دیوانے ہو رہے ہیں، تقریباًسب لیڈر دیوانے۔ بہت شکست و ریخت ہوگی، بہت ٹوٹ پھوٹ۔
کئی دن سے اطلاع یہ ہے کہ نواز شریف کی بھارت نوازی سے جنرل عبد القادر ناخوش ہیں۔ اگرچہ؛ تصدیق نہ ہو سکی مگر تردید بھی نہیں۔ ایک لیگی لیڈر نے کہا:وہ تو محض کوئٹہ کے جلسے میں ثناء اللہ زہری کو موقع نہ دینے پر ناراض ہیں۔ ثناء اللہ زہری کو اس لیے نہ بلایا جا سکا کہ اختر مینگل یہ گوارا نہ کرتے۔ سوال یہ ہے کہ خود جنرل صاحب کیوں بات نہیں کرتے۔ کیا یہ افتخار عارف کا سا معاملہ ہے؟
حرفِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
کیا جنرل صاحب پر دونوں طرف سے دباؤ ہے۔ کیا نون لیگ نے منت سماجت کی ہے۔ کیا ان کے اندر کا فوجی جاگ اٹھا ہے؟ کیا کسی نے سمجھایا کہ حب الوطنی کو لیڈری پہ ترجیح دینی چاہئیے۔
ایاز صادق کے حلقے میں اضطراب ہے۔ میڈیا نے ان کے موقف کو مسترد کر دیا۔ غداری کا الزام انتہا پسندی ہے۔ اس لیے کہ وہ بھارت کے مخبر تو نہیں۔ محض شخصیت پرست ہیں اور احکامات بجا لانے والے۔ ان کے لیڈر پہ پاگل پن طاری ہے اور سابق سپیکر کو ان کی خوشنودی عزیز۔ غیر ذمہ داری کی حد کر دی۔ ایک تو احمقانہ بیان دیا۔ پھر مولانا فضل الرحمٰن سے ملے اورا س کے بعد یہ کہا کہ اپنے موقف پر وہ قائم ہیں۔ الیکشن جیتنا تو کجا، شاید لڑنا بھی اب آسان نہ ہو۔ بعض کا دعویٰ تو یہ ہے کہ کچھ انڈے اور ٹماٹر بھی ان کے حصے میں آئیں گے۔
جمیل شرقپوری ہی نہیں، نون لیگ کے اور لیڈر بھی ناراض ہیں۔ ان میں سے بعض نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا اور کچھ نے کھلم کھلا نواز شریف کی مذمت کی۔ ان میں سے بعض کے بیانات چھپ چکے۔ بعض کے آج کے اخبارات میں ہیں۔
وحدتِ فکر تمام ہوئی۔ پارٹی کے بہت سے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ صبر اور مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ جاتی عمرا کے وفادار ہیں، شاہد خاقان عباسی نے کھل کر کہہ دیا کہ فوجی قیادت سے بات ہونی چاہئیے۔ آسان الفاظ میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان کا لیڈر حماقت پہ تلا ہے۔ عمران خان سے خاقان صاحب ناراض ہیں لیکن اپنے لیڈر کے طرزِ عمل سے متفق بہرحال نہیں۔ اظہار کریں یا نہ کریں، خواجہ آصف بھی اسی نکتہء نظر کے حامی ہیں۔
احسن اقبال بیچارہ قسم کا آدمی ہے، بچہ جمورا۔ ریموٹ سے چلنے والا کھلونا۔ نہایت تابعدار اور کمزور۔ 1985ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تو ہزار پندرہ سو ووٹ لیے تھے۔ ان لوگوں میں سے ایک، جو طاقتور ہوں تو گریبان پکڑتے ہیں، کمزور ہوں تو پاؤں۔ بارہ اکتوبر 1999ء کی شب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نواز شریف پہ انہوں نے تنقید کی تھی۔ عمران خان نوجوانوں میں مقبول ہوئے تو مفت میں کمپیوٹر بانٹنے کی تجویز اسی بزرجمہر نے پیش کی تھی۔ اس کے لیے چار ارب روپے سکولوں اور کالجوں کے بجٹ سے نکالے گئے۔ ان کے بھائی کو بہت سے ٹھیکے دیے گئے، جو پودے اور پھول بیچتے ہیں۔ اپنے برادرِ خورد کے لیے لارنس گارڈن میں کئی ایکڑ زمین وہ مانگ رہے تھے کہ گل کاری کے لیے ریسرچ کی جائے۔ ایاز امیر نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
نیک نام ذوالفقار چیمہ سے اخبار نویس پوچھیں کہ گوجرانوالہ میں تعینات تھے تو نارووال میں اپنی پسند کے پولیس افسر لگوانے کے لیے کیا ان کی منت سماجت نہ کیا کرتے؟ عارف نظامی کے اخبار میں خبر چھپی تھی کہ اپنے حلقے میں اشتہاری غنڈوں کو پناہ دیتے اور ان کے تعاون سے انتخابی فتح ممکن بناتے ہیں۔
بعض الزامات میں مبالغہ ہو سکتاہے لیکن ایسے وہ بہرحال نہیں، جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ نارووال میں تین ارب سے سپورٹس کمپلیکس بنانے کی کیا سوجھی تھی؟ قوم کا پیسہ اس طرح کیوں برباد کرتے رہے؟ اب روتے پھر تے ہیں کہ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ نواز شریف کے ہر مضحکہ خیز بیان کی توجیہہ کرتے ہیں۔ کوئی ان کی سنتاہے نہ مانتاہے۔ لہجہ اور انداز شریفانہ سہی مگر غلط بیانی کے مرتکب وہ بہرحال ہیں۔ خاندان اچھا سہی مگر بھکاری ہیں۔
ایاز صادق کے معاملے میں طرفہ تماشہ یہ کہ وضاحت کی ذمہ داری رانا ثناء اللہ کو سونپی گئی، جو فوج سے بغض رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کی طرح ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، بہت زیادتی۔ یہ مگر جنرل کا فیصلہ تھا، فوج کا نہیں۔ آج کی فوج کاتو بالکل ہی نہیں۔ ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے جس نے سات ہزار زندگیاں قربان کی ہیں۔ صرف جوان نہیں، لگ بھگ ایک ہزار افسر بھی۔ جس نے ملک کو لیبیا، عراق، شام اور افغانستان بننے سے بچا لیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور عالمِ دین مولانا محمد قاسم ان کے خلاف اٹھے ہیں اور پورے قد سے کھڑے ہیں۔ انہی کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک سوال پوچھتے ہیں اور بار بار پوچھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا مریم نواز کے ساتھ انہیں تشریف فرما ہونا چاہئیے؟ شریعت میں کیا یہ جائز اور طیب ہے یا مکروہ؟
پی ٹی آئی کے دھرنے میں خواتین کے جھومنے پر مولانا کو اعتراض تھا۔ ان کا اعتراض سوفیصد درست تھا مگر لہجہ غلط۔ وہ اسے"مجرا" کہا کرتے۔ یہ معقول خاندانوں کی نا سمجھ خواتین ہیں، مغرب سے مرعوب اور متاثر۔ حرکتیں ان کی ناروا تھیں۔
اکبر الہ آ بادی نے کہا تھا:کل چند بیبیاں مجھے بے پردہ نظر آئیں۔ ان سے پوچھا، تمہارے پردے کو کیا ہوا؟ انہوں نے کہا ع
عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
یہ پاکستانی ثقافت نہیں کہ خواتین جلسوں میں ناچیں۔ کراچی کے جلسہء عام میں، جہاں مولانا تشریف فرما تھے، لیاری سے تعلق رکھنے والی پیپلزپارٹی کی خواتین کا ٹھیک وہی انداز تھا۔ اسی طرح وہ جھومتی رہیں۔ مولانا قاسم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ روا ہے؟ کہا جاتاہے کہ مولانا محمد خاں شیرانی بھی نا خوش ہیں۔
خیر، یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کہ شاد ہیں یا ناشاد۔ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرا م میں حافظ حسین احمد نے چیخ کر کہہ دیا کہ نواز شریف کا اندازِ فکر قابلِ قبول نہیں۔ اپنے لہجے کو متوازن رکھا اور یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے لوگوں کو پالتی ہے۔ نواز شریف کی مگر صاف الفاظ میں مذمت کی۔
عید شبرات عمران خان کا خاندان میاں میرؒ کے مزار پر جایا کرتا۔ ایاز صادق سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن بھی تشریف لے گئے۔ دعا کی: یا اللہ مجھے یا نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنا دے۔ ایک نون لیگی کارکن نے کہا: مولانا اللہ سے التجا کیجیے کہ عمران خاں کو کچھ ہو جائے۔ فرمایا: ہاں اسے کچھ ہوگا تو بات بنے گی۔
غیر ذمہ دارانہ بیانات میں شیخ رشید اور فواد چوہدری بھی کم نہیں۔ دیوانے ہو رہے ہیں، تقریباًسب لیڈر دیوانے۔ بہت شکست و ریخت ہوگی، بہت ٹوٹ پھوٹ۔