شاعر نے کہا تھا:چیست حیاتِ دوام، سوختنِ ناتمام۔ دائمی زندگی کا راز کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ سلگتے رہنے میں۔ جنرل محمد ضیاء الحق، اللہ ان کی خطائیں معاف فرمائے اوران کی قبر کو نور سے بھر دے، سلگتے رہنے والے آدمی تھے۔
پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر منور صابر کبھی کوئی موتی چن لاتے ہیں۔ ایک سکھ واعظ کا بیان بھیجا ہے۔ ایک عجیب سوال اس نے اٹھایا۔ معالج اگر بتا دے کہ صرف سات دن باقی ہیں تو آدمی کا طرزِ عمل کیا ہوگا۔ دولت کا انبار بھی سامنے ہو تووہ کہے گا: چھوڑو جی، اب تو چلے ہی جانا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق میں عمر بھر یہ طرزِ احساس موجود رہا۔ شاہ حسین نے کہا تھا:چل میلے نو ں چلیے اوڑک نوں ٹْر جانا۔ آؤ میلے کو چلیں کہ آخر مر ہی جانا ہے۔
فوجی حکمران کی حیثیت نے حکمت کار کی خیرہ کن خوبیوں کو چھپا دیا۔ کچھ حیران کن واقعات سحر میجرعامرنے سنائے۔ ڈاکٹر نجیب کو بھیجے گئے پیغام اور اس کے جواب کی ٹھیک ٹھیک تفصیلات بھی کہ اس معاملے میں وہ شریک تھے۔ اس خیال سے انہوں نے اتفاق کیا کہ جنرل نے ایک عالمی طاقت کو شکستِ فاش سے دوچار کیا اور برہمن سامراج کی تباہی کے بیج بو گئے۔
کمتری کا احساس قوم کی ہڈیوں کے گودے تک گہرا ہے۔ اپنوں پر ہم فخر نہیں کرتے۔ اس اساطیری افسر بریگیڈئیر سلطان کے بارے میں کئی کالم لکھے۔ حیرت اب تک باقی ہے۔ جس کے بارے میں نیوزویک یا شاید کرسچن سائنس مانیٹر نے لکھا کہ 1971ء کے جمال پورمیں تاریخِ انسانی کا عظیم ترین دفاع خالی ہاتھوں سے اس نے تعمیر کر دیا۔ جس نے کہا کہ ڈھاکہ اگر اس کے حوالے کر دیا جائے تو دشمن کو کبھی اس میں داخل نہ ہونے دے گا۔ جس کی گرفتاری کے بعد بھارتی جنرلوں نے اس کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ بھارت میں اسیری کے بعد جو ہندوستانی افسروں سے اس طرح بات کرتا، جیسے ان کا قیدی نہیں بلکہ کھلے میدان کا حریف ہو۔ ایک بدتمیز ہندو بریگیڈئیر سے اس نے کہا تھا: تمہارا اسلحہ چھین کر تمہیں ہم جہنم واصل کر دیں گے۔ 1965ء کی جنگ سے پہلے، جب وہ محض ایک کپتان تھا، یحییٰ خان آزاد کشمیر کی سرحد پر گئے۔ مورچے کی پختگی دیکھی تو شوخی سے پوچھا: کیا دوسرے مورچے بھی ایسے ہی شاندار ہیں؟ کیپٹن کا جواب یہ تھا: اگر ایک بھی کمتر ہو تو میری گردن رسی کی سزاوار ہو گی۔
بریگیڈئیر کی پوری کہانی کبھی لکھی نہیں گئی۔ اس کے لیے کسی شیکسپیئر، دستوفسکی یا آسکر وائلڈ کا قلم چاہئیے۔ لمبے تڑنگے آدمی سے ایک بار پوچھا:کیا کبھی کسی کی شجاعت پہ آپ نے رشک کیا۔ بولے: ہاں، ایک لڑکا تھا، لیفٹیننٹ منیر۔ پیدل جمال پور سے ڈھاکہ جاتے ہوئے مکتی باہنی نے گھیر لیا۔ ہتھیار ڈالنے کو کہا تو جواب ملا:مسلمان کبھی ہتھیار نہیں ڈالتا۔ دوردراز کے اس جنگل میں وہ شہید کر دیا گیا۔ اپنے لہو سے مگر ایسی کہانی لکھ گیا کہ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے، باقی رہے گی۔ لوگوں نے کیا یہ سمجھ لیا ہے کہ بنگالی ہمیشہ کو ناراض ہو گئے؟ ہماری اور ان کی حماقتیں، خوں ریز خانہ جنگی، یحییٰ خان، بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن کی ہوسِ اقتدار، بنگالی اور پنجابی قوم پرستی۔ جہالت نے ہمیں رسوا کیا لیکن پاکبازوں کا لہو رائیگاں نہیں ہوگا۔
