حکم لگانے کی بجائے ابھی شاید انتظار کرنا چاہئیے۔ کوئی دن اور، کوئی دن اور۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
آنے والا کل کیا لائے گا؟ عمران خان کا اقتدار باقی رہے گا یا نہیں۔ اگر نہیں تو اس کی جگہ ٹیکنو کریٹس لیں گے یا کوئی اور؟ نئے الیکشن برپا ہوں گے یا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کوئی ایک پارٹی یا بھان متی کا ایک اورکنبہ؟
92نیوز کے ٹی وی پروگرام میں عرض کیا تھا کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا ایک منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اصرار کے ساتھ یہ بھی عرض کیا تھا کہ لفظ "منصوبہ" ذہن میں رکھا جائے۔ دو مزید نکات بھی۔ ایک تویہ کہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی تائید کے بغیر ممکن نہیں۔"یہ وہ خواب ہیں، جو دن کی روشنی میں دیکھے جاتے ہیں "
عمران خان کو ایک ناقص اور نالائق حکمران سمجھنے والے اخبار نویس سال بھر سے مطلع فرما رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کوئی دن کی مہمان ہے۔ ع
جی کا جانا ٹھہر گیاہے، صبح گیا یا شام گیا
انہی میں سے نسبتاً ایک سنجیدہ صحافی کا تجزیہ ہے کہ اب اپوزیشن کو آٹھ نو ماہ درکار ہیں۔"آٹھ نو ماہ" پہ اصرار کے بعد اس نے یہ کہا:چند ماہ تیاریوں کے لیے ضروری ہوں گے۔ پورا ایک سال بیت جائے گا۔
جیسا کہ اکثر عرض کرتا ہوں، ایک اچھا نجومی تین ماہ سے زیادہ کی پیش گوئی نہیں کرتا۔ اخبار نویس کو بھی نہیں کرنی چاہئیے۔ نجومی ستاروں کی گردش کا مطالعہ کرتاہے۔ کوئی بھی مگر یہ نہیں جانتا کہ کب کون سا ستارہ طلوع ہو گا۔ اگر اقبالؔ کی سنیے تو وہ یہ کہتے ہیں۔
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ تو خود فراخیء افلاک میں ہے خوار و زبوں
قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے: ستاروں کے مقامات کی قسم، اگر تم سمجھ سکو تو یہ ایک بڑی قسم ہے۔ علمِ نجوم سے اگر اس آیت کا تعلق ہو بھی تو برائے نام ہوگا۔ یہ کائنات کی خیرہ کن وسعت اور تنوع کے باب میں ہے، عشرِ عشیر بھی جس کا بنی آدم پہ ابھی کھلا نہیں۔ سرکارﷺ کے فرامین میں سے ایک نجومیوں کے باب میں ہے: فرمایا: تھوڑے سے سچ میں، وہ بہت ساجھوٹ ملا دیتے ہیں۔ یعنی استثنائی طور پراگر ان میں سے کوئی ایسا نہ کرے تو بھی پوری صداقت سے آگاہ نہ ہوگا۔
مستقبل بعید کے بارے میں پیش گوئی ممکن ہی نہیں۔ غیر متوقع عوامل بروئے کار آتے ہیں اور امکانات کو تہہ و بالا کر ڈالتے ہیں۔ اقبالؔ نے اس خیال کو ایک مصرعے میں ڈھال دیا تھا ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اور یہ کہا تھا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں۔
اپوزیشن بے تاب تمنا ہے کہ کپتان سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل ہو۔ وقت مگر کسی کے بس میں تو نہیں۔ تاریخ کی تشکیل کرنے والے سیاسی، سماجی اور اقتصادی عوامل پہ گرفت کا تصور ہی احمقانہ ہے، ان کا مطالعہ بھی سہل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ کرّہء خاک طاقتوروں کی چراگاہ ہوتا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ ایک کو دوسرے کے ذریعے دفع کر دیا جاتاہے۔ اکیس یورپی ممالک اور اتنے ہی ایشیائی اور افریقی اوطان کو ترک فتح کر چکے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ برطانوی سلطنت پہ سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ اب خال ہی آفتاب طلوع ہوتاہے۔ 1970ء کے عشرے میں سروے یہ بتا رہے تھے کہ کمیونزم ایک فروغ پذیر نظام ہے، سوویت یونین جس کا سرخیل تھا۔ پھر افغانستان میں اس نے خاک چاٹی۔ ایک درجن ریاستیں اس کے بطن سے ابھر آئیں۔
اب یہ ایک یک قطبی (Unipolar)دنیا تھی۔ صدر بش سینئر نے کہا تھا: ایک نیا عالمی نظام، جس کی عنان ریاست ہائے متحدہ کے ہاتھ میں ہوگی۔ مورخ فوکو یاما نے of History۔ End کے عنوان سے ایک دستاویز رقم کی۔ فرمایا کہ سرمایہ دارانہ نظام اس عالمِ آب و خاک کا ہمیشہ برقرار رہنے والا مستقبل ہے۔ ٹھیک اس وقت ڈنگ سیاؤ پنگ کا چین تشکیل پا رہا تھا، انسانی تاریخ میں فروغ اور نمو کی جو نادر مثال ہے اس سرمایہ دارانہ نظام سے بہت مختلف، جس کے دوام کی فلسفی نے پیش گوئی کی تھی۔
امریکہ اب زوال پذیر ہے اور چین پھیل رہا ہے۔ امریکیوں نے کبھی خواب تک نہ دیکھا ہوگا کہ ایران ایسے نسبتاً چھوٹے سے ملک میں کوئی طاقت 400ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ نڈھال پاکستان حالات کے رحم و کرم پہ دکھائی دے رہا تھا۔ بیجنگ آگے بڑھا اور سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ مشرقِ وسطیٰ میں چین نے امریکی پالیسی کے تضادات سے پیدا ہونیوالے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ وہ عظیم تر اسرائیل کا پشتیبان تھا۔ عرب جھک گئے، ایران تنہا رہ گیا۔ ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریدار نے تہران کو بیچ چوراہے میں چھوڑ دیا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی آگے بڑھی۔ بدلتے ہوئے حالات کا اگر ہمیں شعور ہوتا، اگر ہمہ وقت ہم باہم دست و گریبان نہ ہوتے تو پاکستان کو شاید ایران سے بڑی سرمایہ کاری میسر آتی مگر ہم تاریخ کے چوراہے پر سوئے پڑے لوگ۔
سی پیک سے پاکستان دستبردار نہیں ہو سکتا۔ بھارت سے اب کوئی حقیقی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں واشنگٹن کو پاکستان کی ضرورت آپڑی ہے۔ ایسے میں اس وثوق سے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی کیسے ممکن ہے۔ یہ مفروضہ ناقابلِ فہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کا ساتھ دے گی۔ نون لیگ کا، جس کی قیادت بھارتی بالادستی قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ فرض کیجیے، کوئی اشارہ اس نے دیا بھی ہو تو کیا لازم ہے کہ اس پر وہ قائم رہے یا حالات قائم رہنے دے۔
سیاست میں سب سے اہم چیز افراد نہیں، صورتِ حال ہوتی ہے۔ یہ کہ وقت کا دھارا کس طرف بہتا ہے۔ آئن سٹائن بیسویں صدی کے داناؤں میں سے ایک تھا، اس نے کہا تھا: دیکھنا یہ چاہئیے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے، باقی تفصیلات ہیں۔ فرمان یہ ہے:زمانے کو برا نہ کہو، میں ہی زمانہ ہوں۔
تحریکِ عدم اعتماد کی تجویز اسٹیبلشمنٹ اور پیپلزپارٹی کی قیادت میں مفاہمت کی پیداوار ہے۔ زیادہ صحیح الفاظ میں جناب آصف علی زرداری سے۔۔۔ اور یا للعجب اختر مینگل اور آفتاب شیر پاؤ سمیت اپوزیشن کی چار دوسری پارٹیاں بھی ہم نوا ہیں۔ کیوں ہم نوا ہیں؟ غور کرنے والوں کو اس پہ غور کرنا چاہئیے۔ اسٹیبلشمنٹ کا بس چلا تو نون لیگ کبھی اقتدار میں نہیں آئے گی۔ پیپلزپارٹی ایک صوبے تک محدود ہو چکی۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے اعضا و جوارح کو اپنی جائیدادوں کا حساب دینا ہے۔
مردم شناسی نہ معاملہ فہمی، اپنی برگزیدگی کا ابلتا ہوا احساس، مخالفین کو پامال کرنے کی تمنا، سیاسی اور اقتصادی شعور کی کمی۔ عمران خاں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن ابھی وہ جاتے دکھائی نہیں دیتے۔ حکم لگانے کی بجائے ابھی شاید انتظار کرنا چاہئیے۔ کوئی دن اور، کوئی دن اور۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا