یکسوئی اور وحدتِ فکر کا نام و نشان تک نہیں۔ تضادات ہی تضادات ہیں اور تضادات کا بوجھ اٹھا کر ساحل سے کبھی کوئی ہمکنار نہیں ہوتا۔
آخر کار وزیرِ اعظم چوہدری برادران کے در پہ حاضر ہوئے۔ برف پگھلنے کا امکان موجود ہے۔ چوہدری صاحبان نے معقولیت کا مظاہرہ کیا کہ مونس الٰہی کے لیے وزارت کا ذکر ہی نہ کیا؛البتہ پالیسیوں کی تشکیل میں مشاورت کا مطالبہ۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ جہاں اب جگمگ ہے، تعمیراتی صنعت واحد میدان ہے، جہاں چراغ جل سکتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل وزیرِ اعظم نے نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس عرصے میں ہاؤسنگ کے وفاقی وزیرِ طارق بشیر چیمہ سے ان کی ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ چیمہ صاحب بھی قرض چکانے میں تاخیر نہیں کرتے مگر خود ان کی وزارت کے معاملات سے یکسر انہیں لا تعلق کیسے رکھا جا سکتاہے؟ قاف لیگ اور تحریکِ انصاف کا اتحاد پسند کی شادی نہیں، مجبوری کا سودا ہے۔ ایک بنیادی تضاد اس میں کارفرما ہے۔ الیکشن سے پہلے طے یہ پایا تھا کہ گجرات، منڈی بہاؤالدین، بہاولنگر اور سیالکوٹ ایسے اضلاع میں افسروں کے تقرر میں ان کا دخل ہوگا۔ خان صاحب اقتدار کے لیے بے تاب تھے۔ ایک آدھ نہیں، بہت سے سمجھوتے کیے اور اب ان کی قیمت چکانی ہے۔ کوئی غلطی بانجھ نہیں ہوتی، بچے جنتی ہے۔
تقرریوں میں حلیفوں کا عمل دخل ہوگا تو میرٹ کہاں رہے گا، خان صاحب کا جو بنیادی نعرہ تھا، جس پر انہیں ووٹ ملے اور سرپرست بھی۔ کشمکش کا آغاز تب ہوا، پولیس اصلاحات کے لیے ناصر درانی کو جب ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ ضابطوں کی پاسداری کے خوگر۔ جب تک پختون خوا پولیس کے سربراہ رہے، اس کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا رہا۔ چوہدری پرویز الٰہی ڈٹ گئے کہ چار اضلاع میں افسروں کا تقرر ان کی مرضی سے ہوگا۔ اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔ ان کا مطالبہ مانا گیا تو دروازہ چوپٹ کھولنا پڑا۔ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی پسند کے پولیس افسر اور ڈی سی صاحبان مقرر کیے بلکہ وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو بھی شادکام کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ جرائم بڑھ رہے ہیں اور اس قدر کہ خدا کی پناہ۔ کمسن بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں کوڑوں کے ڈھیر پہ ملتی ہیں۔ آرزوؤں کی بے لگامی اور قوانین قدرت کو فراموش کرنے کا نتیجہ یہی ہوتاہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ، نے حسن کو محابا
لاہورمیں وزیرِ اعظم کے برادرِ نسبتی کے پلاٹ پر قبضہ ہوا اور ان کے پڑوس میں ایک بے گناہ قتل۔ ایک سخت گیر پولیس افسر بھیجا گیا۔ اس نے اعلان کیا کہ قبضہ گروپوں کو نمٹا دیا جائے گا۔ تین ماہ میں بدلا ہوا لاہور خود بولے گا۔ اپنی سی کوشش اس نے کر ڈالی۔ بعض کی دادرسی ہوئی۔ نچلے درجے کے کئی پولیس افسر وں کے خلاف کارروائی ہوئی مگر لاہور ویسے کا ویسا ہی ہے۔ آلودہ، گنگ اور منتظر۔ لاہور نہیں، پورا صوبہ ہی۔ مصلحت اور اصول ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ ایسا کبھی ہوا ہے؟
جب وزیرِ اعلیٰ اور اس کے رشتے دارمن مانی پہ تلے رہتے ہو ں تو دوسروں سے شکایت کیسی؟ تاریخ یہ کہتی ہے کہ قانون آگے بڑھتا ہے یا پیچھے ہٹتا چلا جاتاہے۔ صورتِ حال ایک جیسی کبھی نہیں رہتی۔ سرکاری عمل داری پہلے ہی محدود ہے اور افسر شاہی بے لگام۔ ایسے میں قرار اور انصاف کیسے ممکن ہے؟ لاہور پولیس کے کئی اعلیٰ افسر مدتوں سے پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ کیا ان سب کو آپ گرفتار کر سکتے ہیں؟ وزیرِ اعظم نے سچ کہا:
