انہیں کون سمجھائے، مغربی تہذیب کی یلغار سے جو احساسِ کمتری کے ناقابلِ علاج مریض ہو گئے، باقی باقی!
کتنے ہفتے اس کشمکش میں گزرے کہ الیکٹرانک میڈیا کو خیر باد کہہ دوں؟ اور اسد اللہ خاں غالبؔ کو یاد کرتا رہا
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرف مکّرر نہیں ہوں میں
کتنی ہی بار فیض کا شعر دیر تک پڑھتا رہا
اب کوئی اور کرے پرورش گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
"مقابل" ایک مشکل پروگرام ہے، کم از کم میرے لیے۔ دوستوں کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو کئی ماہ پہلے ہاتھ اٹھا لیا ہوتا۔
آج بہت دنوں کے بعد بالآخر وہ سحر طلوع ہوئی، جس نے یکسوئی پیدا کر دی۔ مصروفیت کتنی ہی گراں بار ہو، فراغت سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو سکتی۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ حافظہ اب پوری طرح یاوری نہیں کرتا۔ کبھی کسی نے کہا تھا: کیسی حیرت انگیز یادداشت قدرت نے آپ کو عطا کی ہے۔ عرض کیا: ایسی بھی اچھی نہیں، جن چیزوں سے آدمی کو دلچسپی ہوتی ہے، یاد رہ جاتی ہیں۔
پچیس برس ہوتے ہیں، سرکارؐ کی ایک دعا عارف نے تعلیم کی تھی۔ یہ وہ دن تھے، جب حافظہ بگڑ رہا تھا۔ ایک جلدی مرض نے آن لیا تھا۔ 1995ء میں ڈاکٹر اکبر کی تجویز کردہ دوا پاکستان میں میسر نہیں تھی۔ اوّل سعودی عرب سے منگواتا رہا، پھر لندن سے۔
چار چھ ماہ گزرے ہوں گے، ایک دن یاد آیا کہ ہر تین دن بعد استعمال کی جانے والی یہ دوا بہت دن سے برتی ہی نہیں۔ یاد ہی نہ رہی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ استادِ گرامی نے پوچھا کہ فلاں دعا تم پڑھتے ہو؟ عرض کیا پابندی سے۔ رسان سے بولے: نہ صرف جلدی مرض ختم ہوا بلکہ آپ کی یادداشت نوجوانوں ایسی ہو چکی۔ اس پر کیوں غور نہیں کیا۔
لاہور میں بیتے 51برسوں میں ایسا شادمانی عطا کرنے والا دن، شاید ہی کبھی طلوع ہوا ہو۔ دن کے آغاز کی ایک دعا شب پڑھی تھی۔ دل کو چھو گئی۔ شب یاد کی، سحر پڑھی۔
یکساں نصاب کی ایک مشق ان دنوں جاری ہے۔ اقبالؔ، قائد اعظمؒ اور دو قومی نظریے پر پیہم تنقید کرنے والے "مفکر" نے کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں، ان کا جواب لکھنے کی آرزو تھی۔
فون کی گھنٹی بجی۔ یہ ڈاکٹر سہیل چغتائی تھے، پابندی سے جو "مقابل" دیکھتے ہیں۔ کسی تمہید کے بغیر بولے کہ کچھ رہنمائی اس موضوع پر میسر آ سکتی ہے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گھنٹہ بھر گفتگو رہی۔ ایک ایک نقطہ روشن ہو گیا۔"مفکر" کا بنیادی اعتراض ہی غلط نکلا، یکسر غلط۔ نصاب میں تجویز کردہ تبدیلیاں وزیر اعظم یا ان کی پارٹی نے تجویز نہیں کیں۔ چاروں صوبوں، پنجاب، سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 70ماہرین اس مشق میں شریک تھے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود رابطہ کار۔
تفصیل جلد ہی۔ مختصراً یہ کہ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی نصاب تشکیل دینے والی کمیٹیوں کے علاوہ بیکن ہائوس اور علماء سمیت ماہرین کی طویل ریاضت کا ثمر ہیں، اتفاقِ رائے کے ساتھ۔ موصوف کا اعتراض تین نکات پر ہے۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ، قرآنِ کریم کی تعلیم اور دو قومی نظریے کی تفہیم۔ فرمان ان کا یہ ہے کہ اگر یہ نصاب منظور کر لیا گیا تو ملک پسماندگی کی دلدل میں اتر جائے گا۔
سفارشات کا مسودہ پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ماہرین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا ہے، ان میں عصری تقاضوں پہ اصرار کہیں زیادہ ہے۔ جیسے کہ پرسوں کے "مقابل" میں عرض کیا تھا: جس اخبار نے عالی جناب کا مؤقف شائع کیا ہے، دو عشرے قبل اسی کے اہتمام سے شائع ہونے والے جریدے Heraldنے ایک سروے چھاپا تھا۔ حاصل یہ تھا کہ 98 فیصد پاکستانی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ٹائٹل سٹوری پر ایڈیٹر کا نوٹ یہ تھا: اگر ہم نے خود یہ سروے نہ کیا ہوتا تو کبھی اسے شائع نہ کرتے۔ یعنی یہ کہ دوسری صورت میں یہ ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوتا۔
