صدارتی نظام نہ سہی، کوئی دوسرا طریق وضع کرنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیاں ناکام ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے، کب تک قوم انتظار کرتی رہے گی؟
کوئی پکاروکہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلہ ٔ روز و شام ٹھہرائے
شہباز شریف نیب کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ لال مسجد والے مولانا عبد العزیز کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کے مذاکرات جاری ہیں کہ کسی طرح فساد کو روکا جا سکے۔ بیچ میں ثالث پڑے ہیں کہ حکومت کی بات مولوی صاحب نہیں مانتے اور مولوی صاحب پہ حکومت کو بھروسہ نہیں۔ کم از کم 52اضلاع میں ٹڈی دل کی یلغار ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اس نادر تجویز سے وزیرِ اعظم نے اتفاق کیا کہ عام لوگ ٹڈیاں پکڑیں اور مرغیاں پالنے والوں کو بیچیں۔ کرونا کا بڑھتا پھیلتا طوفان اپنی جگہ۔ سرکار اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ دہائی دیتی ہوئی کہ احتیاطی تدابیر کی لوگ پرواہ نہیں کرتے۔ کراچی کے بعد لاہور ایک طوفانِ بلاخیز کی زد میں ہے اور اب راولپنڈی بھی۔ کہنا مشکل ہے کہ کیا ہوگا۔
امیدوں اور امنگوں کے جلو میں پی ٹی آئی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی کہ کرپشن کی بساط لپیٹ دے گی۔ ملازمتیں وافر ہوں گی اور عام لوگوں کے لیے سستے مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ سب کچھ ہوا۔ باقی ماندہ کسر کرونا نے پوری کر دی۔ اب ہم ایک بے سمت قوم ہیں، جسے معلوم نہیں کہ آنے والا کل اس کے لیے کیا لائے گا۔
جس منتظم کو واقعی کچھ کر دکھانا ہو، ابتدا ہی سے اس کے تیور نظر آتے ہیں۔ محاورے کے مطابق پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔ دو برس بیتنے کو آئے، اب اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت ناکام ہے۔ مہنگائی عروج پر، رشوت ستانی اسی طرح عام ہے۔ پیسہ ملک سے باہر بھاگ رہا ہے۔ ٹیکس وصولی کی شرح گر گئی۔ معاشی مستقبل کے بارے میں امید کی کوئی کرن دور دور تک نظر نہیں آتی۔ آٹے کا بحران پیدا ہوا۔ حالانکہ گندم کی فراوانی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ تب انکشاف ہوا کہ پنجاب کی پانچ سو فلور ملوں میں سے اڑھائی سو بروئے کار ہی نہیں آتیں۔ سرکاری سے چودہ سو روپے من گندم خرید کر اٹھارہ سو روپے فی من کے حساب سے بیچ دیتی ہیں۔ کارروائی ان کے خلاف کیا ہوتی، الٹا پھر سے نرخوں میں اضافہ ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ پہلے ہی ناکام ہو چکیں۔ زرداری صاحب کی پارٹی سمٹ سمٹا کر سندھ تک محدود ہوچکی۔ بلوچستان کی طرح سندھ کرپشن کا گڑھ ہے۔ سرکاری نوکریاں بکتی ہیں۔ پولیس کی مدد سے مخالفین پہ زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ وڈیرے عام آدمی پر ظلم ڈھاتے ہیں تو کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود کہ رینجرز کو پولیس کے اختیارات حاصل ہیں، عالم وہی ہے، حبیب جالب عمر بھر جس پہ روتے رہے۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
بجلی کی چوری اسی شان سے۔ سول ادارے ناکردہ کار، افسر اپنے فرائض ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔ سرکاری افسر فائلوں کو چھونے سے ڈرتے ہیں، گویا ان میں سنپولیے رکھے ہوں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں پر منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں۔ ایک آدھ نہیں، اربوں کھربوں روپے کی ہیرا پھیری ہے۔ اس کے باوجود دونوں خاندان آزاد ہیں۔ زرداری صاحب ہسپتال میں براجمان ہیں۔ بلاول بھٹو کی بیشتر توانائی مرکزی حکومت کو مطعون کرنے پہ صرف ہوتی ہے۔ تازہ ارشاد یہ ہے کہ قحط پڑا تو مرکزی حکومت ذمہ دار ہوگی۔
گندم کی پیداوار کے بارے میں تخمینے مختلف ہیں۔ ماہرین میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ اب کی بار گیہوں کم پیدا ہوا۔ زراعت کے ماہرین میں سے ایک، جہانگیر ترین سے سوال کیا تو بولے: کم نہیں، امسال ایک ملین ٹن گندم زیادہ ہوئی۔ وسطی پنجاب میں بے شک بارش سے نقصان ہوا لیکن سندھ اور جنوبی پنجاب میں فصل خوب اٹھی۔ فرض کیجیے، پیداوار کم بھی ہو تو تھوڑی سی گندم درآمد کی جا سکتی ہے۔ قحط کا کیا سوال؟
نئی حکومت سے غلطی کہاں سرزد ہو ئی؟ جیسا کہ ہمیشہ عرض کیا، بنیادی انحراف علمی ہوتا ہے یعنی تجزیے کا۔ سلطنتوں کے عروج و زوال پر غور و فکر کرنے والے فلسفی اور مورخ بتاتے ہیں کہ کسی قوم کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار سول اداروں پر ہوتاہے۔ ادارے مضبوط ہوں تو امن و امان اورسیاسی استحکام، چنانچہ معیشت کا فروغ۔ بے یقینی بدترین چیز ہے، مایوسی کو جنم دیتی اور ولولوں کو چاٹ جاتی ہے۔ اگر اصلاح مطلوب تھی تو آغازِ کار پولیس اور عدلیہ کی اصلاح سے ہونا چاہئیے تھا اور ظاہر ہے کہ پٹوار کی بہتری سے۔ ڈھنگ کی پولیس ملک کو میسر ہو اور عدالتوں میں فیصلے بروقت ہونے لگیں تو سرکاری دفاتر پہ دباؤ قائم ہوجاتا ہے۔ اقتصادی زندگی نمو پذیر ہوتی ہے فروغ کا موسم شروع ہوجاتاہے۔
احتساب بجا مگر خان صاحب نے احتساب ہی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ آدمی اپنی ترجیحات اور اندازِ فکر کا اسیر ہوتاہے۔ احتساب کی شرطِ اوّلین یہ ہے کہ سب کے لیے مساوی ہونا چاہئیے۔ یہ نہیں کہ حکومت کی صفوں میں چھپے ہوئے درندے کبوتر سمجھ لیے جائیں۔ یک طرفہ طور پر مخالفین پر چڑھائی کر دی جائے۔ پھر احتساب کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب دوسرے شعبے نظر انداز کر دیے جائیں۔ مثال کے طور پر نجکاری۔ صرف ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل ہر سال سو ارب روپے سے زیادہ ہڑپ کر جاتی ہیں۔ معلوم نہیں کس حکیم نے یہ نسخہ کپتان کو بتایا کہ ان اداروں کو درست کیا جا سکتاہے۔ بنیاد ہی میں خرابی ہو اور ماحول یکسر بگڑ جائے تو اصلاح کا امکان معدوم ہونے لگتا ہے۔
سول اداروں پہ سرسری نظر رکھنے والا ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتاہے کہ پولیس، عدلیہ اور ایف بی آر کی تشکیلِ نو کے بغیر، نجکاری کے بغیر قومی معیشت صحت مندخطوط پر استوار نہیں ہو سکتی۔ باتیں ہی باتیں ہیں، عزم و عمل کی شہادت کہیں نہیں۔
وہی قصے اجالوں کے، وہی باتیں اندھیروں کی
چراغِ آرزو لے کر نہ ہم نکلے نہ تم نکلے
اکبر الہٰ آبادی سرسید احمد خان کے بہت بڑے ناقد تھے۔ عمر بھر ان پہ تنقید کرتے رہے لیکن وہ دنیا سے اٹھے تو یہ کہا:
ہماری سب باتیں ہی باتیں ہیں، سیّد کام کرتا تھا۔
مت بھولو اس کو، فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں ایک بدبودار اور کہنہ نظام مسلط ہے۔ زندگی کا ولولہ دم توڑ رہا ہے مگر اسے بد ل ڈالنے کا تصور تک نہیں۔ جاگیر داری، نوکر شاہی اور سیاسی جماعتوں کے نام پرشاہی خاندانوں کے ہاتھ میں جکڑا ہوا ایک گلا سڑا پارلیمانی نظام کسی طرح ثمر خیز نہیں ہو سکتا۔ صدارتی نظام نہ سہی، کوئی دوسرطریق وضع کرنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیاں ناکام ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے، کب تک قوم انتظار کرتی رہے گی؟
کوئی پکاروکہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے