معروف یا غیر معروف، دانشور یا سیاستدان، ادیب یا شاعر، دہقان یا مزدور، کوئی زندگی چند الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔
سفینہ چاہئیے، اس بحرِ بیکراں کے لیے
پھر کبھی شاید، پھر کبھی۔
چوہدری انوار الحق چلے گئے۔ شعیب بن عزیز سے شکوہ کیا کہ اطلاع کیوں نہ دی؟ اس دن لاہور میں تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اب اس طرح سے پرہجوم جنازے نہیں ہوتے۔ انتقال کی خبر پا کر وہ خود بھی تدفین سے قبل مرحوم کے گھر پہنچے۔ دعا اور صبر کی تلقین کرکے لوٹ آئے۔
بات ابھی جاری تھی کہ شعیب کے لہجے میں نمی آگئی۔ کہا کہ مرحوم کا چہرہ نگاہوں میں گھوم رہا ہے۔ دو تین دن سے اپنا عالم بھی یہی ہے۔ چوہدری سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی، کچھ یاد نہیں۔ ڈی جی پی آر آفس میں شعیب بن عزیز کے سوا کسی سے ملاقات نہیں تھی۔ وہ بھی ان کی دفتری ذمہ داری کے طفیل نہیں۔ کبھی کبھار ان سے ملنے کے لیے دفتر جانا ہوتا۔ غالباً وہیں کہیں پہلی بار چوہدری صاحب سے ملنا ہوا اور ایسا کہ
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
ہمیشہ وہ محبوب اور محترم تھے۔ ایک بے حد سادہ اور قابلِ فہم آدمی۔ پیچیدہ نفسیات والے اس معاشرے کے برعکس، وہ ایک نہایت ہی آسان شخص تھے، جن سے بات کرنے کے لیے تمہید، تکلف اور تامل کی حاجت کبھی نہ تھی۔ سچ کی طرح سادہ ساآدمی۔ کبھی جھوٹ نہ بولتے۔ چوہدری کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ چیزوں کو جس طرح محسوس کرتے، ٹھیک ویسا ہی بیان کردیتے، ٹھیک ویسا ہی ردّعمل۔ انسانوں کے بارے میں تحفظات نہ پالتے، چنانچہ غیبت سے گریزاں۔ یہ نہیں کہ پارسا اور زاہد تھے مگر یقینی طور پر ایک نجیب آدمی۔
خیال کی رو اب بہکنے لگی ہے۔ دنیا میں ہر آدمی کتنا منفرد اور کتنا مختلف ہوتاہے۔ ہر آدمی پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہر ایک کی داستاں ہے، اگرچہ بہت کم داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔ چوہدری انوار الحق ہی کو دیکھیے۔ بلا کا غیظ و غضب اور کمال کی شفقت و کرم۔ 31برس ہوتے ہیں، رحیم یار خاں سے بہاولپور پہنچا کہ دوسری بس میں سوار ہو کر لاہور جا سکوں۔ قدرے بہتر بسوں کے اڈے پر، جنہیں فلائنگ کوچ کہا جاتا، ایک جانی پہچانی احتجاج کرتی آواز سنائی دی۔ قریب جا کر دیکھا تو چوہدری صاحب ہجوم میں گھرے کھڑے تھے۔ برہم، انکار پر تلے ہوئے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے۔ بس کا عملہ چوہدری صاحب کا بریف کیس کھولنے پہ مصر تھا اور وہ انکاری تھے۔
عرض کیا: چوہدری صاحب چھوڑیے بھی، اس میں کیا رکھا ہے۔ گمان ان کا یہ تھا کہ بسوں والے گنوار پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گنوار پن کا مظاہرہ نہ کریں تو اور بیچارے کیا کریں۔ ان کے سر پہ پولیس سوار رہتی ہے۔ جگہ جگہ روکتی ہے اور بھتہ وصول فرماتی ہے۔ پولیس والوں کے سر پہ اشرافیہ سوار۔ دن کو چین اور نہ رات کو آرام۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور صدیوں سے۔ علمائے کرام ہیں تو فقط واعظ۔ سیاسی لیڈر ہیں تو دعووں کے سوا جیب و داماں خالی۔ دانشور ہیں تواکثر سطحی اور کج فہم۔
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد
