پھر وہی آیت یاد آتی ہے:جو کچھ اس زمین میں ہے، فنا ہونے والا ہے، باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ، بے پناہ عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔ بے شک موت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔
ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے بارے میں خیال ہی نہیں آتا کہ ایک دن وہ چلے جائیں گے۔ مسعود ملک کی وفات پہ عرب شاعر امراؤ القیس کا وہ جملہ یاد آیا، جو اس نے اپنے باپ کے قتل پہ کہا تھا: خبر ایسی آئی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ اپنے آپ سے میں نے پوچھا: جیسا شدید رنج اس مردِ معقول کی وفات پہ ہونا چاہئیے تھا، وہ کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب دو تین دن کے بعد ملا۔ تعجب تمام ہوا تو زہرِ غم رگ و پے میں اترنے لگا۔ وہ ہمیشہ کا متین چہرہ، وہ ہمیشہ ہنستی ہوئی آنکھیں، وہ ہمیشہ ہموار گفتگو، وہ ہمیشہ دائمی سلیقہ مندی۔ غالبؔ نے بے سبب نہ کہا تھا
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
اللہ تعالیٰ مرحوم کی خطائیں معاف فرمائے، ان کی نیکیاں قبول کرے۔ انشاء اللہ روزِ آخرت ان سے ملاقات ہوگی۔ دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوئی تمنا یہ ہے کہ ہم پہ بھی وہ کرم فرمائے اور یہ ملاقات حوضِ کوثر پر ہو۔
بغداد سے ایک رئیس کا تجارتی کارواں نکلا۔ راہ میں کسی کو کھڑے پایا۔ ہاتھ اٹھا کر التجا کی تو کارواں رک گیا۔ ملتجی کو امیر کے پاس لایا گیا۔ ماں باپ اور بیوی بچے ساتھ ہیں۔ بھوک سے نڈھال ہوں۔ کوئی آسرا نہیں، کوئی سہارا نہیں۔ رئیس نے پوچھا: کیا چاہتے ہو؟ جواب ملا: محتاج کیا عرض کرے۔ یہ تو آپ پر ہے۔
کیسا دل پایا تھا کہ یہ جملہ سنتے ہی چہرہ متغیر ہو گیا۔ کارواں کے ناظم سے پوچھا: کتنا روپیہ ہمارے پاس ہے۔ اس نے کہا: بہت ہے۔ کہا: سونے کی ساری اشرفیاں زمین پر ڈھیر کر دی جائیں۔ پھر اس مفلس سے کہا: یہ سب کی سب تمہاری ہیں۔ یکایک مسافر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رئیس نے کہا: کیا کوئی غم یاد آگیا۔ وہ بولا: امیر اب کیا غم ہے۔ میں یہ سوچ کر رو پڑا ہوں: کیا یہ زمین تجھے بھی کھا جائے گی؟ غالبؔ پھر یاد آتے ہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
ملک صاحب سے پہلی ملاقات 1985ء میں ہوئی۔ میں ایک اخبار کے نیوزروم سے وابستہ تھا۔ اس اخبار سے ملک صاحب وابستہ ہوئے تو نیوز روم میں آئے اور سبھی سے کہا لیکن اس ناچیز سے خاص طور پر مخاطب ہوئے: میرے لیے دعا کیجیے۔ بے وقت کی حسِ مزاح بری ہوتی ہے۔ جواں سال، تروتازہ آدمی تھے۔ ان کے تیور اور چہرے سے پھیلی ذہانت دیکھی تو شرارتاً کہا: ارے صاحب ہم کیا، ہماری دعا اور تعاون کیا۔ کوئی دن گزریں گے کہ آپ مشہور اخبار نویس ہو جائیں گے۔ خوش خوراکی سے وزن بڑھ جائے گا۔ قبل از وقت بال سفید ہو جائیں گے۔ بڑے بڑوں کے ساتھ گھوما کریں گے اور ہم آپ سے سرپرستی کی درخواست کیا کریں گے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ پانچ برس بعد نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو جن کارگر لوگوں کا انتخاب کیا، مسعود ملک ان میں شامل تھے۔ وہ کہ جن کی قربت کے وزیرِ اعظم خواہاں رہتے۔ برسوں پہلے یہ اخبار میں چھوڑ چکا تھا۔ ایک دن ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: اچھا تو آپ ہیلی کاپٹر گروپ میں شامل ہو گئے۔ غیر معمولی ذہین آدمی مسکرایا اور بولا: فکر نہ کیجیے، آپ کے لیے بھی کچھ کرتے ہیں۔
دربار اور سرکارسے دور رہنے والا یہ معمولی آدمی ان سے کیا عرض کرتا۔ یوں بھی جواب ایسا مسکت تھا کہ خاموشی کے سوا چارہ نہ تھا۔ پھر کبھی ملاقات ہوئی تو یوں ہی سرِ راہے گاہے۔ آٹھ برس پہلے ایک نیا اخبار نکلا۔ میں ا س سے وابستہ ہوا تو فرمائش کی گئی کہ اسلام آباد آفس کے لیے ایڈیٹر تلاش کرو۔ مردِ نجیب مغیث اشرف بیگ سے بات ہوئی۔ وہ آمادہ بھی ہو گئے لیکن پھر کوئی اڑچن آن پڑی۔ مغیث خوددار بہت ہیں۔ معاملہ طے ہو جانے کے بعد کسی نے ان سے رابطہ نہ کیا۔ پہلے ادارے کو وہ چھوڑ چکے تھے۔ اب ایک دوسری پیشکش ہوئی تو انہوں نے قبول کر لی۔ اس اثنا میں بیگ صاحب کے پرانے ادارے کو ان کی قدر و قیمت کا احساس ہوا اور درخواست کر کے وہ واپس لائے گئے۔ اب پھر سے ایڈیٹر کی تلاش شروع ہوئی۔
میرے ذہن میں ملک صاحب کا نام چمکا۔ وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ رپورٹر کی حیثیت سے ان کی شہرت پھیل چکی تھی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ان کا شمار بہت با خبر لوگوں میں ہوتا تھا۔ ہوشمندی اور سلیقہ شعاری کے تو کیا کہنے۔
ایک شام کھانے پر زحمت دی۔ تجویز پیش کی تو وہ آمادہ ہو گئے۔ پوری طرح میں مطمئن تھا لیکن بہرحال دفتر کی منظوری درکارتھی۔ یکایک ایک سوال ذہن میں ابھرا: ملک صاحب ایک مسئلہ تو ہے۔ آپ کے بارے میں باور یہ کیا جاتاہے کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں۔ مرحوم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ لفظ ضائع کرنے والے وہ نہیں تھے۔ انکار کرتے تو ایک طرح کی غلط بیانی ہوتی۔ ان کے چہرے پر البتہ یہ لکھا تھا: بھائی صاحب آپ کو معلوم ہونا چاہئیے، جب میں ایڈیٹر بن جاؤں گا تو توازن برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا کہ اسی میں میری بقا اور دفتر کی بھلائی ہوگی۔
اسلام آباد آفس سے میراواسطہ نہیں تھا۔ کالم لکھ کر مجھے لاہور بھیجنا ہوتا۔ ملک صاحب سے دوچار ملاقاتیں ہوئیں تو گہرے اعتماد کا رشتہ قائم ہو گیا۔ مصروف رہتے، کم بات کرتے مگر نہایت معقول اور متوازن۔ ایسے لوگ اس معاشرے میں نادر و نایاب ہیں، جن میں حقیقی جذباتی توازن پایا جاتا ہو۔ وہ ان میں سے ایک تھے۔ رائے پوچھی جاتی تو احتیاط کے ساتھ دیتے۔ باخبر وہ زیادہ تھے، اظہار کم کرتے۔ ایک دن وہ الگ کر دیے گئے اور بلا جواز۔
بہت پہلے جنرل مشرف سے ایک سخت سوال پوچھنے پر جناب مجید نظامی بھی یہی سلوک ان کے ساتھ کر چکے تھے۔ صحافت کی تاریخ میں نظامی صاحب کا قد کاٹھ کتنا ہی اونچا ہو، یہ داغ ہمیشہ رہے گا۔ یہ کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی فرمائش پر ایک بہترین اخبار نویس کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ لوگ چلے جاتے ہیں اور یادیں رہ جاتی ہیں۔ آدمی کی قدر و قیمت کا احساس اس کے جانے پر ہوتاہے۔ پھر دل روتا ہے۔ پھر کوئی شاعر یاد آتا ہے۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
مسعود ملک کی وفات کا دکھ گہرا ہے۔ ان کا مرثیہ لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ لفظ میسر ہی نہیں کہ امنگ، ذہانت اور زندگی میں گندھی ان چمکتی ہوئی آنکھوں کو بیان کر سکیں۔ پھر وہی آیت یاد آتی ہے:جو کچھ اس زمین میں ہے، فنا ہونے والا ہے، باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ، بے پناہ عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔ بے شک موت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