ہر آدمی مختلف ہوتا ہے۔ صرف شکل و صورت، مزاج اور عادات و اطوار ہی میں نہیں بلکہ اپنے باطن میں بھی۔ شطرنج کی بساط پر مہروں کی تعداد مختصر ہوتی ہے لیکن چالیں ایک ارب سے زیادہ۔ پروردگار نے زندگی کو ایک خیرہ کن تنوع اور کشمکش میں پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔
کچھ لوگ زیادہ منفرد ہوتے ہیں سعید اظہر ان میں سے ایک تھے۔ اتنے منفرد کہ ایک ناول ان پر لکھا جا سکتاہے۔ طویل عرصے تک میں نے انہیں قریب سے دیکھا۔ آخری تجزیے میں وہ اتنے سادہ آدمی تھے کہ حیرت ہوتی۔ سب یاد کرنے والوں نے ان کے لیے ایک ہی لفظ کا انتخاب کیا "معصوم آدمی"۔ سعید اظہر واقعی معصوم تھے۔ ایک سے زیادہ بار ہمیں ایک ہی کمرے میں رہنے کا موقع ملا اور اس سادگی کے کتنے ہی مظاہر دیکھے۔ غفورالرحیم ان کی کوتاہیوں سے صرفِ نظرفرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ وہ ایسے نادرو نایاب آدمی تھے کہ ایسی کوئی دوسری مثال شاذ ہی ہوگی۔ آئینے کی طرح صاف دل۔
پچاس برس ہوتے ہیں، جب پہلی ملاقات ہوئی۔ اچانک وہ میرے کمرے میں داخل ہوئے اور کہا "میرے کالم میں آپ نے قلم لگایا ہے؟" حیرت سے میں نے کہا: جی ہاں اور یاد دلایا کہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ سعید اظہر کے قلم میں کاٹ بہت تھی لیکن کبھی تھوڑے سے غیر محتاط ہو جاتے۔ ذاتی رنج نہ پالتے لیکن معاشرے کے منفی کرداروں پر ان کا قلم کبھی تیز دھار ہو جاتا۔ ان کے لہجے میں غصہ کم اور تعجب زیادہ تھا۔
بیس برس کے ایک لڑکے کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ ایک تجربہ کار کالم نگار کی تحریر کو چھیڑے۔ کچھ دیر حیرت سے وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر خاموشی سے چلے گئے۔ گرامی قدر استاد عالی رضوی سے بات کی تو رسان سے بولے: فکر مندی کی اس میں کیا بات ہے۔ کوئی دن میں میرا تبادلہ سٹی ڈیسک پہ ہوگیا، جس کے انچارج سعید اظہر تھے۔ 9بجے کھانے کا وقفہ ہوتا تو وہ تاخیر سے تشریف لاتے۔ الجھن کی اس میں کوئی بات نہ تھی۔ میں اپنے کام میں جتا رہتا۔ یوں بھی بوجھ کچھ زیادہ نہ تھا۔ ایک دن اچانک بولے: یہاں قریب ہی ایک ہاسٹل ہے، شاہ ابوالمعالیؒ کے مزار سے متصل۔ 70روپے ماہوار پر ایک کمرہ دستیاب ہے، اگر چاہو تو ہم اکھٹے رہ سکتے ہیں۔
آشنائی رفاقت میں ڈھل چکی تھی۔ فوراً ہی پیشکش قبول کر لی۔ یہاں بھی سعید صاحب کاوہی چلن رہا۔ رات گئے لوٹتے اور پڑ رہتے۔ میری ذمہ داری ایک بار پھر بدل گئی۔ پھر سے ادارتی صفحہ۔ صبح سویرے دفتر پہنچنا ہوتا۔ اس وقت وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے۔ کرتے ہوں گے لیکن یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میں نے انہیں ناشتہ کرتے دیکھا ہو۔ ہمیشہ کے بے نیاز اور لا ابالی۔ تمام زندگی کم سنوں کی معصومیت کے ساتھ بتا دی۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ ایک بے تکلف آدمی تھے۔ طویل رفاقت کے سبب کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نہیں تھا۔ ہنستے ہنساتے ضرور تھے اور کچھ زیادہ ہی مگر دل کی بات کم ہی کہتے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں خوب جانتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں تھا۔
انسانی شخصیت کس طرح تشکیل پاتی ہے۔ کتنے مختلف عوامل ہستی کو متشکل کرتے ہیں۔ بہت باریک بینی سے جائزہ لے کر ہی ادھورا سا تعین کیا جا سکتاہے۔ فلسفی نے کہا تھا: انسانی تاریخ میں کبھی کوئی مکمل بائیو گرافی نہیں لکھی گئی۔ سعید اظہر کی زندگی کا بنیادی راز یہ ہے کہ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے بیٹے تھے۔ ایک دن بتایا۔ پندرہ سولہ برس کی عمر تک میں اپنی امّاں کے ساتھ سوتا رہا۔ دراصل وہ اپنی ماں ہی کے بیٹے تھے۔ منڈی بہائو الدین کے رتووال نامی گاؤں سے لاہور چلے آئے لیکن دل میں ماں کا بسیرا رہا۔ ایک لاڈلے بچّے کی طرح وہ دنیا سے شفقت کی امید رکھتے۔ دوسروں کے ساتھ بے ساختگی سے پیش آتے اور دنیا سے مادرانہ شفقت کی توقع رکھتے مگر یہ دنیا تو کسی کی ماں نہیں بن سکتی۔ آدمی کا سائبان تو صرف اس کا مالک ہے، جو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتاہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا
دستِ ہر نا اہل بیمارت کنند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کنند
ہر نا اہل کا ہاتھ آدمی کو بیمار کرتاہے۔ اپنی ماں کے پاس آکہ تجھے سنبھالے۔ خوش بختی سے سعید اظہر کو دوست اچھے ملے اور کیوں نہ ملتے۔ وہ خود ایک مخلص آدمی تھے لیکن زمانہ کسی پر مہربان نہیں ہوتا۔ قرآنِ کریم میں ہے: تم میں ایک دوسرے کی مخاصمت ہوگی۔ خیر خواہ اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا۔
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوتاہے۔ یہی ایک نکتہ تھا، جو شاید وہ نظر انداز کرتے رہے۔ عمر بھر ان کی آنکھوں میں جو معصومیت جھلکتی رہی، اس میں ایک سوال جھلکتا رہتا: جب میں دوسروں کے ساتھ مخلص ہوں تو دوسرے کیو ں نہیں؟ دائم آسودگی کی ایک لاشعوری تلاش اور اس کے تسلسل کا نام سعید اظہر تھا۔
اب یہ ارماں کہ بدلے جہاں کا دستور
ہر آنکھ میں ہو عیش وفراغت کا سرور
ہر جسم پہ ہو اطلس و کمخواب و سمور
یہ بات اور کہ خود چاک گریباں ہوں میں
غالباً یہ 1974ء تھا، جب مرحوم نے "گیت" کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ نکالا۔ اسی گلی میں، ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہوسٹل سے متصل، نیلا گنبد کی ایک گلی میں، جہاں اب ایک مقبولِ عام ریسٹورنٹ قائم ہے۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ فرش پر قالین بچھے ہیں اور میزوں کے ساتھ پیتل کے ایش ٹرے سجے ہیں۔ ایک عم زاد نے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے فراہم کیے تھے، جو اس دور میں ایک بڑی رقم تھی۔ ایک جہاندیدہ اخبار نویس کو دیکھا، جو خود ایک اخبار نکال کر ڈبو چکے تھے، ایک کائیاں آدمی۔ اب وہ سعید اظہر کے مربّی تھے۔ سعید صاحب ان کی فرمائشیں پوری کرنے میں لگے رہتے۔
یہیں رحمت علی رازی سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ ایک خالص دیہاتی آدمی، بی اے پاس کرنے کے بعد جو روزگار کی تلاش میں لاہور آیا تھا۔ سعید اظہر نے گویا اسے گود لے لیا تھا۔ قریبی کینٹین پر وہ چائے منگوانے جاتا۔ انہی کے سا تھ کھانا کھاتا اور وہیں سورہتا۔ مرحوم کے برعکس رحمت علی رازی ایک محنتی، مرتب اور پر عزم آدمی تھا۔ مشکل وقت پڑا تو اس نے سگریٹ نوشی ختم کر دی۔ پھر چائے اور ٹھنڈے مشروبات بھی۔ پھر بس میں سفر کرنا بھی چھوڑ دیا۔ تارکول کی دھوپ سے سلگتی سڑکوں پرپیدل۔
شاہ ابوالمعالی ہوسٹل کے بعد کچھ دن بعد ہم شاہ عالمی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے، جس کا کرایہ 11 روپے روزانہ تھا۔ ایک دن سعید اظہر نے فرمائش کی کہ کیوں نہ ایک ہی کمرے میں اکھٹے رہیں۔ بجٹ آدھا ہو جائے گا۔ شرارتاً میں نے کہا: جی ہاں ایک مہمان کے طور پر۔ کرایہ آپ کو ادا کرنا ہوگا۔ میں بستر پر سوؤں گا اور آپ گدّے پر۔ ایک لمحہ تامل کے بغیر دونوں شرائط قبول کر لیں۔
جاری۔۔