بھڑک اٹھنے اور بجھ جانے میں نہیں، کامیابی سلگنے میں ہوتی ہے۔ عزم، سلیقہ شعاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ صداقت، پیہم جدوجہدمیں۔ اسی سے ہم محروم ہیں۔ غور و فکر سے محروم۔ عالمگیر صداقتوں کے ادراک سے محروم وگرنہ کشمیر کی آزادی کیا، بھارت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکتا کہ ایک مصنوعی ریاست ہے
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے، نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے
کشمیر کا مقدمہ ساری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا، اگر ہم بیدار ہوتے۔ یہ صرف استعمار کا زخم نہیں۔ شہباز شریف، جسے پاکستان کا دوست کہتے ہیں، عمران خان جس کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ یہ ہزاروں برس کی ملوکیت، جاگیردارانہ نظام اور جہالت کا ثمر بھی ہے۔ ایک برس بیت گیا بلکہ سات عشرے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ صرف امریکہ، یورپی یونین، نیوزی لینڈاور آسٹریلیا کے لیے انگریزی ہی نہیں، عربی، فارسی، فرانسیسی، جاپانی، ہسپانوی، چینی بلکہ دنیا بھر کی زبانوں میں لٹریچر چھاپا جاتا۔ سارے عالم میں پھیلا دیا جاتا۔ روزانہ پیلٹ گنوں سے زخمی معصوم بچوں کی تصاویر جاری کی جاتیں۔ ایک دن منانے، ایک سڑک کا نام بدلنے اور ایک نغمہ جاری کرنے سے کیا ہوتاہے۔
بجا قوموں کے مراسم مفادات پہ استوار ہوتے ہیں مگر عالمگیر سیاسی اور سفارتی مباحثے اور مذاکرے بھی جاری رہتے ہیں اور فکر و خیال کی فصلیں اگاتے ہیں۔ نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے بھی اسی دنیا میں بستے ہیں۔ اور ان کی سننے والے بھی۔ مجبوریاں ہوتی ہیں اور کبھی بہت شدید بھی۔ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ بھی بنیادی اصول مگریہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، خلوصِ قلب سے جس کی انہوں نے کوشش کی۔
عراق پر حملہ ہوا تو یورپ میں اتنے بڑے جلوس نکلے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ عالمی طاقتوں کو مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ غلام اگر سپرانداز نہ ہوں۔ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن پھر وہ ایک جزیرہ نما تک سمٹ گئی۔ برطانوی ہند میں نصف صدی تک سیاسی تحریکیں جاری رہیں۔ ان تحریکوں نے خوف کو دلوں سے نوچ پھینکا۔ پھر سبھاش چندربوس نے آزاد ہند فوج بنائی، جس کے چار جنرلوں میں سے دو مسلمان تھے۔ 41ہزار آدمی مارے گئے۔ بحریہ میں بغاوت ہوئی۔ انگریز کو جانا پڑا۔ آخری عشروں میں آمدن کم اور اخراجات زیادہ تھے۔ آخر ایک دن آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ مگر اس طرح کہ بادشاہوں کے جوتے سیدھی کرتی درباری اشرافیہ کا زور ٹوٹ نہ سکا۔ مکمل آزادی کا سورج چمکتا مگر فروغِ علم سے گریز، احساسِ کمتری اور اقتدار کی کشمکش۔
27دسمبر1979ء کو سرخ سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی تو روسی سفیر جنرل محمد ضیاء الحق سے ملنے گئے۔ مشرقی جرمنی، پولینڈاورہنگری کا نام لے کر انہوں نے یاد دلایا: ساڑھے تین سو برس سے ہم پیش قدمی کرتے آئے ہیں۔ جنرل نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اللہ کے سوا وہ کسی کو سپر پاور نہیں سمجھتا۔ خود کو وہ ایک متامل حکمران کہا کرتا۔ I am a reluctant ruler مگر اب وہ عزم کر چکا تھا۔ ایسے ہی سچے عزم کو فطرت سینچتی ہے۔
امریکیوں نے نسخہ یہ تجویز کیا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں الجھائے رکھا جائے کہ گوادر تک نہ جا سکے۔ ریاست ہائے متحدہ میں الیکشن ہو چکے تھے۔ جمی کارٹر نے ضیاء الحق کو دو سو ملین ڈالر امداد کی پیشکش کی، جسے انہوں نے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا۔