سیاسی پارٹیوں کے رہنما دل و جان سے اس کارِ خیر میں شریک ہیں۔ عادی مجرم، انسانی زندگیوں کی جنہیں کوئی پرواہ نہیں۔ انہی میں قومی اسمبلی کے وہ معزز رکن بھی شامل ہیں، جن کا دعویٰ یہ ہے کہ جاتی امرا کے محل میں میزبانی کے اخراجات مدتوں ان کے ذمہ رہے۔۔۔ ایک لاکھ روپے روزانہ۔ پی ٹی آئی کے بعض کارکن بھی قبضہ گیری میں ملوث ہیں۔
کرونا کی دوسری لہر اس شدّت سے اٹھی ہے کہ خلقِ خدا حواس باختہ ہے۔ حواس باختہ ہے مگر احتیاطی تدابیر پہ آمادہ نہیں۔ کسی ایک کانہیں، سبھی کا رونا ہے۔ ناروے سے پرسوں پرلے روز ایک دوست نے بتایا کہ کسی گھر میں مقرر ہ دس کی بجائے بارہ مہمان آپہنچے تو میزبان اور مہمان دونوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ فی کس ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے کے برابر۔ وسطی یورپ کے اعتبار سے بھی عام آدمی کے لیے یہ ایک بڑی رقم ہے۔ ترکیہ میں بھی ایسی ہی سخت گیری ہے؛اگرچہ شہریوں کی اکثریت قانون کا احترام کرتی ہے۔
تلخ سچائی یہ ہے کہ ہم ایک غیر ذمہ دار قوم ہیں۔ اشرافیہ بھی کیا، عام شہری بھی قانون سے بے نیاز۔ حکمران نرے نمائش پسند۔ ہفتے بھر سے ایک کلومیٹر پہ پھیلا فردوس مارکیٹ کا گردو نواح روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔ عثمان بزدار کی بڑی بڑی خوبصورت تصاویر، گویا مینارِ پاکستان کا افتتاح کرنے تشریف لا رہے ہوں۔ ایک یادگاربھی تعمیر کر دی ہے۔ بڑی بڑی سکرینیں نصب کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اس حال میں کہ معیشت برباد اور توانائی کا قحط ہے۔ وزرائے کرام چیخ چیخ کر کفایت شعاری کے دعوے کرتے ہیں۔ اس طرح کے تماشوں سے وزیرِ اعلیٰ کیا مقبول ہو جائیں گے؟ ان کی خوابیدہ صلاحیتیں کیا جاگ اٹھیں گی، جو قدرت نے انہیں عطا ہی نہیں کیں؟
کرونا کے باب میں حکومت بے قصور نہیں۔ ابتدائی چند ہفتوں کے بعد مگر اس کا طرزِ عمل متوازن رہالیکن گلگت اور حافظ آباد کے جلسے؟ ان سے زیادہ تاجر اور اپوزیشن ذمہ دار ہیں۔ چند ماہ کے لیے احتجاجی جلسے کیوں ملتوی نہیں ہو سکتے۔ بریانی کا پیکٹ کم از کم 200روپے کا ہوتا ہے۔ پانچ روپے کا ماسک کیوں نہیں؟ مچھلی بازار ہے، مچھلی بازار۔ اصول کی بات کوئی نہیں سنتا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز!
برادرم نعیم بخاری نے یہ کیا کہا کہ سرکاری ٹی وی پر اپوزیشن کا موقف سنایا نہیں جائے گا۔ بھائی، یہ تو پارٹی کے منشور میں لکھا ہے۔ زیادہ نہ سہی، کسی قدر اس کا اہتمام اب تک رہاہے۔ اتنا اور ایسا اگرچہ نہیں، جس کا پیمان تھا کہ بی بی سی کی طرح آزاد ماہرین کا بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ نعیم بخاری جری تو ہیں مگر جذباتی بھی۔ معاملے کو وہ سمجھ نہیں پائے، غور ہی فرمایا نہیں۔ پی ٹی وی اجڑا ہوا چمن ہے۔ بجلی برتنے والا ہر پاکستانی گھر جس کے لیے سو روپے ماہوار جرمانہ ادا کرتاہے۔ بائیس ہزار ملازمین میں سے اکثر ناکارہ۔ سکّہ حکومت نہیں، مافیا کا چلتاہے۔ انہیں یونین کہا جاتاہے۔ سفارشی بھرتیاں اور ترقی کا عجیب و غریب نظام۔ اتنا عجیب کہ ایک ٹائپسٹ لاہور پی ٹی وی کا جنرل مینیجر ہو گیا۔ اصل چیلنج تو یہ ہے۔ نظم و نسق کا قیام، خواہ اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے، خواہ سختی سے کام لینا پڑے۔
نعیم بخاری کی اللہ مدد کرے۔ یکسوئی اور وحدتِ فکر کا نام و نشان تک نہیں۔ تضادات ہی تضادات ہیں اور تضادات کا بوجھ اٹھا کر ساحل سے کبھی کوئی ہمکنار نہیں ہوتا۔