ایک بار پھر اقبالؔ کو یاد کیجیے: اس کرّہء خاک پہ جہاں کہیں روشنی ہے، مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفیؐ کی تلاش میں۔
دنیا کے دو سو ممالک میں سے کوئی ایک بھی کرونا سے بچا نہیں۔ ممکن ہے، کوئی گاؤں موجود ہو لیکن کوئی شہر اور قصبہ نہیں۔ ہاں مگر ایک شہر ایسا ہے، جہاں کرونا کا کوئی شکار نہیں اور اگر ہے تو برائے نام۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی شہر ہے اور ایسا شہر، جہاں ووہان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں چینی موجود ہیں، جہاں سے یہ وبا پھوٹی اور ساری دنیا میں پھیل گئی۔
یہ معجزہ کس طرح رونما ہوا۔ سرکارؐ کے ایک قولِ مبارک کی بنا پر۔ وبا پھوٹی تو ظاہر ہے کہ درجنوں ٹی وی چینلز نے خبر فوراً ہی پھیلا دی۔ ایک افسر کو آنجنابؐ کا فرمان یادتھا، جس کا مفہوم یہ ہے: وبا پھیلے تو اس بستی کے لوگوں کو وہیں رہنا چاہئیے اور کسی اجنبی کو اس مقام کا رخ نہیں کرنا چاہئیے۔ کسی سے پوچھے اور مشورہ کیے بغیر اس نے فوراً ہی چھٹیاں منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ مکینوں کے شہر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی اور آمدورفت کے راستوں پر پہرے بٹھا دیے۔ تین ہفتے تک یہ لاک ڈاؤن قائم رہا۔ بڑے بڑے بورڈ آویزاں کر دیے گئے۔ ان میں سے کچھ پر احتیاطی تدابیر رقم تھیں اور کچھ پر وہ دعا، جس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ کے نام سے کہ اس مبارک اسم سے زمین تو کیا آسمان کی کوئی چیز بھی ضرر نہ پہنچائے۔ منگل کی صبح حسبِ معمول کرونا کنٹرول کرنے والے قومی ادارے کی رپورٹ موصول ہوئی تویہ انکشاف اس سے ہوا۔ تیسری کوشش پر اس افسر سے بات ہو گئی۔ جواں سال آدمی نے اصرار کیا کہ اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ آداب کے خلاف ہے۔ درحقیقت اس لیے کہ وہ شہرت سے اِبا کرتا ہے۔ اس شہر کا نام گوادر ہے۔
اگر کرونا اس میں پھیل جاتا تو سی پیک کے تحت بندرگاہ کی تعمیر کا کام دوسال دور جا پڑتا۔ وہ یہ کہانی سنانے پر آمادہ نہیں تھا۔ مشکل سے قائل ہوا۔ کتنے ہی پہلو ہیں، کتنے ہی تابناک پہلو، جو غور و فکر سے چمک اٹھے۔ انسانوں کو درپیش ہونے والا کوئی مسئلہ، انہیں اذیت دینے والی کوئی مصیبت ایسی نہیں، جس کی دعا آپؐ نے بتا نہ دی ہو۔
لگ بھگ ساڑھے چھ سو سال پہلے ایک تردماغ کو سوجھی کہ احادیث کے سات مجموعوں پہ پھیلی ہوئی سرکار ؐ کی تمام دعائیں یکجا کر دی جائیں۔
دنیا کا سب سے قدیم شہر، جسے انبیاؑاوراصحابِ رسولؓ نے شرف بخشا۔ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے سوا دنیا کا واحد شہر، جسے بلالؓ کی اذان سننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ وہ دن تھا، جب خالد بن ولیدؓ نے دمشق میں جناب عمر بن خطابؓ کا استقبال کیا۔ جہاں بدر والوں سمیت، اس روز کم از کم درجنوں اصحابِ رسولؐ موجود تھے۔ عاجز ی اور انکسار کے ساتھ اس دن آپؐ سے التجا کی گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جونہی ملال میں رچی اور درد سے بھری بلالؓ کی آواز بلند ہوئی تو سننے والوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ ایسے بھی تھے، جو ہچکیوں کے ساتھ روئے۔ اس ایک ساعت میں دمشق گویا مدینہ ہو گیا تھا۔ اس وقت شاید کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہوگا، جس کے حافظے میں آپؐ کا مبارک چہرہ اجاگر نہ ہو گیا ہو۔ وہ چہرہ، جس کے بارے میں کہا گیا ہے
حسنِ یوسف، دم عیسیٰ، یدبیضا داری
آں کہ خوباں ہمہ دارن تو تنہا داری
وہ تمام محاسن، جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاؑ میں تھیں، آپؐ کے پاکیزہ قلب و دماغ میں یکجا ہوئیں۔
شمار کرنے والوں نے شمار کرنا شروع کیا تو چار ہزار فضائل اور انداز گنے۔ مثلاً اظہارِ حیرت مقصود ہوتا تو ہتھیلی الٹا دیتے۔ پھر ایک درویش نے، جو زیادہ جانتا تھا، یہ کہا: نہیں، اس ریا ض سے کچھ حاصل نہیں۔ جس طرح نفس کے فریب گنے نہیں جا سکتے، مصطفیؐ کے مقامات بھی شمار نہیں ہو سکتے۔ منکرینِ حدیث پہ خدا رحم کرے۔ ایک بازاری نے ممتاز ترین اصحابؓ میں سے ایک کا ذکر تمسخر کے ساتھ کیا۔ د وسرے بازاری نے اس پر قہقہہ برسایا۔ ایک بڑا ادیب، ایک بہت مشہور شاعر۔ فیشن جب عام ہو جائے تو جہالت کی اتنی گہری تہہ دل و دماغ پہ بچھا دیتا ہے کہ ہیرے کی انی بھی جسے چیر نہیں سکتی۔ سب سے زیادہ احادیث جنابِ ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں۔ آپؐ نے ان کے لیے بہترین حافظے کی دعا کی تھی۔ اس کے باوجود ایک بار کوئی بات وہ بھول گئے تھے۔ اس لیے کہ انسان کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے۔ ان کے ایک شاگرد نے، جس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی احادیث کا مجموعہ ڈاکٹر حمید اللہ نے پیرس میں چھاپ دیا تھا، ایک بار کوئی حدیث جنابِ ابو ہریرہؓ کو یاد دلائی۔ خود انہی سے سنی تھی مگر اب وہ بوڑھے ہوگئے تھے اور اس ارشاد کے بارے میں یقین سے کچھ کہہ نہ سکتے تھے۔ شبہ کا اظہار کیا تو شاگرد نے کہا: جناب والا آپ ہی سے سن کر میں نے لکھ لیا تھا۔
فرمایا: اگر ایسا ہے تو میرے پاس بھی رقم ہو گا۔ اگلے دن بشاش چہرے کے ساتھ شاگرد کو دیکھا اور کہا: ہاں، جو کاغذ میرے گھر پہ رکھے ہیں، ان میں سے ایک پر یہی الفاظ درج ہیں۔
معترض کہتے ہیں کہ احادیث کی تدوین کا کام کئی عشروں بعد شروع ہوا۔ ان حماقت کے ماروں کو کوئی سمجھائے کہ ساتوں بڑے عرب شاعروں کا کلام صدیوں بعد مرتب ہوا۔ وہ اندھے، صحرا نشینوں کے حیرت انگیز حافظے کی روشنی جو دیکھ نہیں سکتے۔ آج بھی عالمِ اسلام میں ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے لوگ موجود ہیں، جو امراؤ القیس، لبید یا ظہیر بن ابی سلمیٰ کے دیوان میں کسی بھی صفحے پر انگلی رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ شعر الحاقی ہے، یعنی شاعر کا نہیں، بعد میں اس سے منسوب کیا گیا۔
یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے فصاحت کے اصول متعین کیے۔ عربی ادب کا کوئی بھی اچھا طالبِ علم شعر سنتے ہی بتا دے گا کہ یہ ظہیر کا ہے یا لبید کا۔ اس معمولی اخبار نویس نے ایک بار کسی ایڈیٹر کی فرمائش پر میجر عامر کے طویل انٹرویو کا مختصر سا دیباچہ لکھا تھا۔ نام ظاہر ہے کہ درج نہ تھا۔ اگلی صبح جنرل حمید گل مرحوم نے فون کیا تو کہا: آپ نے خوب لکھا۔ میں نے انکار کیا تو وہ ہنسے اور کہا: تمہارا لکھا چھُپ نہیں سکتا۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: مجھ سے اگر کوئی بات کسی نے منسوب کی یعنی خود سے گھڑ لی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے۔ محدثین وہ سچے اور پاکیزہ لوگ، کیا اس قول سے واقف نہ تھے؟
ایک بار پھر اقبالؔ کو یاد کیجیے: اس کرّہء خاک پہ جہاں کہیں روشنی ہے، مصطفیؐ کے طفیل ہے یا مصطفیؐ کی تلاش میں۔