اقتدار آج ہے، کل نہیں ہوگا۔ پھر کیا ہوگا؟
اسحق خاکوانی غیر معمولی سوجھ بوجھ اور توازن کے آدمی ہیں۔ کبھی کسی کو صدمہ پہنچے تو اخبا رنویسوں میں سے کسی کو پیغام بھیجتے ہیں۔ آج دو کلپ انہوں نے ارسال کیے اور لکھا: ہو سکے تو دادرسی کے لیے کسی سے بات کرو۔ صرف تحریکِ انصاف ہی نہیں، خاکوانی ملک کے بہترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ آدمی، جس کے وعدے پر اعتبار کیا جا سکتاہے اور ہمیشہ جس سے شائستگی کی امید کی جاتی ہے۔ بے تکلفی ہے؛چنانچہ جب وہ بات کررہے تھے تو مزاحاً کہا: آپ خاکوانی قبیلے کے لوگ دانا بہت ہیں۔ بولے: آپ جانتے نہیں، بلوچ ہم سے کہیں زیادہ سیانے ہوتے ہیں۔
یہ تونسہ کے بیرسٹر امام قیصرانی کے کلپ تھے۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ ایک قبضہ گروپ نے مقامی ڈی ایس پی سعادت علی چوہان کی قیادت میں تین تھانوں عملے کی یلغار سے ان کی زمین پر قبضے کی کوشش کی۔ دریائے سندھ کے کنارے موضع جاڑاں میں۔ یہ وراثتی رقبہ ہے، جوامام قیصرانی کے نانا نے ان کی والدہ کو عطا کیا تھا۔ کیسے اچھے لوگ، جو بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دیتے ہیں۔
لندن سے قانون کا امتحان پاس کرنے والے قیصرانی اگلے دن عدالت میں چلے گئے۔ ستم بالائے ستم پر انہوں نے دہائی دی کہ نہ صرف ان کی جائیداد نوچ کھانے کی کوشش کی گئی بلکہ انہی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ایک مضحکہ خیز مقدمہ۔ مجسٹریٹ نے ان کے موقف کو تسلیم کیا تو پولیس نے ملتان ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتِ عالیہ نے مجسٹریٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
افسوسناک واقعہ پندرہ مئی کو رونما ہو اتھا۔ عدالتی حکم کے باوجود پچھلے ہفتے ایک بار پھر پولیس اس زرخیز زمین پہ چڑھ دوڑی، جہاں گیہوں اور کپاس کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ دریائے سندھ کی موجیں جہاں ہر برس نئی زرخیز مٹی لا ڈالتی ہیں۔ بوڑھی زمین کو جوانی عطا کرتی ہیں۔ بیرسٹر امام قیصرانی نے وزیرِ اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔ ان پر اعتماد کااظہار کیا اور یہ کہا کہ اس طرح کی چیزوں کے نتائج کو وہ سمجھ سکتے ہیں۔
عثمان بزدار تو جو کریں سو کریں گے لیکن تونسہ سے ملنے والی اطلاعات افسوسناک ہیں۔ اقتدار کی بو پا کر بہت سے لوگ دیوانے ہو گئے ہیں۔ ان میں خود اس چھوٹے سے قبیلے کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اصلاً زرداریوں کی طرح جو بلوچ نہیں، جاٹ ہیں۔ صدیوں پہلے جو دریا کنارے جا بسے تھے۔ افغانستان، بلوچستان، کشمیر اور پختون خواکے بعض پہاڑی علاقوں سے ہجرت ہمیشہ ہوتی آئی ہے۔ سندھ اور گنگا جمنا کی صحر انگیز وادیوں اور میدانوں میں۔ سکندرِ اعظم سے اہلِ فرنگ تک، ہزاروں برس سے سونا اگلتی سرزمین پہ غیر ملکیوں کی نظر بھی رہی۔
تونسہ میں غدر برپا ہے، کچھ بزدارقبیلے کے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ اب یہاں ایک لمحے کو رکتا ہوں۔ تونسہ کا ایک مرحوم دوست یاد آیا۔ خواجہ کمال الدین انور۔ میرے عزیز دوستوں منظور خاں مرحوم اور لیاقت بلوچ کے ہم نفس۔ 1985ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر وہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے تو بہت سی شامیں ہم نے ایک ساتھ بسر کیں۔ ان دلآویز دنوں کی یاد آج بھی قلب و روح میں جگمگاتی ہے۔
خواجہ ان لوگوں میں سے ایک تھا، بائبل جنہیں زمین کا نمک کہتی ہے۔ جب وہ اس مشہور گدّی کا سجادہ نشین ہوا تو اپنے مریدوں سے اس نے خطاب کیا۔ یہ صرف چار الفاظ پہ مشتمل تھا "نذرانے بند، لنگر جاری۔" 1988ء میں خواجہ دوسری بار منتخب ہوااو رغالباً پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر۔ مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے شیرِ پنجاب بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں شامل تھے۔ قومی اسمبلی میں بے نظیر کے خلاف عدمِ اعتماد کی قرار داد پیش کی جانے والی تھی۔ ایک عرب ملک اور اسامہ بن لادن نے جس کے لیے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ ایک کروڑ روپے ہوائی جہاز میں لاد کر شیرِ پنجاب تونسہ پہنچے۔ خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے انکار کردیا۔ لیاقت بلوچ نے بتایا تو تفصیل کے لیے تجسس ہوا۔ خواجہ کمال الدین انور سے کریدنے کی کوشش کی تو ہمیشہ کی طرح طرح دیتے گئے: بس بھائی، انکار کر دیا۔ میں نے کہا: خواجہ اس موقع پر آدم زاد کچھ الفاظ استعمال کیا کرتے ہیں۔ تم نے کہا کیا تھا: مجبوراً اپنا جملہ اس نے بتایا۔ یہ چار الفا ظ پر مشتمل تھا "شیر لڑھ نہ مار"۔ سرائیکی میں ایسے موقع پر اس سے زیادہ بلیغ جملہ شاید ہی کبھی کہا جا سکتا۔ اس کا ترجمہ یہ بھی ہے کہ فضول بات نہ کرومگر اس لفظ "لڑھ"کی اور جہات بھی ہیں۔ واہیات اندازِ فکر، احمقانہ گفتگو اور خرافات۔
1988ء میں اسلام آباد سے بچھڑے خواجہ سے اگلی ملاقات 1995ء کے مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں پاکستان کرائے کی عمارتوں کا تیسرا بڑا گاہک ہوتاہے؛لہٰذا عرب پاکستانیوں کی طرف لپکتے ہیں۔ فیصلہ ساز کمیٹی کے چئیرمین خواجہ صاحب تھے۔ ایک عرب سفارش کے لیے میرے پاس آیا۔ اس عرب کے سرائیکی نمائندے کو ساتھ لے کر جو مدینہ میں ہی پیدا ہوا تھا، میں خواجہ کے ہاں پہنچا۔ خواجہ کا جواب ویسا ہی تھا، جیسا کہ ہونا چاہئیے تھا۔ تین الفاظ پر مشتمل "لالہ!میرٹ پر"
یاد نہیں کہ انہی دنوں یا اگلے برس خواجہ کو میں نے گنبدِ خضریٰ کے سائے میں دیکھا۔ لپک کر اس کی طرف گیا اور بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ گم صم۔ حیرت ہوئی اور بہت ہی حیرت۔ اس لیے کہ خواجہ ایک وضع دار آدمی تھا۔ بعد میں غور کیا تو نکتہ کھلا: بے ادبی سمجھتا تھا۔ گنبدِ خضریٰ کے قریں بات چیت کو وہ بے ادبی سمجھتا تھا۔
ایک دن خبر آئی کہ خواجہ چلے گئے۔ وہیں، سرزمینِ حجاز میں ہی دفن ہوئے۔ زندگی گزاری تو یہ مقدس خاک نصیب ہوئی۔ بہت دن بعد ایک دن مسجد کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے جیسے خواجہ کی آواز سنی "لالہ تو میکوں بھل گئیں "۔ میرے بھائی کیا تو مجھے بھول گیا۔ کتنے بے شمار لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوں گے۔
انسانی کردار کے حسن و قبح کا تعلق علاقوں، قوموں اور قبیلوں سے نہیں ہوتا۔ آدمی کا اخلاقی پیکر ایک شخصی چیز ہے۔ تونسہ میں اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی۔ عثمان بزدار خواجہ کمال الدین انور نہیں بن سکتے تو تھوڑے سے انصاف پسند بننے کی کوشش تو کریں۔ اقتدار آج ہے، کل نہیں ہوگا۔ پھر کیا ہوگا؟