دل میں درد اور ذہن میں شعور کارفرما ہو، مشاورت اہلِ دانش سے ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ باتوں سے نہیں، زندگی عزم و عمل کے ولولے سے تعمیر ہوتی ہے۔ کپتان کو کوئی بتائے کہ خلقت پامال اور ملک کی سب سے بڑی دولت برباد ہوئی جاتی ہے۔
پاکستانی زراعت پیہم زبوں حال کیوں ہے؟ گرتے گرتے کپاس کی پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ سے پچپن لاکھ گانٹھ رہ گئی۔ کپاس کے پھول دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ گویا پولیو کا مارامعصوم بچّہ۔ حکومتیں بے نیاز رہیں، بالکل بے نیاز۔ شعیب بن عزیز کا شعر ہے
کچھ اپنے دل کی خبر لے کہ اس خرابے میں
پڑا ہوں میں بھی کسی گنجِ گمشدہ کی طرح
اہلِ فکر و نظرکو کسان کی حالتِ زار پہ فریاد کرتے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراباور یہ کہا تھا
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
پوشیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
واحد زرعی انقلاب ایوب خاں کے عہد میں رونما ہوا۔ گندم کی پیداوار سات من فی ایکڑ تھی۔ امریکی زرعی ماہر، نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر برلاگ کا دریافت کردہ میکسی بیج پاکستان لایا گیا۔ چالیس من فی ایکڑ تک پیداوار پہنچی۔ بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر، نواز شریف، زرداری یا کپتان، تمام تر توانائی باہمی کشمکش کی نذر ہوتی رہی۔ بس ایک برس بے نظیر نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو ذمہ داری سونپی۔ پرعزم اورباوفا آدمی کی ریاضت سے سات فیصد فروغ ہوا۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 78سالہ آدمی کو شریف خاندان نے عدالتوں میں گھسیٹ کے مارڈ الا۔ دودھ کی پیداوار کے شعبے میں جس نے کرشمہ کر دکھایا تھا۔ چالیس پچاس ہزار خاندانوں کو حیاتِ نو بخشی۔ ان کے بچّے آسودہ ہوئے اور بہتر اداروں میں تعلیم پانے لگے۔ پچپن روپے فی کلو کے حساب سے بیکریوں، ہوٹلوں اور عام لوگوں کو دودھ فراہم کیا جاتا۔ پھر شریف خاندان کو اپنا کارخانہ لگانے کی سوجھی اور طے یہ پایا کہ اس مشہور برانڈ "ہلہ" کو دفن کر دیا جائے تاکہ حمزہ شہباز کا کاروبار چمک سکے۔
چوبیس پچیس فیصد سے گھٹتے گھٹتے قومی آمدن میں زراعت کا حصہ اٹھارہ فیصد رہ گیا۔ نتیجہ یہ کہ حکومت کی توجہ اور بھی کم ہو گئی۔ نگاہ اس کی زیادہ آمدن والے شعبوں پہ رہتی ہے۔ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کا حال پتلا ہے۔ زرعی یونیورسٹیوں کا خراب تر۔ زرخیز دماغوں سے مشورہ نہیں کیا جا تا۔ کسان کا درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ دہقان حالات کے رحم و کرم پر۔
آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
بنیادی تضاد یہ ہے کہ زراعت کو صنعت کا درجہ حاصل نہیں۔ دنیا بدل چکی اور کاشت کاری کے تقاضے بھی۔ بیج کی دنیا میں انقلاب برپا ہے۔ چین میں ایک ایکڑ سے دوسو من چاول اگانے کا تجربہ کامیاب رہا۔ دنیا میں گندم کی اوسط پیداوار اسی من سے اوپر ہے۔ ہمارے ہاں لگ بھگ بیس من فی ایکڑ۔ کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ کوئی دیرپا منصوبہ نہیں کہ افتادگانِ خاک کی خبر لے۔ ہنگامہ برپا ہو۔ امڈ کر کسان شہروں کا گھیراؤ کر لیں تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں۔ بات ہوتی اور وعدے کر لیے جاتے ہیں۔ کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے۔ وسطی ایشیا کی ضرب المثل یہ ہے: برف پہ تم پیمان لکھتے ہو اور دھوپ میں رکھ دیتے ہو۔