نئے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے زبگنیو برزنسکی کو اسلام آباد بھیجا۔ اس کا مشورہ بھی یہی تھا کہ پاکستان کو مضبوط بنایا جائے، دوسروں سے چھیڑ چھاڑ جاری رہے۔ کھرے لہجے میں جنرل نے اسے بتایا کہ روسیوں کو وہ آمو پار بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ باقی تاریخ ہے۔
امریکی ویت نام فتح کر سکے، عراق اور نہ افغانستان۔ دنیا کی معیشت میں جن کا حصہ ایک چوتھائی تھا۔ عالمی سیاست میں سامنے کی حقیقت آج یہ ہے کہ امریکہ پسپا ہے اور چین آگے بڑھتا ہے۔ کوئی بھی بڑی طاقت جب اپنی بساط سے بڑھ کر پاؤں پھیلائے تو ناکامی کا آغاز ہوجاتاہے۔ ترکیہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ عثمانی سلطنت تین بر اعظموں پر پھیلی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور مشرقی یورپ کے چالیس ملک اس کے زیرِ نگیں تھے۔ غلط فیصلوں، بالخصوص عالمی جنگ میں فریق ہوجانے پر، شکست و ریخت ہوئی۔ دو اصول اٹل ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقلیت کبھی تادیر اکثریت پر حکومت نہیں کرتی۔ ثانیاً تادیر وہی نظام برقراررہتا ہے جو نسبتاً زیادہ عدل عطا کرے۔
آدھی دنیا تاتاریوں نے بھی فتح کر لی تھی۔ تیمور نے روس کو پامال کر کے رکھ دیا تھا۔ بایزید جیسے جلیل القدر ترک حکمران کو پچھاڑ ڈالا اور یورپ میں داخل ہو گیا تھا۔ مغربیوں سے خراج وصول کیا۔ جرمن تو اس قدر ہراساں تھے کہ بادشاہ نے اپنی بیٹی جتہ مغل سے بیاہ دی۔ چنگیز خاں کے لشکروں نے ایک کروڑ انسانوں کو قتل کر ڈالا، جب دنیا کی کل آبادی ایک ارب سے زیادہ نہ ہوگی مگر ہندوستان میں داخل نہ ہو سکے۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ دنیا کی بڑی معیشت تھی۔ زراعت، گلہ بانی، جہاز سازی اور پارچہ بافی کے بل پر۔ اس لیے بھی کہ علاؤ الدین خلجی ایسا صاحبِ سطوت حکمران بروئے کار تھا۔ سات بار منگولوں نے یلغار کی اور ساتوں بارپسپا ہوئے۔ بے مثا ل قربانیاں کشمیریوں نے پیش کی ہیں۔
1931ء میں ڈوگرہ حکومت نے عید کے اجتماعات پر پابندی عائد کی، جن میں فرعون اور موسیٰ ؑکا قصہ بیان کیا جاتا۔ اضطراب کی ایک ہمہ گیر لہر اٹھی۔ سری نگر میں مسلمان زعما جمع ہوئے۔ سوات کا عبد القدیر خان بھی در آیا۔ لیڈروں کی لچھے دار تقریروں کے بعد اس نے ایک مختصر سی بات کہی:کب تک ذلت اور غلامی میں جیو گے۔ موت کیااس سے بہتر نہیں؟ سری نگر جیل میں اس پر مقدمہ شروع ہوا۔ ہزاروں کا ہجوم امنڈ پڑا۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو ایک آدمی آگے بڑھا۔ دیوار پہ کھڑے ہو کر کسی نے اذان دی۔"اللہ بڑا ہے، اللہ سب سے بڑاہے۔" گولی چلی اور وہ ڈھے پڑا۔ ایک ایک کر کے اکیس شہیدوں نے اذان مکمل کر دی۔
یہ اذان رائیگاں نہ جائے گی۔ شہیدوں کا لہو کبھی رائیگاں نہیں ہوتا۔ کب سے کشمیری مقتل میں کھڑے ہیں۔ میسورسے لے کر سری نگر تک، مسلم برصغیر غداروں نے برباد کیا۔ بادشاہت کی آزرو میں شیخ عبد اللہ نہرو سے جا ملے۔ کشمیر 1948ء میں آزاد ہو گیا ہوتا۔ شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر کی طرح۔
ہم کبھی ایک جامع کشمیر پالیسی تشکیل نہ دے سکے۔ کبھی مہم جوئی، کبھی مکمل مایوسی۔ بھڑک اٹھنے اور بجھ جانے میں نہیں، کامیابی سلگنے میں ہوتی ہے۔ عزم، سلیقہ شعاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ صداقت، پیہم جدوجہدمیں۔ اسی سے ہم محروم ہیں۔ غور و فکر سے محروم۔ عالمگیر صداقتوں کے ادراک سے محروم وگرنہ کشمیر کی آزادی کیا، بھارت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکتا کہ ایک مصنوعی ریاست ہے
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے، نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے