Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Wo Jahan Jo Farooq Ke Dil Mein Boya Gaya

Wo Jahan Jo Farooq Ke Dil Mein Boya Gaya

وہ قلم کہاں سے آئے۔ لہجہ کیسے زیباہو؟ کون اس نور کو الفاظ میں ڈھال سکتاہے؟

فاتحین تو اور بھی ہیں، حکمران اور بھی، مورخ جن سے مرعوب رہے۔ مصلح تو اور بہت پیدا ہوئے لیکن ان کی وراثت کہاں ہے۔

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی

تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے

سکندرِ اعظم گھائل ہوا او رمر گیا۔ ہینی بال کا نام لیواکوئی نہیں۔ چنگیز خاں کے پیروکار کہاں ہیں؟ بامیان کی بستی افغانستان میں محدود، کوئٹہ اور کابل میں آنے والے وقتوں سے ہراساں۔ عمر فاروقِ اعظمؓ صرف اعظم ہی نہیں تھے۔ کوئی شاعر، کوئی ادیب ان کے لیے موزوں اصطلاح کبھی نہ تراش سکا۔

جہاں گیری بخاکِ ما سرشتند

امامت در جبینِ ما نوشتند

درونِ خویش بنگر ن جہاں را

کہ تخمش در دلِ فاروق کشتند

یہ اقبالؔ نے لکھا تھا: ہماری مٹی کی فطرت میں بادشاہی ہے۔ ہماری پیشانی میں امامت رقم۔ تو اپنے اندر اس جہان کو دیکھ، جو فاروقؓ کے دل میں بویا گیا۔ آپ ؓ کے لشکر جہاں کہیں گئے، جبینیں آج بھی سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ آج بھی وہاں درود پڑھاجاتا ہے۔

آٹھ بڑی جنگیں، کوئی ایک بھی ان کے عہد میں ہاری نہیں گئی۔ دو عالمی طاقتیں تھیں، ایران اور روم۔ دونوں کو پسپا کر دیا۔ کبھی مگر یہ نہ کہا کہ اس میں ان کا کچھ کمال بھی ہے۔ ایران کا آخری جنگجو یزدگرد مدینہ لایا گیا۔ اس چھوٹے سے شہر میں، جو عالی جنابؐ کے طفیل حرم ہو گیا، وہ کہیں بھی نہ تھے۔ گھر، مسجدِ نبویؐ اور نہ کسی ہم نفس کے ہاں۔ جلوس گلیوں میں پھرتا رہا۔ کسی نے بتایا کہ کھجور تلے سوئے پڑے ہیں۔ اسی طرح سوجایا کرتے۔ سرتلے کوڑا رکھ کر۔ مسافرت میں کبھی کسی درخت کی شاخ پہ چادر باندھ کر۔ ستاروں بھرے آسمان تلے کہیں بھی محوِ خواب ہو جاتے۔ ایک بار خود بھی کہا تھا: عدل پہ مستقل جو قائم رہے، اسے کیا ڈر۔ ان صلاتی ونسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمین۔ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی او رمیری موت سب اللہ کے لیے ہے، حیات سپردِ خدا۔ قرآنِ کریم کہتاہے کہ خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ ٹی وی واعظ فرماتے ہیں کہ آخرت میں ایسا ہوگا۔ نہیں حضور، دنیا میں بھی۔ مشاہدہ نصیب ہو تو آج بھی ایسے امتی انہیں دکھائی دیں۔ سچا مشاہدہ مگر آموختہ رٹنے والے خود پسندوں کے لیے ہوتا ہی نہیں۔

آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

ہجوم کے شور سے آنکھ کھلی تو شاہی ملبوس والے ایرانی پر پڑی۔ کیسے عالی دماغ تھے۔ بھانپ لیا، نام تک نہیں پوچھا۔ کہا: تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ بارہا وعدہ کر کے مکرا تھا۔ کتنا خون اس کے سبب بہا تھا۔ معافی کے قابل وہ کہاں تھا۔

ریت پر وہ بیٹھ گیا تو ٹھیک اس لمحے عالمِ بالا میں ایک اور فیصلہ صادر ہوا۔ ایرانی نے ایک پیالہ پانی کی فرمائش کی۔ پھریہ کہا: امیر المومنین مجھے اندیشہ ہے کہ یہ پانی پینے سے پہلے ہی آپ مجھے قتل کر دیں گے۔ ایسا وہ رقیق القلب کیوں کرتے۔ مہلت کا وعدہ کر لیا تو یزدگرد نے پانی کا پیالہ ریت میں بہا دیا۔ بولا: اب آپ مجھے قتل کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ اسی پانی سے پیاس بجھانے کی شرط رکھی تھی جو ریت کی نذر ہوا۔ اصول کا معاملہ تھا، مشاورت ہوئی اور وہ رہا کر دیا گیا۔ اس لیے کہ وعدے کی پابندی ضروری تھی۔ جو کتاب رحمتہ اللعامینؐ پہ نازل ہوئی، اس میں لکھ دیا گیا تھا:اوفو بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔ وعدے پورے کرو، روزِ حساب وعدوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ مدینہ کے باہر پہنچتے ہی اس نے لباس تبدیل کیا، ایمان لایا اور باقی زندگی عامیوں کی طرح بسر کر دی۔

