Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. PTI Ke Androoni Jhagre

PTI Ke Androoni Jhagre

اندرونی اختلافات ہر پارٹی میں ہوتے ہیں۔ شخصیات کا تصادم بھی۔ عمران خان ان جھگڑوں کو نمٹا نہ سکے۔ بظاہر دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان معاملا ت میں وہ ایک بے نیاز آدمی ہیں۔ ثانیاً پارٹی ان کے لیے پارٹی نہیں بلکہ حصولِ اقتدار کا ایک ذریعہ تھا۔ اس کی تنظیم کے لیے پوری طرح کبھی وہ سنجیدہ نہ ہوئے۔

فواد چودھری کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کی بے عملی کا سبب پارٹی کے اندرونی جھگڑے رہے۔ خاص طور پر جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات۔ اسد عمر نے ایک دن فون سننے میں تاخیر کی تو ازراہِ مذاق ان سے پوچھا: کس نے آپ کو سیاست میں آنے کا مشورہ دیا تھا کہ جنجال میں پڑیں۔ وہ ہمیشہ کی آسودہ ہنسی ہنسے اور کہا: میں بلا کر لایا گیا ہوں بلکہ عمران خان دھکیل کر لائے۔ کہا: عمران خان کے کہنے پر آپ سیاست میں آگئے؟ قہقہہ برسایا اور بولے: میں نے سنا تھا کہ آپ کا دوست ہے۔ برسوں وہ تامل کا شکار رہے۔ ایسے موقع پر عمران خان کہا کرتے ہیں : اپنا وقت ضائع کرو اور نہ میرا، بس اب فیصلہ کر چکو۔

اسدعمر جھگڑے پالنے اور شخصی تصادم پیدا کرنے والے نہیں۔ چھیڑا نہ جائے تو کبھی نہیں الجھتے۔ بتدریج ان کے لہجے میں جو سختی آئی ہے، وہ ماحول کی عطا ہے۔ شاہ محمود ٹیم کے ساتھ کھیلنے والے کھلاڑی نہیں۔ ذاتی ترجیحات کے آدمی ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر مجمع جما کر پارٹی میں شمولیت کا اہتمام کرنے والے آدمی نے ماروی میمن کو سٹیج پر آنے سے روک دیا تھاورنہ اسی دن وہ پی ٹی آئی کا حصہ بن جاتیں۔

جاوید ہاشمی کی آمد پر وہ قلق کا شکار تھے۔ عمران خان ہاشمی کے اس قدر آرزومند تھے کہ ملتان گئے تو ان کے گھر جا پہنچے۔ ملازموں سے کہا: ان کے واپس آنے تک میں یہیں بیٹھا ہوں۔ ظاہر ہے کہ موصوف مجبور ہو گئے وگرنہ تامل کا شکار تھے۔ چند دن بعد کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہء عام تھا۔ لاہور کا تاریخی اجتماع ہو چکا تھا۔ مقبولیت کی ایک لہر اٹھی اور پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو پیغام دے چکی تھی کہ شہر میں فساد نہ ہونا چاہئیے۔ کراچی کے شہریوں سے رابطہ عمران خان کا حق ہے۔ طے یہ پایا کہ جاوید ہاشمی کراچی پہنچیں تو ہوائی اڈے پر عمران خان ذاتی طور پر استقبال کریں گے۔ شاہ محمود شدید صدمے کا شکار تھے۔ عمران خان کی منت سماجت کرتے رہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ التجا کرتے وہ بچوں کی طرح روپڑے مگر لیڈر کو وعدہ نبھانا تھا۔

شاہ محمود حفیظ اللہ نیازی کے توسط سے پی ٹی آئی کا حصہ بنے تھے۔ شرط یہ تھی کہ جلسوں میں وہ عمران خان سے فوراً پہلے تقریر کیا کریں گے، یعنی پارٹی کے دوسرے اہم ترین لیڈر ہوں گے۔ عمران سے پہلے نواز شریف سے انہوں نے مذاکرات کیے مگر معاملہ طے نہ پا سکا تھا۔

جاوید ہاشمی حفیظ اللہ کے ساتھ کراچی پہنچے تو جلسہ گاہ کا رخ نہ کیا۔ حفیظ اللہ کا اصرار تھا کہ کم از کم آج کے دن عمران خان سے پہلے جاوید ہاشمی خطاب کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ جاوید ہاشمی کا دن تھا مگر شاہ محمود ڈٹے رہے۔ سٹیج پر بے چینی پھیل رہی تھی۔ حفیظ اللہ سے بات کی، وہ برہم تھا۔۔ عمران سے گزارش کی کہ آج کے دن کا استثنیٰ پیدا کیا جائے۔ اس کا جواب یہ تھا:میں وعدہ کر چکا۔ مسلمان کی زبان ہی سب کچھ ہوتی ہے۔

جاوید ہاشمی آخر کار آپہنچے اور جوش و خروش سے بھرے ہجوم نے ان کا والہانہ استقبال کیا لیکن مرغے کی وہی ایک ٹانگ۔ جاوید ہاشمی کو شاہ محمود سے پہلے تقریر کرنا پڑی۔ اگلی شام ملتان واپس پہنچنے پر اس کہانی کا کچھ حصہ میں نے کاشف عباسی کو سنا دیا، جس پر وہ حیرت زدہ تھے۔ عرض کیا کہ رتّی برابر بھی اس میں مبالغہ نہیں۔

جاوید ہاشمی کی ذاتی کمزوریا ں انہیں نون لیگ میں واپس لے گئیں۔ شریف خاندان نے جو سلوک ان سے کیا، وہ عبرت انگیز ہے۔ معاف کرنا نواز شریف کے خمیر میں نہیں۔ ویسے تو عمران خان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس سلسلے کے بعض عجیب و غریب واقعات ہیں۔ لکھ دیتا لیکن کراہت ہوتی ہے۔ احسن رشید مرحوم ایسے فرشتہ سمیت اپنے بہترین دوستوں کے باب میں بعض اوقات وہ بہت بے رحم ثابت ہوا۔ احسن رشید کو عملاً تو کوئی نقصان نہ پہنچایا مگر دوستوں کے حلقے میں انہیں احمق قرار دیتے رہے۔ احمق نہیں، وہ ایک دانا آدمی تھے۔ ایثار، نجابت اور سادگی کا پیکر۔

شوکت خانم ہسپتال ہو، بلوچستان کا قحط یا کشمیر کا زلزلہ۔ کوئی فلاحی ادارہ ہو یا حاجت مند فرد۔ اس فیاضی کا احسن رشید مظاہرہ کرتے کہ دیکھنے ولا دنگ رہ جاتا۔ لاہور میں سستی روٹی کے تنور انہی نے کھولے تھے۔ جہاں چپاتی تین کی بجائے دو روپے میں ملتی۔ پریشان ہو کر شہباز شریف نے سستی روٹی سکیم شروع کی اور اربوں روپے ڈبو دیے؛حالانکہ احسن رشید کے پیشِ نظر سیاست ہرگز نہ تھی۔ ان کی مٹی ایثار سے گوندھی گئی تھی۔ ایسا آدمی، اللہ کی کتاب جن کے بارے میں کہتی ہے: کھلے اور چھپے، دن رات وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھرخوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ احسن رشید کی یاد آتی ہے تو دل دکھتاہے۔ ایسا آدمی اٹھتا ہے تو زمین خالی خالی سی لگتی ہے۔ آج لیکن یہ سطور لکھتے ہوئے سوچتا ہوں: اچھا ہو ا کہ جنتی آدمی اپنے پروردگار کے ٹھنڈے سائے میں چلا گیا۔ یہ دن دیکھنے کو حساس آدمی زندہ نہ رہا۔ کوئی موت بے وقت نہیں ہوتی۔ آج جو کچھ برپا ہے، احسن دیکھتے تو ان کا دل دکھتا رہتا۔

جہانگیر ترین براہِ راست پارٹی میں شامل ہونے کے خواہاں نہیں تھے۔ پندرہ بیس سابق سینیٹرز اور ارکانِ اسمبلی کا ایک گروپ انہوں نے تشکیل دیا تھا۔ عمران خان کے ساتھ وہ ایک معاہدے (Alliance) کے آرزومند تھے۔ سابق ایم این اے، گوجرانوالہ کے کرنل سرورچیمہ مرحوم اور اس عاجز نے ان سے کہا کہ عملی سیاست کے نقطہء نظر سے یہ دانشمندی نہیں۔ آخر کار وہ مان گئے۔ فاروق لغاری مرحوم کے فرزندوں سمیت پورا گروپ مان گیا۔ پھر تو عمران خان جہانگیر پہ ایسے ریجھے کہ شاید ہی ایسے قائل کسی کے ہوئے ہوں۔ پانی کی طرح انہوں نے پیسہ بہایا۔ جو محاذ سونپا، اس پر انہوں نے جان لڑا دی۔ اسٹیبلشمنٹ سے طویل طویل مذاکرات کیے۔ اس زمانے میں عمران خان کہا کرتے تھے "جہانگیر ترین ایک سپیشل آدمی ہے" خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہ ان کا مخصوص لفظ ہے۔

اندرونی اختلافات ہر پارٹی میں ہوتے ہیں۔ شخصیات کا تصادم بھی۔ عمران خان ان جھگڑوں کو نمٹا نہ سکے۔ بظاہر دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان معاملا ت میں وہ ایک بے نیاز آدمی ہیں۔ ثانیاً پارٹی ان کے لیے پارٹی نہیں بلکہ حصولِ اقتدار کا ایک ذریعہ تھا۔ اس کی تنظیم کے لیے پوری طرح کبھی وہ سنجیدہ نہ ہوئے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.