ڈرامہ تو محض ایک علامت ہے۔ ابھی بہت کچھ رونما ہونا ہے۔ بہت سے خیرہ کن واقعات۔
فروغِ اسمِ محمدﷺ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
ترک ڈرامہ اب محض ایک ڈرامہ نہیں بلکہ پاکستانی تاریخ کا ایک سنگِ میل ہے۔ ممتاز تمثیل نگار خلیل الرحمٰن قمر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسی ہی ایک شاندار داستان فلمانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ انہیں توفیق ارزاں کرے۔ اپنے جلال کو وہ کچھ دن تھامے رکھیں۔ پاکستانی قوم کے مزاج اور نفسیات پر اس واقعے نے گہرے اثرات مرتب کیے اور یہ باقی رہیں گے۔ کچھ اختلافی آرا بھی ابھری ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر منمناتی ہوئی۔ مثلاً ایک ممتاز مدرسے نے اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ نفیسہ شاہ نے قوم کو تلقین کی کہ ہیرو مقامی ہونے چاہئییں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نفیسہ شاہ کے آباؤ اجداد سرزمینِ عرب سے آئے تھے۔
پاکستان مہاجروں کا ملک ہے۔ قدیم آبادی برائے نام ہے۔ کچھ وسطی ایشیا سے آئے، کچھ سرزمینِ عرب، ایران اور افغانستان سے۔ اللہ کی زمین پہ ہجرت کے سلسلے ہمیشہ جاری رہتے ہیں۔ تلاشِ رزق میں کبھی اور کبھی اقوام کی باہمی کشمکش میں۔ عالمِ عرب اور ایران سے بہت سے مسلمانوں نے تاتاریوں کی یلغار کے ہنگام ہجرت کی۔ اسی کے نتیجے میں ہزاروں اہلِ علم مسلم بر صغیر کا حصہ بنے، جن کی بدولت حدیث کا علم پھلا پھولا۔ ان سرزمین کو رونق بخشنے والے ممتاز ترین لوگوں میں صوفیا اور اصحابِ رسولﷺ بھی شامل ہیں۔
پچھلے دنوں سے جاری بحث میں یہ بات ثابت ہوئی کہ محمد بن قاسم سے پہلے بھی بعض اصحابِ رسولﷺ نے اس سرزمین کو عزت بخشی۔ پاکستان اگر مسلم اکثریت کا وطن ہے تو دوتاریخ ساز واقعات کے طفیل۔ ایک راجہ داہر سے عالمِ عرب کی کشمکش، جس کے نتیجے میں دو اڑھائی سو سال تک سندھ میں عرب حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ ایک ڈیڑھ صدی کے وقفے سے پھر محمود غزنوی کی یلغار۔ انگریز مورخین کے نکتہء نظر سے تاریخ کے ان ابواب کا مطالعہ کرنے والے کچھ ہی کہیں، واقعہ بس یہ ہے کہ لاہور سے آنند پال اور راج پال کے لشکر غزنی کی سلطنت پہ یلغار کیا کرتے۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔ اس لیے کہ ذرائع آمدن زراعت، گلہ بانی، جہاز سازی اور پارچہ بافی تک محدود تھے اور ان سب فنون میں بر صغیر مالا مال تھا۔
غزنی میں سبتگین کی ایک چھوٹی سی سلطنت تھی، جسے شمال سے خطرہ لاحق رہتا اور جنوب سے بھی۔ پھر ایسا ہوا کہ محمود غزنوی ایسا فاتح اٹھا۔ ایک نہیں، سترہ بار اس نے ہندوستان کو تاراج کر دیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نے ہندو ستانی سامراج کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ لاہور میں اپنا گورنر اس نے بٹھا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس خطے میں اسلام پھیلنے لگا لیکن یہ فوج نہیں شیخِ ہجویرؒ اور ان کے نور سے فیض پانے والوں کے طفیل تھا۔
مقامی اور غیر مقامی کی بحث سطحی اور احمقانہ ہے۔ مسلمان ایک امّت ہیں اور ہمیشہ ایک امت رہیں گے۔ قومی ریاستوں کے تقاضے مختلف ہیں اور مفادات بھی۔ سرکارﷺ کا فرمان مگر یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ جسدِ واحد کی مانند ہیں۔ جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارے بدن کو پہنچے گی۔۔ اورسرکارﷺ کا فرمان ہی اصل فرمان ہے، باقی بتانِ آذری۔
ترک ڈراموں پہ قوم اس طرح ٹوٹ کر کیوں گری ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مغربی، بھارتی اور پاکستانی فلمیں دھندلا گئیں۔ اس لیے کہ بیان کی گئی داستان میں عظمتِ رفتہ کی جھلک ہے۔ اس زمانے کی بازگشت، جب ہم دنیا پہ حکومت کیا کرتے تھے۔ جب ترک حکمران ٹہلتے ہوئے آسٹریا اور ہنگری تک چلے جایا کرتے۔ جب تین بر اعظموں پہ ترکوں نے حکومت کی اور اس شان کے ساتھ کہ کوئی اس کا مدمقابل نہیں تھا۔
پروردگار نے عربوں کے بعد ترک قبائل ہی کو اتنا عروج کیوں بخشا؟ محمود غزنوی، الپ ارسلان اور اس کے بعد عثمانی ترک۔ سرکارﷺ کے ایک فرمان میں شاید یہ اشارہ پوشیدہ ہے۔ فرمایا: ہند کے مسلمان پہلے ہندوستان کے مشرکین کو شکست دیں گے پھر ابنِ مریمؑ کے ساتھ مل کر دمشق میں یہودیوں کا مقابلہ۔ احادیث میں یہ بشارت بھی ہے کہ ترک ان سے آملیں گے یعنی مسلم برصغیر کی سپاہ سے۔ یہ پاکستانی فوج کے سوا اورکوئی نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ چودہ سو برس پہلے آپﷺ نے جب یہ ارشاد کیا تو ہنداور ترک قبائل میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ آپﷺ کی ہر پیش گوئی کو مگر پورا ہونا تھا۔ قرآنِ کریم میں فرمان یہ ہے: وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحیٰ۔ اپنی آرزو سے وہ کچھ نہیں کہتے مگر وہی، جو ان پر نازل کیا جاتاہے۔
منکرینِ حدیث کی بات دوسری ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ سرکارﷺ کی سب پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔ روم اور ایران کی تسخیر، پھر ڈھالوں کے چہرے والے یعنی تاتاریوں کی بھی۔ وسطی ایشیا کے سب ممالک، ایران، عراق اور بلا دالشام کو روندتے ہوئے تاتاری جب دمشق کے دروازے تک جا پہنچے تھے۔ جب عباسی سلطنت کی جڑیں انہوں نے کھود ڈالی تھیں۔ مسلمانوں کے لہو سے دریا جب سرخ ہو گئے تھے تو کون کہہ سکتا تھا کہ رحمتہ اللعالمینﷺ کی پیش گوئی پوری ہو کر رہیگی۔ کوّے کو سفید کہنے والوں کا کوئی علاج نہیں۔ ضد پالنے والوں کا کوئی علاج نہیں۔ ملّا کو سمجھایا جا سکتاہے اور نہ الحاد کی تحریکوں سے متاثر ہونے والے مرعوبین کو، جواترسوں کیمو نسٹ تھے، پرسوں سوشلسٹ، کل سیکولر اور آج لبرل۔
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
مصطفی کمال ان داناؤں میں سے ایک تھا، جو یہ سمجھتے تھے کہ اسلام قصہء پارینہ ہوا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کی عنان اب مغرب کے ہاتھ میں رہے گی۔ اپنے ماضی سے رشتہ اس نے توڑ ڈالا۔ رسم الخط بدل دیا۔ اذان اور دینی تعلیم پر پابندی عائد کر دی۔ کب تک مگر کب تک؟ انسانی فطرت کوبدلا جا سکتاہے اور نہ ایک قوم کے اجتماعی مزاج کو۔ 70برس کیمونسٹوں نے وسطی ایشیا کے مسلمانوں پر حکومت کی مگر بالآخر وہ ڈھے پڑے۔ مصطفی کمال ایک عظیم جنرل تھا، یورپ کی متحدہ افواج کو اس نے شکست دی مگر ذہناً مرعوب، ذہناً غلام۔
ترک معاشرے کو بدل ڈالنے کے کمالی خواب کی دھجیاں آج فضائے بسیط میں بکھر رہی ہیں۔ ترکوں نے خود کو از سرِ نو دریافت کر لیا ہے۔ اردوان ہو ں یا نہ ہوں، فکرکے اس کارواں کو اب روکا نہیں جا سکتا۔ انشاء اللہ یہی کچھ پاکستان میں ہوگا۔ قائدِ اعظمؒ اور اقبالؒ کے پاکستان پر ہمیشہ بدعنوان شریفوں، زرداریوں اور کنفیوژن کے مارے عمرانوں کی حکومت نہیں رہے گی۔ ترکیہ اور پاکستان کی ایک مشترک منور تقدیر ہے اور لازماً اسے بروئے کار آنا ہے۔ ڈرامہ تو محض ایک علامت ہے۔ ابھی بہت کچھ رونما ہونا ہے۔ بہت سے خیرہ کن واقعات۔
فروغِ اسمِ محمدﷺ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو