سب کے سب اپنے محدود مفادات کے قیدی۔ پابہ زنجیر اور ناقابلِ اصلاح۔ چیتھڑوں کا سا ملبوس بدلنے پر وہ آمادہ نہیں۔ کیا وہ تاریخ کا رزق بنیں گے؟ ایسا ہی لگتا ہے، ایسا ہی۔ حیرت اور رنج کے ساتھ شاعر یاد آتا ہے
یہ جامہء صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے
وزیرِ اعظم کے بہنوئی عبد الاحد خاں کو پلاٹ کا قبضہ اب تک نہیں مل سکا۔ وقائع نگار نے لکھا ہے کہ سبب عدالتی حکمِ امتناعی ہے۔ وزیرِ اعظم نے بتایا تھا کہ اسی لیے لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ کا تقررا نہوں نے کیا تھا کہ قبضہ گروپوں سے نمٹ سکیں۔ ریاضت کیش صحافی نے یاد دلایا ہے کہ مسئلے کا حل یہ نہیں۔ ایک آدھ نہیں، ان گنت پلاٹوں پر قبضے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اذیت کا شکار سمندر پار پاکستانی ہیں۔ ذمہ دار ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور ناقص عدالتی نظام۔ اہلکار پتھر دل ہیں اور کرپٹ۔ وزیرِ اعظم کو انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ انہیں مسئلے کی جڑ اور بنیاد کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔
غور و فکر پہ مگر وزیرِ اعظم آمادہ نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔ عمران حکومت فرض کیجیے ختم ہو جائے اور اقتدار کے دوسرے بے چین آرزومند براجمان ہو جائیں تو صورتِ حال جوں کی توں رہے گی۔ وزیرِ اعظم جانتے ہیں کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
افسر شاہی بگڑ چکی اور عدالتی نظام برباد۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لیڈر لوگ اندمال کا عزم ہی نہیں رکھتے۔ دائم وہ برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن سے، اپوزیشن حکومت سے اور اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے سے بھی۔ خود حکمران جماعت کا حال بھی یہ ہے کہ اس کے کارپرداز روپیہ لے کر ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء ِ اسلام ہی کی طرح۔
وزیرِ اعظم کے چہیتوں میں سے ایک کا نام لے کر فواد چوہدری نے کہا تھا کہ وہ تحائف قبول کر کے عہدے اور ٹکٹ بانٹتے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ شمال کے حالیہ الیکشن میں بھی یہی ہوا۔ چار ایسے امیدواروں کو نظر انداز کر دیا گیا جو بعد میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے جیت گئے۔ یہ پارٹی کے کارکن تھے۔ 2011ء کے موسمِ خزاں میں، لیاقت باغ کے جلسہء عام کی طرف جاتے ہوئے، شاہ محمود کی موجودگی میں وزیرِ اعظم نے کہاتھا: دفتری فرائض کی بجائے وہ لیڈر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہیں بتایا کہ بات اتنی سی نہیں، اس کے سارے معاملات مشکوک ہیں۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ بہت دن خاموش رہے، ایک دن نکال دیا لیکن پھر بحال کر دیا گیا۔ اس وزیر کی طرح، جس پہ اربوں کی کرپشن کا الزام تھا۔ وزارت سے نکالا گیا لیکن پھرپارٹی کا اہم ترین عہدہ سونپ دیا گیا۔ الزام ہے کہ امیدواروں سے رشوت طلب کرتا رہا۔ سرگودہا ڈویژن کے ایک نیک نام لیڈر سے اس نے دس لاکھ روپے اینٹھے۔ اس کے باوجود ٹکٹ کسی اور کو جاری کر دیا۔ الیکشن سے بہت دن پہلے یہ ناچیز سرگودھا پہنچا۔ جائزہ لیا اور لکھا کہ ناقص امیدواروں کی اگر سرپرستی فرمائی گئی تو نتائج خطرناک ہوں گے۔ یہ انتباہ کسی کام نہ آیا۔ پانچ کی پانچ سیٹیں پارٹی ہار گئی۔
افسر یا سرکاری ملازم، وزیرِ اعظم خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں۔ زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ 2013ء کی المناک شکست کے باوجود ٹکٹ جاری کرنے کا طریقِ کار وضع نہ کیا جا سکا؛چنانچہ یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ دی گئی۔ نا اہلی، غیر ذمہ داری، کم کوشی اور بے عملی سے پیدا ہونے والا خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ کوئی نہ کوئی اسے پر کرتا ہے اور اکثر اوقات ایسے جنات، جن کے سامنے صاحبِ معاملہ بے بس ہوتا ہے۔
وزیرِ اعظم کا مسئلہ وہی ہے، بارہا جس کی نشاندہی کی جا چکی۔ ذہنی ریاضت وہ کرتے نہیں۔ ستائش سے پگھل جاتے ہیں۔ مردم شناس ہیں اور نہ معاملہ فہم۔ دیر پا منصوبہ بندی کے وہ قائل نہیں اور انتقام کی خو ترک نہیں کر سکتے۔ خود کو برگزیدہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیا ل یہ ہے کہ پارٹی نہیں، لیڈر ہی سب کچھ ہوتاہے۔
اخبار میں شائع ہونے والی اطلاع اگر درست ہے تو پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر باہم الجھتے رہے۔ ضدی، ہٹ دھرم اور مفاد پرست لوگ۔ چند ہفتوں میں کرونا مریضوں کی تعداد چار گنا بڑھ جانے کے باوجود وہ عوامی جلسوں پہ مصر ہیں۔ کوئی مرے یا جیے، انہیں اقتدار حاصل کرنا ہے یا کم از کم وزیرِ اعظم کو اٹھا پھینکنا ہے۔ نہایت شادمانی کے ساتھ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے ایک ہمدرد دانشور نے لکھا ہے کہ یہ کشمکش مارشل لا پہ منتج ہو سکتی ہے۔ بین السطور میں پیغام یہ ہے کہ اگر یہی ہونا ہے تو ضرور ہو جائے۔ عمران خان کو بہرحال جانا چاہئیے۔ خان صاحب کی ترجیح بھی یہی ہے؛اگرچہ اب جلسے نہ کرنے کا انہوں نے اعلان کیا ہے لیکن بے نتیجہ، بے معنی اور انتشار پھیلانے والے دھرنوں کی رسم ڈالنے میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ نہایت وضاحت، تفصیل اور دلائل کے ساتھ جیسا کہ کل ایک ممتاز اخبار نویس نے بتایا کہ 1983ء میں اس کا آغاز تحریکِ نفاذِ فقہء جعفریہ کے دھرنے سے ہوا۔ زکوٰۃ وہ قومی خزانے میں جمع کرانے پر آمادہ نہ تھے۔ ضیاء الحق جھک گئے۔ ریاست کی رٹ اسی طرح برباد ہوتی ہے۔ ہوتے ہوتے اب برائے نام رہ گئی ہے کہ یہ رسم چل نکلی اور فروغ پذیر ہے۔
ایک کے بعد دوسری مذہبی اور سیاسی پارٹی اسلام آباد کا گھیراؤ کرتی رہی۔ سبھی نیک نام اور بدنام اس میں شامل ہیں۔ قاضی حسین احمد، بے نظیر بھٹو اور وہ مولوی صاحبان، جو تمام دوسرے مکاتبِ فکر کو کافر قرار دیتے ہیں۔ ہنگامہ خیزی میں سب سے بڑھ کر خود خان صاحب رہے، انتخابی قوانین میں صحت مندانہ تبدیلی کے لیے اب وہ اپوزیشن کا تعاون چاہتے ہیں۔ اپوزیشن تعاون کیوں کرے؟ اس کا ہدف اقتدار کا حصول ہے۔ پھر یہ کہ عالی جناب انہیں چور، ڈاکو اور نوسرباز کہتے ہیں۔ خود اپنی پارٹی کے نوسر بازوں کا احتساب کرنے کی فکر وزیرِ اعظم کو کبھی لاحق نہ ہوئی۔ وفاقی وزیر خسر و بختیار پہ الزام ہے کہ 250ارب کے اثاثے رکھتے ہیں اور ان کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے۔ جسٹس جاوید اقبال نے آج سویں مرتبہ فرمایا ہے کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ معلوم نہیں، کب اور کیسے۔ شہباز شریف یاد آئے، جو ہرتین ماہ بعد تھانہ کلچر بدلنے کا اعلان کیا کرتے۔ آخری دن تک وہ اپنے اعلان پہ قائم رہے۔
سب کے سب اپنے محدود مفادات کے قیدی۔ پابہ زنجیر اور ناقابلِ اصلاح۔ چیتھڑوں کا سا ملبوس بدلنے پر وہ آمادہ نہیں۔ کیا وہ تاریخ کا رزق بنیں گے؟ ایسا ہی لگتا ہے، ایسا ہی۔ حیرت اور رنج کے ساتھ شاعر یاد آتا ہے
یہ جامہء صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض ؔکبھی بخیہ گری نے