مودبانہ التجا سے چوہدری صاحب کو میں نے بریف کیس کھولنے پر آمادہ کر لیا یا شاید بس والوں نے میری بات مان لی۔ جھگڑا ختم ہوا تو وہ اپنی وہی بچوں والی مخصوص ہنسی ہنسے۔ چوہدری بڑا ہی سادہ اور معصوم آدمی تھا۔ صبح سویرے ایک ساتھ مزنگ میں اترے تو اچانک احساس ہوا کہ ان کی صاحبزادی بس ہی میں سوئی رہ گئیں، جو فراٹے بھرتی بہت آگے جا چکی تھی۔ حسبِ عادت چوہدری صاحب اپنے صاحبزادوں پہ بگڑے کہ یاد کیوں نہ دلایا۔ عرض کیا: چوہدری صاحب، یہاں میں ان بچوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ رکشہ لے کر جائیے اور بیٹی کو لے آئیے۔ حسبِ معمول کم سنوں ایسی سادگی کے ساتھ وہ مان گئے اور فوراً ہی روانہ ہو گئے۔
ایسی سادہ سی شخصیت کے بارے میں تاثر شاید یہ پیدا ہو کہ دفتری فرائض کی انجام دہی میں کوئی کرشمہ اور کمال اس کے بس کا نہیں ہوگا۔ بالکل برعکس چوہدری ایک بڑے ہی محنتی او رلائق آدمی تھے۔ انگریزی زبان پر ایسی دسترس کہ بہت سے لائق لوگ، بعض محکموں کے سیکرٹری تک، ان سے مشورہ کیا کرتے۔ ہر دیانت دار آدمی فرض شناس بھی ہوتا ہے۔ سرتاپا وہ مذہبی تھے اور قدامت پسند مذہبی۔ سر پہ قراقلی ٹوپی، چہرے پہ داڑھی لیکن عام مذہبی لوگوں کے برعکس کام میں جتے رہتے۔ مذہب ان کے لیے فرار نہیں، اطاعت کا راستہ تھا۔ اس رحمٰن و رحیم کی اطاعت کا، جس نے خیرہ کن تنوع کی یہ کائنات پیدا کی۔ جو اپنوں سے زیادہ اپنا ہے۔ جو آدمی کی رگِ جاں سے قریب تر ہے اور جسے جی میں بسا لیاجائے تو آخری تجزیے میں زندگی اتنی سہل ہو جاتی ہے، جیسے تازہ ہوا کا ایک جھونکا۔ جیسے چاندنی کے وفور میں ایک سیدھا ہموار راستہ۔ جو پیچیدگیاں مذہبی لوگوں میں پائی جاتی ہیں، وہ ادراک کی کمتری، سطحیت، فرقہ ورانہ اثرات سے پیدا ہونے والے ناقص تصورات، فی الجملہ مولوی صاحبان کی پیروی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
اہلِ علم سے فیض تو بڑی سعادت کی با ت ہے لیکن اہلِ علم ہی سے، مولوی صاحب سے نہیں۔ ان میں اکثر کو محض آموختہ یاد ہوتاہے۔ ان میں سے ایسے ہی کسی شخص سے مرحوم کا تعلق استوار ہوگیا۔ شعیب بن عزیز کے دروازے پر، جہاں صحن میں گلاب کے ہزاروں پھول کھلے رہتے ہیں، اچانک ملاقات ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح بچوں کے سے بھولپن سے کہا: ایک جلالی وظیفہ پڑ ھ رہا ہوں ، لہٰذا چمڑے کا جوتا نہیں پہن سکتا۔
بے تکلفی تھی، عرض کیا: چوہدری تمہارا پیر کوئی پاگل آدمی ہے۔ کوئی وظیفہ جلالی نہیں ہوتا۔ بندوں پہ رحم و کرم کو مالک نے لازم رکھا ہے۔ وہ رحیم وہ کریم ہے، مہربان اور مشفق۔ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔ جلال انکار کرنے والوں کے لیے ہے۔ اس کا نزول ان احمقوں پر ہوگا، جو یہ نہ سمجھ سکے کہ اربوں کھربوں نازک توازنوں پہ قائم نازک حیات کا کوئی خالق بھی ہونا چاہئیے۔ حسبِ معمول چوہدری صاحب ہنس دیے۔
بغض و عناد نام کی کوئی چیز چوہدری کے سینے میں نہیں تھی۔ شیشے کی طرح صاف دل۔ ایک نجات پایا ہوا آدمی۔ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی وہ بھڑک اٹھتے اور بھڑکتے تو شعلے کی طرح۔ معروف یا غیر معروف، دانشور یا سیاستدان، ادیب یا شاعر، دہقان یا مزدور، کوئی زندگی چند الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔
سفینہ چاہئیے، اس بحرِ بیکراں کے لیے
پھر کبھی شاید، پھر کبھی۔