بیج کا نیا قرینہ یہ ہے کہ ہر تین چار برس کے بعد نئے تخم کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیڑے سے محفوظ رہے۔ کھادیں اب اور طرح کی ہیں۔ جراثیم کش ادویات بھی۔ ہم ابھی تک قدیم اور کہنہ اندازِ زراعت پہ عمل پیرا ہیں۔ دنیا بھر میں جدید لیبارٹریز ہمہ وقت نئے بیجوں کے تجربات کرتی ہیں۔ زمین کو جانچنے اور موزوں تر بنانے کے اقدامات جاری رہتے ہیں۔ پاکستان کی بیشتر اراضی پوری طرح ہموار تک نہیں۔ تکنیکی زبان میں جسے لیزر لیولنگ کہا جاتاہے۔ نتیجہ یہ کہ کہیں زیادہ پانی سے فصل برباد اور پودے کہیں آب رسانی سے محروم۔
نمو کے لیے بیج کو کھادوں کے خاص آمیزے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوریا، فاسفیٹ اور پوٹاشیم۔ خدا خدا کر کے یوریا کی پیداوار میں خود کفالت پالی گئی لیکن پوٹاشیم اور فاسفیٹ اب بھی بیرونِ ملک سے درآمد ہوتی ہیں۔ جراثیم کش ادویات میں ملاوٹ کی شکایت عام ہے۔ تدارک کی کوئی تدبیر نہ جزا اور سزا کا کوئی نظام۔ پولیس پتھر دل، عدالت بے کس اور لاچار۔ احتجاج کی لہر اٹھے تو چند چھاپے اور پھر وہی بے مہر سکوت۔
محکمہ زراعت کو تشکیلِ نو چاہیے، یکسر نئی تشکیل۔ اوپر سے نیچے تک سی ایس پی افسر بھرے ہیں۔ ان کی بلا جانے کہ نئی زراعت کیا ہے۔ جگمگاتے دفتروں میں اپنا بیشتر وقت وہ فائلوں کو ٹرخانے میں برباد کرتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹیاں دھڑوں میں بٹی ہیں۔ تقرر سفارش پر اور جواب دہی موقوف۔ طالب علموں کا بہت سا وقت باہمی کشمکش میں رائیگاں رہتاہے۔
دنیا میں کبھی زراعت ہی سب کچھ تھی۔ معیشت کا سب سے بڑا حصہ۔ منگول خونخواروں کا منہ پھیر دینے والے علاؤالدین خلجی کو ایک دن عجب حال میں دیکھا گیا۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ سر جھکائے، دیر تک غور و فکر میں غلطاں۔ شہنشاہ کو متوجہ کرنے کی ہر مودبانہ کوشش ناکام رہی۔ دلّی کے موٹے کوتوال کو بلایا گیا کہ بارگاہ میں مقرب تھا۔ بادشاہ نے کہا:آزردہ ہوں کہ سال کے اختتام تک گندم کے نرخ دو گنے ہوجاتے ہیں۔ دستور اس زمانے کا یہ تھا کہ ضرورت کا سامان لے کر نگر نگر بنجارے پھرا کرتے۔ کپاس اور گندم کے عوض اشیاء ِ ضرورت فراہم کرتے۔ ملک کے طول و عرض میں بادشاہ نے گودام تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گندم ہی نہیں، ضرورت کی دوسری اشیا بھی ارزاں ہو گئیں۔ شیر شاہ سوری اور عالمگیر کے ادوار میں تعجب سے کہاجاتا: خلجی کا دور گویا لوٹ آیا ہے۔ حوصلہ افزائی انسانی روح کی بہترین غذا ہے۔
پانچ صدیاں ہوتی ہیں، باپ نے سہسرام کی جاگیر شیر شاہ کے حوالے کی تو کسانوں سے اس نے کہا: چھ من فی ایکڑ سے زائد پیداوار میں دو تہائی تمہارا۔ ایک انقلاب برپا ہوا۔ اسی شیر شاہ نے ظہیر الدین بابر کو زچ کیے رکھا۔ ہیرالڈلیم جسے "بادشاہوں کا بادشاہ" کہتاہے۔ اسی نے ہمایوں کو مار بھگایا۔ پانچ برس بعد مٹی اوڑھ کر سویا تو برصغیر کی تقدیر بھی سو گئی۔ وہ امن و ا مان رہا، نہ عام آدمی کی دیکھ بھال۔ خاں صاحب کہتے ہیں: حکومت کے لیے پانچ برس بہت کم ہیں۔ شبِ وصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو/جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا۔ شیر شاہ کو کل پانچ برس ملے تھے۔ کتنے بے شمار قلعے، ڈاک کا کیسا شاندار نظام، کروڑوں درخت، پشاور سے کلکتہ تک شاہراہ کی تعمیر، اس پہ ہزاروں مسافر خانے، نظامِ عدل، زرعی زمین کی پیمائش اور ملکیت مرتب کرنے کا نظام۔
دل میں درد اور ذہن میں شعور کارفرما ہو، مشاورت اہلِ دانش سے ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ باتوں سے نہیں، زندگی عزم و عمل کے ولولے سے تعمیر ہوتی ہے۔ کپتان کو کوئی بتائے کہ خلقت پامال اور ملک کی سب سے بڑی دولت برباد ہوئی جاتی ہے۔