مشکل ہے، ایسے آدمی کے بارے میں لکھنا مشکل۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مثال بنتے ہیں۔ جن سے اکتسابِ نور کیا جاتاہے۔ آنکھ نم ہے، دل اداس۔
ہر اک مکاں کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
کچھ زخم ہیں، جو سہنے پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک ان کا رخصت ہونا ہے، جو قلب میں آباد ہوں۔ خورشید رضوی نے کہا تھا
کب نکلتاہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
اور غالبؔ نے یہ کہا تھا
وہ تجھے یاد کرے، جس نے بھلایا ہو کبھی
ہم نے تجھ کو بھلایا، نہ کبھی یاد کیا
یہ بھی کہا تھا
گو میں رہارہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ڈاکٹر اعجاز قریشی یاد آتے رہے مگر ایسی سستی اور کوتاہی، پروفیسر رشید احمد صدیقی جسے بے حیائی کہتے ہیں کہ 1977ء کے بعد کبھی ان کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا۔ ٹیلی فون پر کبھی بات ہوتی تو لہجے میں ایسا گداز کہ دل پہ بارش سی برستی رہتی۔ کالم میں ان کا ذکر کرتا تو شکریہ ادا کرتے۔ شرمندہ اور خجل میں سنتا۔ پھر عرض کرتا: ڈاکٹرصاحب! آ پ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ تکلف سے نہیں، تعلق کی بنا پر نہیں، آپ کے کسی اقدام کی تحسین کی تو اس لیے کہ آپ حق دار ہیں۔ اس پر وہ ایسا جملہ کہتے کہ خجالت اور بڑھ جاتی۔"میرے بھائی!کون اس زمانے میں کسی کو یاد رکھتاہے۔"
ایک شخص نہیں، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ایک ادارہ تھے۔ کہنے کو یہ بات بہت سے لوگوں کے بارے میں کہہ دی جاتی ہے لیکن جتنی اور جیسی ان کے بارے میں سچ ہے، خال ہی کسی کے بارے میں ہوگی۔ ہمت کا ایک کوہِ گراں۔
ہم چٹانیں ہیں، کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
عسرت سے اٹھے کہ مہاجرت کے بعد دامن خالی تھا، پورے خاندان کا۔ پاکستان میں تعلیم کے مراحل طے کیے تو ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی تشریف لے گئے۔ و اپس آئے تو اردو ڈائجسٹ نکالا۔ کہنے والوں نے کہا کہ انہیں یہ خیال ریڈرز ڈائجسٹ سے سوجھا ہے۔ کہنے والوں کا کیا ہے، علامہ اقبالؔ ایسے عبقری کو ایک جرمن فلسفی سے اثر پذیر بتاتے ہیں ؛حالانکہ وہ یکتا تھے۔ کسی دوسرے سے ان کو تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ سوئے ہوئے مسلم برصغیر کو جگایا۔ غالبؔ کے سوا واحد عبقری، جس نے اردو زبان کا انداز بدل ڈالا۔ صدیوں سے درباروں میں پلتی نسوانی زبان کو مردانہ تیور بخشے۔
فکری عظمت کو سبھی مانتے ہیں۔ شاعر ایسے تھے کہ تاریخِ انسانی میں کوئی دوسری نظیر نہیں۔ کبھی کسی شاعر نے ایک پوری امت کو اتنا متاثر نہیں کیا۔ مسلم برصغیر کی آزادی ان کا خواب تھا۔ محمد علی جناح پہ انہیں اصرار تھا۔ قیامِ پاکستان پر شک و شبہ سے بالاتر یقین، ایرانی انقلاب کا شعری علَم وہ تھے۔ ربع صدی ہوتی ہے، پچاس لاکھ آبادی کے تاجکستان میں دس لاکھ افراد جمع تھے۔ یعنی ہرگھرانے کا ایک فرد۔ سحر سے شام تک انسانوں کا یہ سمندر اقبالؔ کا ایک مصرع دہراتا رہا
از خوابِ گراں، خواب ِ گراں، خوابِ گراں خیز
اس گہری نیند سے جاگ اٹھو، اس گہری نیند سے، اس گہری نیند سے۔۔۔ اور انقلاب پھوٹ پڑا۔