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں، جن کا نہیں کوئی نام
1965ء اور 1971ء، دونوں بار سب سے بڑا فوجی تمغہ بریگیڈئیر سلطان کو دیا گیا۔ جیسا کہ عرض کیا تھا، فوج کے صدر دفتر کو انہوں نے خط لکھا "اپنی جنگ میں نے دھات کے اس ٹکڑے کے لیے نہیں لڑی تھی، جو میری مو ت کے بعد دیوار پر لٹکا یا جائے گا"۔ ایک اور سپاہی بھی ہے، جسے دونوں بار ستارہء جرات ملا۔ میرے عزیز دوست میجر نادر پرویز۔ سیاست جن کو راس نہ آئی لیکن فوج میں تھے تو دلاوری کی لہکتی ہوئی مثال۔ کبھی تشریف لاتے ہیں کہ ان کی رفاقت میں گوجر خان کا سفر کروں۔ ایک دن راہ میں وہی سوال ان سے پوچھا: ایسا آپ کا کوئی ساتھی، جس کی بہادری نے آپ کو حیران کیا ہو؟ بھیگی سی آواز میں کہا:ہاں، ہمارا ایک دوست۔ جنگ میں تین دن تک وہ جاگتا رہا۔ ہم نے اصرار کیا تو بولا: There will be enough time to sleep in grave۔ سحر میجر عامر سے گفتگو ہوئی تو یہ واقعہ انہیں سنایا۔ پھر دیر تک اس پر سوچتا رہا۔ یہ اس وقت ہوتاہے، آدمی جب جاں نذر کرنے کا فیصلہ کرلے۔ آئیے ایک بار پھر خورشید رضوی کو پڑھیں
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصہء ایام سے ہجرت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
ہوسِ اقتدار کی تباہ کاریاں الگ، پاک فوج نے ایسے کتنے ہی فرزند جنے ہیں۔ کیا کوئی سیاست نے بھی جنا؟ کیا جبہ و عمامہ والوں کے قافلے میں بھی ایسا کوئی تھا؟ اقبالؔ کا احساس تو یہ تھا:
کامل اس فرقہء زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے بھی تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
جنرل ضیاء الحق کی شخصیت کا سب سے درخشاں پہلو یہ ہے کہ انسان دوستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ عمر بھر کے رفیق پیر بخش نے ایک بار بتایا: تانگے والے کو میں نے بارہ آنے کی بجائے اٹھنی دینے کی کوشش کی تو منع کیا اور بولے: غریب آدمی پہ ہمارابس خوب چلتا ہے۔ غلافِ کعبہ کے ایک ٹکڑے کا فریم بنانے کے لیے مدعو کاریگر سے ملاقات میں تاخیر ہو گئی کہ ایک اجلاس میں تھے۔ پوچھا: کیا اسے کھانا دیا گیا۔ سخت رنجیدگی سے پھر یہ کہا: مہمانوں کا اکرام جس گھر میں نہ ہو، وہ کیسا گھر؟ ناراض بھی ہو جاتے تھے، بھڑک بھی اٹھتے تھے۔ ایسے میں ایک تندورچی کو تھپڑ رسید کر دیا۔ پھر عمرہ پر جانے سے پہلے مگر اسے گھر بلایا، کھانا کھلایا اور معافی مانگی۔ و ہ بھی ایک ہی سرپھرا تھا:بولا، آپ بڑے لوگوں کا کیا ہے۔ برہم ہوں تو توہین کریں او رجی میں آئے تو معذرت کر لیں۔ جنرل کا دل دکھ سے بھرا رہا۔ دوسری بار بیوی بچوں سمیت مدعو کیا۔ اپنے خاندان کے ساتھ کھانے کی میز پر بٹھایا، تحائف دیے، لجاجت سے معافی مانگتے رہے، حتیٰ کہ وہ پگھل گیا۔
محبت او رنفرت میں تجزیہ نہیں ہوتا۔ تعصب کے مارے انصاف نہیں کر سکتے۔ درباروں سے دور رہنے والے، کبھی رو رعایت نہ کرنے والے کھرے امین احسن اصلاحی نے 17 اگست 1988ء کی شام یہ کہا تھا: اس میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ضیاء الحق نے ایک شہید کی موت پائی۔ شاعر نے کہا تھا:چیست حیاتِ دوام، سوختنِ ناتمام۔ دائمی زندگی کا راز کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ سلگتے رہنے میں۔ جنرل محمد ضیاء الحق، اللہ ان کی خطائیں معاف فرمائے اوران کی قبر کو نور سے بھر دے، سلگتے رہنے والے آدمی تھے۔