹیپ سی آئی اے کے حوالے کر دی۔ ظاہر ہے کہ یہ سیٹلائٹ فون پر ہونے والی بات چیت تھی۔ دو خفیہ ایجنسیاں مل کر کام کر رہی ہوں تو قاعدہ یہ ہے: جو کچھ ایک ایجنسی دوسرے کے حوالے کرے، مزید تحقیق کے بعد وہ پہلی کو اس سے مطلع کردیتی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارپرداز کہتے ہیں، کم از کم اسّی فیصد معلومات کا لازمی طور پر تبادلہ ہوتاہے۔ سی آئی اے خاموش رہی۔ اندازہ انہیں ہو گیا اور بعض دوسرے ذرائع سے بھی۔ جیسا کہ جان برینن نے لکھا ہے: سی آئی اے نے اپنے طور پر آپریشن کا فیصلہ کیا۔ طے کر لیا کہ پاکستان کو اطلاع نہیں دی جائے گی۔
ان دنوں جنرل کیانی سے میری ملاقات رہتی تھی۔ واقعے کے فوراً بعد ملا تو پوچھا کہ یہ سانحہ کس طرح رونما ہوا۔ انہوں نے کہا: آپ جانتے ہیں، شب ساڑھے تین، چار بجے تک میں جاگتا ہوں۔ بتایا گیا کہ ایبٹ آباد میں مشکوک ہیلی کاپٹر نمودار ہیں۔ اندیشہ ہوا کہ خدانخواستہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تو خطرے میں نہیں ؛چنانچہ فوری طور پر حساس مقامات سے رابطہ کیا گیا۔ جب اطمینان ہو چکا تو خیال آیا کہ یہ ہمارا اپنا ہی ہیلی کاپٹر ہو گا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں، وقت بہت کم بچا تھا۔ سرگودھا سے ایف 16پرواز کر سکتے تھے۔ کارروائی کا کچھ نہ کچھ امکان موجود تھا لیکن مکمل کامیابی کا نہیں۔ ظاہر ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے امریکہ سے براہِ راست تصادم کے نتیجے پر بھی غور کیا ہوگا۔
جان برینن کا یہ دعویٰ درست دکھائی نہیں دیتا کہ خود امریکیوں نے جنرل سے رابطہ کیا۔ جنرل کا کہنا ہے کہ خود انہوں نے واشنگٹن سے بات کی تھی اور اس مفہوم کا جملہ کہا: ایسا ایک اور حادثہ ہو گیا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہوا میں ہوں گے۔ یعنی یہ کہ تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ کارروائی کے فوراً بعد اخبار نویسوں کے لیے کی جانے والی ایک پریس بریفنگ میں جنرل پاشا نے کہا: ہمیں اگر امریکیوں نے بتایا ہوتا تو دس سال تک امریکہ میں کوئی ہم پہ انگلی نہ اٹھا سکتا۔ اپنے دل میں، میں نے سوچا:جنرل کو شاید اندازہ نہیں کہ پاکستان شریک ہوتا تو کیسا عوامی ردّعمل جنم لیتا۔ اللہ نے ملک کو بچا لیا۔
انہی دنوں عرض کیا تھا کہ پاکستانی فوج امریکہ سے بے زار ہو چکی۔ جب اور جیسے ہی موقع ملا، اپنی راہ وہ الگ کر لے گی۔ وہ وقت آن پہنچا ہے۔ امریکہ اب زوال کے راستے پر ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ دنیا ہی بدل جائے گی۔ اللہ نے اپنی کائنات کبھی شیطان کو سونپی ہے اور نہ کسی سپر پاور کو۔ فرمایا"جو کچھ اس زمین پر ہے، فنا ہونے والا ہے، باقی رہے گا، تیرے رب کا چہرہ، دائمی عظمت اور ہمیشہ کی بزرگی والا"