افغانستان کے حریت پسندوں کا وہ نفسیاتی سہارا تھے۔ تڑے مڑے کاغذوں اور سگریٹ کی خالی ڈبیوں پر ایک قیدی دوسرے کو اقبالؔ کے اشعار تحفے کے طور پر بھیجتا۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی پہ ان کا اثر ایک زندہ کردار کی مانند ہے۔ ستر برس سے مقتل میں کھڑے سید علی گیلانی نے لکھا: لڑکپن میں، میں ان کی قبر پر جاتا تو قرار آتا۔ ساری عمر ان کے مطالعے میں گزری اور ایک شاندار کتاب لکھی۔ کشمیر اور افغانستان پر ان کا کلام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ کہا تھا: ایشیا کیا ہے؟ مٹی اور پانی کا ایک پیکر، ملت ِ افغان اس کا دل ہے۔ یہ شگفتہ تو پورا برصغیر شگفتہ۔ یہ برباد تو سارا ایشیا برباد۔
1961ء سے اب تک اردو ٹائجسٹ نے تین نسلوں کی تربیت کی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:اے مالک، میری فکر کا سرچشمہ اگرقرآن نہیں تو روزِ حشر مجھے رسولِ پاکؐ کے بوسہء پا سے محروم کر دینا۔ اردو ڈائجسٹ کی اساس میں اللہ کا اخری دین تھا، اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسولؐ۔ عظمت و ہمت کی داستانیں، اہم لیڈروں سے ایسی ملاقاتیں کہ فکر اور شخصیت روشن ہو جائے۔ زبان و بیان میں ایسا اہتمام کہ سبحان اللہ۔ پروف ریڈنگ میں اکثر پاکستانی ادارے ناکام رہے۔ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ "زندگی" استثنیٰ تھے۔ ایک ذرا سی غلطی بھی گوارا نہ کرتے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک بار مجھ سے کہا: یہ آپ نے کیا لکھ دیا "ہنستا بستا شہر"۔ جی نہیں، "رستا بستا"۔
الطاف حسن قریشی کی اہمیت کم نہیں۔ ایک عہد میں ایسا انہوں نے لکھا ہے کہ
دہک رہا تھا آتشِ گل سے چمن تمام
اردو ڈائجسٹ کی بنیاد اور چھت مگر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تھے، جس میں الطاف حسن قریشی کا قلم جوت جگاتا رہا۔ مجیب الرحمٰن شامی اور ضیاء شاہد سے کر اس ناچیز تک کتنے ہی اخبار نویسوں کی تربیت کی، اجیارا اور سنوارا؛حتیٰ کہ بعض نامور ہو گئے۔ رہا اخلاقی احساس تو وہ گھریلو تربیت کا نتیجہ ہوتاہے۔ مجھ سے کم کوش بھی ہیں لیکن مختار حسن مرحوم اور سجاد میر ایسے اجلے بھی۔
دونوں بھائیوں نے بھٹو کی جیل کاٹی اور ایسے وقار کے ساتھ کہ داد نہیں دی جا سکتی۔ برسبیلِ تذکرہ، ہفت روزہ تکبیر کے مدیر محمد صلاح الدین اس قبیلے کے سرخیل تھے۔ ابو الکلام آزاد، محمد علی جوہراور حسرت موہانی سے لے کر حمید نظامی تک، کتنے ہی دلاور اور فصیح قلمکاروں کو مسلم برصغیر میں دیکھا ہے۔ شجاعت میں صلاح الدین کا ثانی کوئی نہ تھا۔
یہی لوگ تھے، یعنی صلاح الدین، مجیب الرحمٰن شامی، مصطفی صادق مرحوم اور الطاف حسن قریشی، جو اپنے عہد پر اثر انداز ہوئے۔ ہر ایک کا اپنا مزاج اور اپنے اطوار تھے۔ ڈاکٹر صاحب میں خیر کا عنصر اتنا غالب تھا کہ آسانی سے احاطہ ممکن نہیں۔ کہنہ سالی میں "کاروانِ علم فاؤنڈیشن" تشکیل دی۔ ہزاروں غریب بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیا، انکسار او رعجز کے ساتھ۔ اس ادارے کے خالد صاحب کسی اخبار نویس سے رابطہ کرتے، فاؤنڈیشن کے ذکر کی فرمائش ہوتی، اس کے سربراہ کی نہیں۔
مشکل ہے، ایسے آدمی کے بارے میں لکھنا مشکل۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مثال بنتے ہیں۔ جن سے اکتسابِ نور کیا جاتاہے۔ آنکھ نم ہے، دل اداس۔
ہر اک مکاں کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے