نہیں، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کسی نے کوشش کی تو اٹھا کر پھینک دیا جائے گا۔ یہ قائدِ اعظم اور اقبال کا ملک ہے۔ متحدہ عرب امارات، اومان، مصر اور بحرین نہیں۔ اس ملک میں درجنوں ٹی وی چینل اور سینکڑوں اخبارات ہیں۔ اس کی مساجد میں سرکاری خطبے نہیں پڑھے جاتے۔ اپوزیشن لیڈروں سے زیادہ، بشرطیکہ وہ پرلے درجے کے کرپٹ نہ ہوں، اکثر حکومت زیادہ دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ جلسے جلوسوں کی آزادی ہے۔ بار بار کیے جانے والے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ شرعی قوانین چاہتے ہیں۔ تحریک خلافت سے اب تک، عوامی تحریکوں کی مسلم برصغیر ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ جب ایک قادیانی کو درجنوں افراد پر مشتمل سرکاری معاشی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تو عرض کیا تھا کہ چند دن میں اسے فارغ کرنا پڑے گا۔ عمران خان بنیادی طور پر ایک سیاستدان کا مزاج رکھتے تو قطعیت کے ساتھ اب تک یہ اعلان کر چکے ہوتے کہ پاکستان کبھی اس ناجائز ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا۔ صرف پاکستانی عوام ہی میں ان کی توقیر نہ بڑھتی بلکہ پورے عالمِ اسلام میں۔ بوسنیا سے فلسطین اور مراکش سے ملائیشیا تک۔
حکومتی ذمہ داریاں احتیاط کو مائل کرتی ہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کے سوا اپوزیشن لیڈر بھی خاموش ہیں یا ضرورت سے زیادہ نرم لہجے میں مخالفت پر آمادہ۔ الطاف حسین سے اللہ نے ہمیں نجات دی۔ اگر وہ بروئے کار ہوتے تو شاید صیہونیوں کی تائید کرتے۔ انگریز کی کاشت کردہ قادیانیت کی طرح، وہ بھارت، برطانیہ اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں، بنیادی طور پر بھارت کی۔ ذہنیت مسخ ہو جائے تو آدمی ردّعمل میں جیتا ہے۔ زندگی بسر نہیں کرتا بلکہ زندگی اسے بسر کرتی ہے۔ اے این پی کے سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین نے بالواسطہ طور پرامارات کے اقدام کو سراہا۔ اے این پی کی تاریخ یہی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ انہوں نے بھارت، سوویت یونین اور امریکی پالیسیوں کی تائید کی۔
سب سے بڑھ کر ذہنی طور پر مرعوب کچھ اخبار نویس۔ زندگی کی بنیادی صداقتوں اور تاریخی فیصلوں کے مضمرات کا ادراک نہ رکھنے والے۔ قوانینِ قدرت پر غور کرنے کی جو کبھی فرصت نہیں پاتے۔ جو زمانے کی رو میں بہتے ہیں اور اپنی آنکھ سے زندگی کو نہیں دیکھتے۔ جن کے تجزیوں میں اور تو سبھی کچھ ہوتاہے مگر ذاتِ باری تعالیٰ کاوجود ہرگز نہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں، جن کے رجحانات کی تشکیل بائیں بازو سے وابستہ لیڈروں اور اساتذہ نے کی۔ کیمو نسٹ ممالک میں منڈی کی معیشت رائج ہونے کے بعد یہ لوگ مغرب کے گیت گانے لگے۔ وہ کبھی کسی متبادل نظام کے بارے میں نہیں سوچتے۔ نوم چومسکی، ارون دھتی رائے اور رابرٹ فسک کو داد ضرور دیتے ہیں۔ خود اپنے ذہن سے زندگی کا تجزیہ کبھی نہیں کرتے۔
اس بنیادی سوال پہ کبھی غور ہی نہیں کرتے کہ یہ دنیا، زندگی اور انسان کیا ہے۔ کیا اس کا کوئی مالک و پروردگار ہے۔ وہ کہ جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ جس کا فرمان یہ ہے کہ اگرمیں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔ وہ لوگ جو تاریخ کے نشیب و فراز سے نا آشنا ہیں۔ جو نہیں جانتے کہ طاقتیں بنتی، بگڑتی رہتی ہیں۔ فاتح ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔ سلطنتیں پیدا ہوتی اور مرجایا کرتی ہیں مگر خدا کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔ تاتاری اٹھتے ہیں تو کوئی رکن الدین بیبرس بھی۔ صلیبی یلغار کرتے ہیں تو کوئی صلاح الدین بھی جنم لیتاہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا
آسائش کی خواہش مار گئی
ورنہ آگے، بہت آگے جا سکتا تھا
میں اور اقبال نے یہ کہا تھا:
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
آزادی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ ہزار مصائب کے باوجود کشمیری ہم سے زیادہ آزاد ہیں۔ مہنگائی، قرضوں، بے روزگاری، افراطِ زر اور بدامنی سے نالاں ہم لوگ عربوں سے زیادہ آزاد۔ افغان اور ایرانی ہم سے زیادہ۔
مرعوب لوگ ایٹمی دھماکوں کے خلاف تھے۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ دھماکے کرنا ہی ہوں گے۔ ان کا خیال مگر یہ تھا کہ طاقت کے سامنے سر جھکا دینا چاہئیے۔ غریب آدمی دھماکے کا حامی تھا، اپنی آزادی برقرار رکھنے کا۔ کچھ آسودہ حال اخبار نویس وعظ فرما تے پائے گئے کہ میزائل نہیں، منڈی اہم ہوتی ہے۔ لطیفہ یہ کہ دھماکے کی سالگرہ کا دن آیا تو ایسے ہی ایک اخبار نویس کو اس دن کا عنوان تجویز کرنے کا موقع دیا گیا۔ مرحوم مجید نظامی اس پہ حیران تھے۔ ذہین آدمی ہیں۔ نام تو اچھا رکھا، یومِ تکبیر مگر ذہانت ہمیشہ کام نہیں آتی۔ مثبت یا منفی، عقل کے ساتھ ہمیشہ کوئی جذبہ جڑا ہوتاہے۔
ٹیپو کے مزار سے واپسی پر اقبال کے دل کا گداز "ٹیپو کی وصیت" کے عنوان سے نظم کے سانچے میں ڈھلا
روزِ ازل مجھ سے کہا یہ جبریل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
عقل و دانش کے اقبال مخالف نہیں تھے۔ کوئی دانا آدمی نہیں ہو سکتا۔ نکتہ یہ تھا کہ فکر و خیال کو وحیء الٰہی کی روشنی میں بروئے کار آنا چاہئیے۔ قوانینِ قدرت سے ہم آہنگ ہو کر۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
مغرب کی مرعوبیت نے ترکی کو کیا دیا۔ اسرائیل کو اس نے تسلیم نہ کیا ہوتا تو ترک قیادت کا قدآج اور بھی اونچا ہوتا۔ اسرائیل سے ترکی نے جنگی جہاز خریدے تو ایسے آلات ان میں نصب تھے کہ وہ تل ابیب کو ہدف نہ کر سکیں۔ یہ الگ بات کہ ترکوں نے ان طیاروں کی اصلاح کر لی۔ یہی نہیں، موساد اور صیہونی مالیاتی اداروں نے کردوں کی پشت پناہی کی کہ ترکیہ میں شورش پھیلائیں۔ مصر کو کیا ملا؟ انور السادات کی لاش، تقسیم در تقسیم اور انتہا پسند مذہبی گروہ۔ اردن کو کیا حاصل ہوا۔ آج اسرائیلی وہاں دندناتے پھرتے اور پڑوسی ملکوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا اور بھی خطرناک ہوگا۔ اس لیے کہ علیحدگی کی تحریکیں یہاں پہلے سے موجود ہیں۔ بھارت ان کا پشت پناہ ہے۔ اسرائیل کا سفارت خانہ قائم ہو گیا تو بھاڑے کے لبرل ٹٹو اور خود فروش مولوی ان کے کاربندے بن سکتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب تو بیس برس پہلے اسرائیل کا دورہ بھی کر آئے۔ ہمارے محترم عامر خاکوانی نصیحت فرماتے ہیں کہ ان لوگوں پر تنقید نہ کیا کرو۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی قومی اتحاد ہے، سرکاری رٹ۔ پھر جیسا کہ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا: اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کشمیر کے لیے کیسے ہم ڈٹ کر کھڑے ہو سکیں گے۔ خوف آدمی کی جبلت میں ہے۔ اس خوف پر قابو پانے والے ہی سربلند اور سرفراز ہوتے ہیں۔ شہید کا مرتبہ اسی لیے سب دوسروں سے زیادہ ہے کہ اللہ کی راہ میں زندگی ہی نچھاور کر دیتاہے
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اک ذرا جاں سے گزرجانے کی ہمت کر جا
نہیں، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کسی نے کوشش کی تو اٹھا کر پھینک دیا جائے گا۔