وزیرِ اعظم کے ہاتھ پاؤں ہی دھوکہ دہی پر تلے ہیں توبلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ وزیرِ اعظم نے ٹھیک کہا: ابھی کچھ دن ملک کو تنے ہوئے رسّے پر چلنا ہے۔ اس امتحان میں سب سے زیادہ اہمیت توازن کی ہوتی ہے۔ کارخانے کھولنے ہیں، کام کاج کرنا ہے اور ہر طرح کی احتیاط بھی ملحوظ رکھنی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو چینی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ 28 دن تک لاک ڈاؤن جاری رہنا چاہئیے۔
یہ واضح نہیں، اس سے مراد موجودہ پابندی میں توسیع ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ 14اپریل کو 28دن پورے ہو جائیں گے۔ اسی روز وزیرِ اعلیٰ نے دو اور خوشخبریاں بھی دیں۔ گلبرگ سے شاہدرہ اور موٹروے تک ٹریفک سگنل سے پاک شاہراہیں مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ یہ بھی بتایاکہ لاہور میں پچیس لاکھ نئے درخت لگائے جائیں گے۔ بے شک لاہور کے بڑے مسائل میں سے ایک آلودگی ہے۔ کینسر سمیت اسی سے کئی موذی امراض جنم لیتے ہیں۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
جنرل ضیاء الحق کے دور سے بحث چلی آتی ہے کہ 80 فیصد بیماریاں نا صاف پانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اجلا پانی مل جائے تو بڑا خطر ہ ٹل جائے گا۔ افسوس کہ سب سے اہم صحت اور تعلیم ہی کے شعبے سب سے زیادہ نظر انداز ہوئے۔ ہر حکومت تعلیمی بجٹ بڑھانے کا دعویٰ کرتی رہی مگر عمل کبھی نہ ہوا۔ تعلیم اور صحت کو بہتر بنائے بغیر عہدِ جدید کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا کیسے ممکن ہے؟
ہنگامی مسائل میں ہم الجھے رہتے ہیں، چنانچہ دیر پا منصوبہ بندی کے تقاضے مستقل نظر انداز۔ عہدِموسٰیؑ کے بنی اسرائیل کی طرح 72برس سے ہم صحرا میں بھٹک رہے ہیں۔ کرونا نے تضادات کو اور بھی آشکار کر دیا۔ انتظامی ڈھانچہ اس قدر مضمحل ہے کہ کسی آندھی کی تاب نہیں لا سکتا۔ داد دینی چاہئیے کہ آٹے اور چینی کی رپورٹ من و عن شائع کر دی گئی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، ورنہ ہر بار گندگی قالین کے نیچے چھپا دی جاتی۔ یہ فرار کی قومی نفسیات ہے۔ مسائل کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا جائے تو عزم اور ولولہ فروغ ہی نہیں پاتا۔ مزمّن امراض کا تدارک کیسے ہو؟
رپورٹ کی زد سرکاری شخصیات پہ پڑی ہے۔ اپوزیشن لیڈرچیخ رہے ہیں۔ بجا ارشاد لیکن یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ شریف حکومت نے اقتدار سنبھالا تو قومی تاریخ میں آٹے کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا۔ چترال سے کراچی تک اس نعرے کی گونج سنائی دیتی رہی "شیر آٹا کھا گیا"۔ یہ عنایت آٹا مافیا سے انتخابی مہم میں چندہ وصول کرنے کا ثمر تھی۔
چینی کے نرخوں میں ایک چونی کے اضافے اور خواجہ ناظم الدین کے دور میں آٹے کی قلّت سے دونوں حکمران طوفان میں بہہ گئے۔ خواجہ ناظم الدین کتنے اہل تھے، یہ ایک الگ سوال ہے مگر ان کی امانت و دیانت میں کوئی شبہ نہ تھا۔ ان پر کبھی کوئی الزام نہ لگا۔ سکینڈل کا تو سوال ہی کیا۔ ایوب خاں کے عہد میں صنعت کاری کی مضبوط بنیادیں استوار کی گئیں اور آج تک ہم اس کا دیا کھا رہے ہیں۔ اسی عہد میں منگلا اور تربیلا ایسے عظیم الشان ڈیم تعمیر ہوئے، جن کے بل پر آج بھی ملک خوراک میں خود کفیل ہے۔ ف
خرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں قومیاکر صنعتیں برباد کر دی گئیں۔ ذہانت سمندر پار چلی گئی اور سرمایہ بھی۔ پیپلزپارٹی کے کارکن سرکاری صنعتوں میں ٹھونس دیے گئے۔ اس قدر سرمایہ خوفزدہ ہوا کہ صنعت کاروں نے روپیہ ملک سے باہر رکھنے کو شعار بنا لیا۔ عہدِ نو میں لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں کی بازپرس کے نام پر سرمایہ کاروں کو اتنا خوفزدہ کیا گیا کہ بینکوں سے روپیہ نکل کر گھروں میں جا چھپا، چنانچہ بے روزگاری پھیلتی گئی۔ کرونا کی ابتلا اس کے بعد آئی اورزخم گہر ا ہوگیا۔
سانحوں میں سے ایک بڑا سانحہ یہ ہے کہ سول سروس کا فولادی فریم بتدریج پگھلا دیا گیا۔ سرکاری ملازمین سے قائدِ اعظمؒ نے کہا تھا: سیاستدان آتے جاتے رہیں گے، مستقل طور پر ملک آپ کو چلانا ہے۔ ناجائز احکام کی تعمیل سے آپ کو انکار کر دینا چاہئیے۔ نیم پاگل یحییٰ خاں نے 1400سرکاری افسر برطرف کر دیے۔ یہ فہرستیں خفیہ ایجنسیوں نے مرتب کیں۔ متاثرین کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ یہ انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ بد دلی ہر سو پھیل گئی۔ کسی خوفزدہ آدمی سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ دل جمعی سے اپنے فرائض انجام دے گا۔
رہی سہی کسر وزیرِ اعظم بھٹو نے پوری کر دی۔ سول سروس پر انہوں نے بھی اتنا ہی کاری وار کیا۔ لگ بھگ دو ہزار سرکاری ملازمین کو چلتا کیا۔ خوف کی لہر ہڈیوں کے گودے تک اتر گئی۔ سول سروس لوہے کی بجائے موم کا پتلا بن گئی۔ احسان دانش نے کہا تھاکل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدےجو موم کا پتلا تھا، وہ گھر تک نہیں پہنچااور ظفر اقبال کا شعر یہ ہے
کاغذ کے پھول سرپہ سجا کے چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آلیا
پولیس اور پٹوار کو تو سرکارہمیشہ سے من مانی کے لیے استعمال کرتی آئی تھی۔ انتہائی اہمیت کے دونوں محکموں کو لوٹ کھسوٹ کی کھلی اجازت دیے رکھی اور اپوزیشن کے خلاف بے دردی سے انہیں استعمال کیا جاتا رہا۔
2002ء میں نادرا کے چئیرمین نے اس ناچیز سے کہا: 180 دن میں سرکاری زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا سکتاہے لیکن صوبائی حکومتیں چٹان ہوگئی ہیں۔ اس لیے کہ وزرائے اعلیٰ، ان کے خاندان اور کارندے زمینوں کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ رائے ونڈ کے محلات اسی طرح وجود میں آئے۔ جب بھی کوئی نئی بڑی سڑک بنی، وزرائے اعلیٰ، وزرا اور سرکاری پارٹی کے عہدیداروں کو نجی رقبے خریدنے کا موقع دیا گیا۔ لاہور کی رنگ روڈ تعمیر کی جا رہی تھی تو قاف لیگ کے ایک سینیٹر نے جھلا کر کہا: اب یہ ایک بل کھاتی ہوئی سڑک ہے۔ اس لیے کہ حکمرانوں کو شہر کی بجائے اپنا مفاد عزیز ہے۔
کارٹل ہیں، جو دالوں کا بڑا حصہ خرید لیتے ہیں۔ در آمد اور برآمد کنندگان ہیں، جو بریف کیس لے کر اسلام آباد پہنچتے اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ برس میں عثمان بزدار نے تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب رقم کیا ہے۔ صوبائی سیکرٹریوں اور کمشنروں کے تقرر کی اوسط مدت تین چار ماہ رہی۔ اس سے پہلے کہ کوئی افسر محکمے کے مسائل سمجھ سکے، اسے اٹھا کر پھینک دیا جاتا۔ پولیس میں یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آتا تھا۔ محکمہ خوراک میں چار سیکرٹری اس اثنا میں تبدیل ہوئے۔ صوبائی وزیرِ خوراک سے لے کر ضلعی افسروں تک، سبھی کو ذمہ دار سمجھا جاتاہے اور سبھی احتساب سے بے نیاز۔
نہیں، اس طرح کام نہیں چل سکتا۔ سول سروس میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کی۔ وزیرِ اعظم کے ہاتھ پاؤں ہی دھوکہ دہی پر تلے ہیں توبلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