چھلانگ لگا کر گھوڑے پہ سوار ہونے والا دراز قد حکمران، رعب جس کاضرب المثل تھا مگر دل ایسا گداز اور اطاعت گزار کہ جہاں کسی نے دلیل دی، سر جھکا دیا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔ تاریخِ انسانی میں پہلے آدمی تھے، دودھ پیتے بچوں تک کے وظائف مقرر کیے۔ ہر معذور، ہر بیمار، ہر محتاج کا۔ صاحبزادے نے پوچھا: حسنؑ اور حسینؑ کا وظیفہ مجھ سے زیادہ کیوں ہے؟ کہا: جانِ پدر، اس لیے کہ اس کی ماں تیری ماں سے اور اس کا باپ تیرے باپ سے افضل ہے۔ یروشلم کسی جنگ کے بغیر فتح ہوا اور بیت ا لمقدس ہو گیا۔ ایسا اعتبار کب کسی کو نصیب ہوا ہوگا۔ شہر کے مکینوں نے کہا: خطاب کا بیٹا خود عافیت کا پیمان عطا کر دے تو ہم سپرانداز ہو جائیں گے۔

غلام کے ساتھ گئے۔ باری باری سواری کرتے۔ اس لیے کہ شتر پہ کچھ سامان بھی رکھا تھا، غالباً مسافت میں ضرورت کی اشیا۔ مورخ کہتے ہیں : ایسا لگتا تھا کہ زمین کانپ رہی ہے لیکن کوئی مسافر نہ ہم نفس؛حالانکہ سیکھتے رہنے کے حریص تھے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کہا کرتے: زہیر بن ابی سْلمیٰ کا کوئی شعر تو سناؤ۔ آواز بھی خوب پائی تھی، ہدی خوانی کرتے۔ گھل مل کے رہتے۔ ایک بار ہدی خوانی کے اشعار پڑھ رہے تھے کہ ہجوم ہوا۔ تلاوت شروع کر دی، ہجوم چھٹنے لگا تو اپنے خاص انداز میں کہا: تمہاری مائیں تمہیں روئیں۔ ہدی کرتا ہوں تو دوڑے چلے آتے ہو، تلاوت پہ کیوں نہیں۔

آغازِ کار ہی سے وہ ایک پدرِ شفیق تھے۔ ہمیشہ کے جری اور فیصلہ ساز۔ دارِ ارقم میں اسلام قبول کیا تو مسلمانوں نے پہلی نماز خانہ کعبہ میں ادا کی۔ کتنی ہی سرزمینیں دیکھ چکے تھے۔ انسانی جبلتوں کے ایک ایک پہلو سے آشنا۔ چار اعتبار سے وہ جینئس۔ علمی، عسکری، سیاسی اور انتظامی۔ کوئی ایسا شعبہ نہ تھا، جس میں کامل مہارت کے درجے کو چھو نہ لیا ہو؛با ایں ہمہ پیوندلگا کرتا پہنتے۔ قحط کے پانچ برسوں میں اپنا اور اپنے خاندان کا راشن آدھا کر دیا۔

جمال اور جلال نے ایسا آہنگ کب کسی شخصیت میں پایا ہوگا۔ یروشلم میں ریشمی جبہ پہنے، اپنے شاندار گھوڑے پر سوار خالد بن ولیدؓخدمت میں پہنچے تو فرمایا: میری زندگی میں ہی تم بد ل گئے۔ وہ بھی خالد تھے۔ شمشیر نمایاں کی اور بولے: امیر المومنین، تلوار وہی ہے۔

لیکن پھر امین الامت ابو عبیدہ بن جراحؓ کے خیمے میں خو د تشریف لے گئے۔ ان کا بہت اکرام کیا کرتے، جیسا کہ بلا لؓ کا۔ اس لیے کہ حضورؐ نے انہیں امین الامت کہا تھا۔ دیکھا کہ ایک پیالہ ہے۔ ایک گدّا، ایک تھال اور ایک تلوار۔ ہل گئے۔ رشک کیا اور کہا: سرکارؐ کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے، آپ نہیں بدلے۔ آخری دنوں میں کہا کرتے کہ ابو عبیدہؓ زندہ ہوتے تو امت انہیں سونپتا۔ اس ناچیز سے کہا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں بات کرو۔ کیسے کر سکتا ہوں۔ وہ قلم کہاں سے آئے۔ لہجہ کیسے زیباہو؟ کون اس نور کو الفاظ میں ڈھال سکتاہے؟

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.