قائد اعظم کی ایک سو ایک تقاریر ہیں، جن میں وعدہ کیا گیا کہ پاکستان کا دستور اسلام کے مطابق ہو گا۔ قرآنِ کریم کے مطابق ہو گا۔ جتلانے کی ضرورت نہیں کہ قائد اعظمؒ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک تھے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہوتے ہیں۔ معترضین کو ان کی صرف ایک تقریر یاد ہے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کو فرد کے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ کسی معلّم، مفکّر اور سیاسی مدبّر پہ صرف ایک تقریر کی روشنی میں حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز ترین ماہرین میں سے ایک منیر احمد منیر کا مقالہ مل سکے تو چھاپ دوں۔ ٹھوس دلائل کے ساتھ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ قائد اعظمؒ کا یہ خطاب میثاق کے مطابق ہے۔ ریاست وجود میں آ جائے تو اس کے شہری ایک برابر ہوتے ہیں اور مذہبی معاملات میں یکسر آزاد۔
ایک چھوٹی سی اقلیت اس تقریر کی روشنی میں قائد اعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حیرت انگیز یہ کہ پچاس برس پر پھیلی عملی زندگی میں، سیکولر کا لفظ قائد اعظمؒ نے ایک بار بھی استعمال نہیں کیا۔ خود اس اصطلاح کے خالق کا کہنا یہ ہے کہ کوئی شخص سیکولر ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ وہ وجودِ باری تعالیٰ کا انکار نہ کرے۔
رواداری؟ ان کے پورے عصر، بلکہ اڑھائی تین سو سال کی آئینی سیاست میں، قائد اعظمؒ سے زیادہ روادار کون تھا؟ ان کی پہلی کابینہ میں دو غیر مسلم شامل تھے۔ وہ کبھی کسی فرقے سے وابستہ تھے اور نہ عمر بھر کسی دوسرے مذہب کے خلاف بات کی۔ قائد اعظمؒ کا اختلاف آل انڈیا کانگریس سے تھا۔ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا۔ کانگریس کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جن کے نام پر ایک عمارت ممبئی میں بنائی گئی، جناح ہال۔
ان کی ایک ہی ترجیح تھی: مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ۔ متحدہ ہندوستان میں اگر یہ ممکن ہوتا تو یقیناً وہ اس سے اتفاق کر لیتے۔ 1946ء میں تجویز کردہ اے بی سی فارمولہ آپ نے مان لیا تھا، جس میں صوبوں کے اختیارات وسیع تھے۔ دس برس کے بعد الگ ہونے کا اختیار بھی۔
مسلم لیگ نہیں، اس فارمولے کو کانگریس نے مسترد کیا۔ جب وہ ایسا کر چکی تو اس عظیم النظیر مفکر نے بساط الٹ دی۔ پورے قد سے وہ کھڑے ہوئے اور پورے عزم سے اعلان کیا کہ پاکستان سے کم اب کوئی چیز قابل قبول نہیں۔
مرحوم مجید نظامی کے اخبار سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار اخبار نویس نے مایوسی کے عالم میں عمران خان سے کہا: پاکستان کا تجربہ تو ناکام ہی ثابت ہوا۔ کپتان نے پلٹ کر دیکھا اور یہ کہا:پاکستان اگر وجود میں نہ آتا تو برصغیر کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی زد میں رہتا۔
نظریۂ پاکستان کے حق میں دلائل پیش کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ کشمیر، الٰہ آباد اور سال گزشتہ کے آخر میں دلّی کے مسلمانوں پر بی جے پی کے حملوں نے سب پہلو روشن کر دیئے ہیں۔ اس قدر واضح کہ اندھوں، احمقوں اور تعصبات کے مارے لوگوں کے سوا، ہر شخص دل کی گہرائیوں سے پاکستان کے جواز کا قائل ہو چکا۔
بنی آدم اپنے مر جانے والوں کو دفن کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بندریا کا بچہ مر جائے تو اس کی ممتا کئی دن اسے اٹھائے پھرتی ہے۔ بندریا کو کون سمجھائے؟ انہیں کون سمجھائے، مغربی تہذیب کی یلغار سے جو احساسِ کمتری کے ناقابلِ علاج مریض ہو گئے، باقی باقی!