ایسے ہی لوگ ہیں جن سے اکتسابِ نور کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں بیسویں صدی کے علمی مجدد نے یہ کہا تھا:
توفیق عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنوازند گدار
کبھی مزاحیہ کارٹون فلم کے کارٹونوں کی طرح سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر دل بجھنے لگتا ہے۔ تب حافظہ تلاش میں نکلتا ہے۔ چند عشرے پہلے کے وہ روشن کردار جو مشعلوں کی طرح اجالا کیے رکھتے:
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
چار پانچ دن پہلے مولانا محمد علی جوہر کا یوم وفات تھا۔ وہ آدمی، جس کے علم، تہوّر، حسن بیان اور ذہانت نے تین دہائیوں تک برصغیر کے درو بام میں اجالا کئے رکھا۔ ہندوستان کا انگریز وائسرائے وطن لوٹتے ہوئے جس کے انگریزی اخبار کی فائلیں ساتھ لیتا گیا ...اور یہ کہا کہ اس میں انگریزی ادب کے تین عظیم ترین شہسواروں کے محاسن متشکل ہیں۔
پرسوں پی ڈی ایم کا جلسہ عام تھا، جس کی قبر، شاید علامہ اقبال کے پہلو میں، سکندر حیات کے مزار کی پائنتی پر بنائی جائے گی۔ رہ رہ کر قلب و دماغ لیکن مولانا شبیر احمد عثمانی کی یاد سے دمکتے رہے۔ بدقسمتی سی بدقسمتی ہے کہ سارا وقت حضرت اچکزئی، جناب شیر پائو، بلاول بھٹو، اختر مینگل اور محترمہ مریم نواز حضرت مولانا فضل الرحمن کی تقاریر میں بیت گیا:
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین
اس مکتب فکر سے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کا تعلق تھا، ڈٹ کر جس نے پاکستان کی مخالفت کی۔ مگر وہ اور ان کے بعض دوسرے تر دماغ ساتھی، اس تاریکی سے اوپر اٹھے۔ اس جلال و جمال کے ساتھ اوپراٹھے کہ ہر سو اجالا کر دیا
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
روایت ہے اور اہل اعتبار سے روایت ہے کہ آخری ایام میں، قائد اعظم انہیں اپنا وارث قرار دینے پر غور کرتے رہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے، مولانا کے مزاج کو ملحوظ رکھا جائے تو خیال ہوتا ہے، کیا عجب ہے کہ بابائے قوم سے وہ معذرت ہی کر لیتے۔ سیاست نہیں، اصلاً وہ علم اور فقر کے آدمی تھے۔ سیاست میں حالات کے تقاضوں نے دھکیل دیا۔ حیاتِ مستعارکے آخری چند برس، اس ہنر کی نذر کئے تو وہ بھی کمال نجابت کے ساتھ جیسے میر صاحب شاعری کیا کرتے:
مصرعہ کھبو کھبو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
کیسے کیسے اعزازات مرحوم کو حاصل ہوئے۔ مولانا محمود حسن کی مالٹا جیل میں لکھی گئی تفسیر اس طرح مکمل کی کہ ہم عصر حیران رہ گئے۔ ایک عظیم شارح حدیث۔ آپ کے قلم سے عربی زبان میں لکھی گئی، صحیح مسلم کی تفسیر نامکمل رہ گئی کہ عمر نے وفا نہ کی۔ 1935سے 1943ء تک دارالعلوم دیو بند کے مہتمم رہے۔ دو برس بعد جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی، قیام پاکستان کے بعد، جسے تحریک پاکستان کے مخالف، حضرت مولانا مفتی محمود لے اڑے، درآں حالیکہ وہ جمعیت علمائِ ہند سے وابستہ رہے تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے پیرو کار، جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
عجم ہنوز نہ دانند رموزِ دیں ورنہ
زدیو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجمی است
سرور برسر منبر کہ ملت ازوطن اوست
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر با اونہ رسیدی تمام بولہبی ست
ابھی تک عجم دین کی روح سے آشنا نہیں، حسین احمد مدنی نے کیسی عجیب بات کہی کہ ملت کی تشکیل وطن سے ہوتی ہے۔ مصطفیؐ کا ارشادِ مبارک تو یہ ہے کہ دین ہمہ گیر ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ ابو لہب کا راستہ ہو گا۔ نوابزادہ نصراللہ خان لہک لہک کر پڑھا کرتے:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
27 اکتوبر1945ء کو کلکتہ کے محمدعلی پارک میں جمعیت علمائِ اسلام کا تاسیسی اجلاس ہوا۔ متفقہ طور پر مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ مولانا شبیراحمد عثمانی نے اس کانفرنس میں یہ بیان پڑھ کر سنایا: " میرے نزدیک سب سے زیادہ قابلِ تنفر بلکہ اشتعال انگیز جھوٹ اور سب سے بڑی اہانت آمیز دیدہ دلیری یہ ہے کہ یہاں کے دس کروڑ فرزندانِ اسلام کی مستقل قومیت کا صاف انکار کردیا جائے۔ اسلامی نقطہء نظر سے دنیا میں دو ہی قومیں ہیں، ایک وہ جس نے خالقِ ہستی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اس کے قانون کو اس کی زمین میں نافذ کرنے کا التزام کیا ہے۔ وہ مسلم یا مومن کہلاتی ہے۔ دوسری وہ جس نے ایسا التزام نہیں کیا۔ اس کا شرعی نام کافر ہوا۔ اس اساسی نقطہء نظر سے لامحالہ کْل غیر مسلم قومیں دوسری قوم سمجھی جائیں گی اور اب اس چیز کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا کہ مسلم اور غیرمسلم دونوں کے امتزاج سے کوئی قومیتِ متحدہ صحیح معنوں میں بن سکے۔
کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور ان کے لیے ایک مستقل مرکز کی ضرورت ہے، جو اکثریت و اقلیت کی مخلوط حکومت میں کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ کی عجیب قدرت و حکمت کی نشانی ہے کہ باوجودیکہ مسلمان اس ملک میں مجموعی طور پر دوسری اقوام سے کم تعداد میں ہیں مگر اللہ تعالی نے ہماری اس کمی کو ملک کے تمام صوبوں میں مساوی نسبت پر تقسیم نہیں کیا بلکہ بعض صوبوں میں جو جغرافیائی حیثیت سے اہم بھی ہیں، ہم کو دوسروں کے مقابلے میں اکثریت عطا فرمادی۔ یہ گویا قدرت کی طرف سے پاکستان قائم کرلینے کا امکان کی طرف غیبی اشارہ ہے۔
ایسے ہی لوگ ہیں جن سے اکتسابِ نور کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں بیسویں صدی کے علمی مجدد نے یہ کہا تھا:
توفیق عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنوازند گدارا
(جاری ہے)