قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اللہ کے قوانین ہیں اور کبھی تم انہیں بدلتا ہوا نہ پاؤگے۔ قدرت کے قوانین ہی قدرت کا فیصلہ ہیں اور کون ہے جو ان فیصلوں کو بدل سکے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ دنیا کی نظر میں ہم کرپٹ ترین قوم ہیں۔ سب سے زیادہ کرپٹ تو شاید نہیں لیکن احمق ضرور۔ ہیجان کا شکار، یک رخے، نعرہ باز اور شخصیت پرست۔ بدعنوانی تو بھارت میں بھی کم نہیں۔ بھارتی اسمبلیوں میں جرائم پیشہ افراد کی تعداد کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ بھارتی فوج کا حال یہ ہے کہ جوانوں کو ڈھنگ کا کھانا نہیں ملتا۔ خودکشی کے واقعات عام ہیں۔ عام سپاہی سے شودروں کا سا سلوک کیا جاتاہے۔ خواتین فوجیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔
نعرہ فروشی ہولناک مرض ہے۔ ذہنی استعداد بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے۔ یک رخا پن عام ہو نے لگتا ہے اور سازشی کہانیاں عام ہو جاتی ہیں۔
کل ایک صاحب نے مجھے لکھا: آپ کہتے ہیں کہ فروری تک کرونا کی ویکسین مہیا ہو جائے گی۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ وائرس اصل میں حادثہ نہیں بلکہ سازش ہے۔ عرض کیا کہ ویکسین کی تیاری کے تین مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلے کچھ لوگوں پر آزمائی جاتی ہے۔ پھر زیادہ بڑی تعداد میں۔ منفی اثرات کا جائزہ جاری رہتاہے۔ تیسرا مرحلہ طے ہوجائے، اطمینان ہو جائے کہ ویکسین کے استعمال سے کوئی قابلِ ذکر خرابی نہیں ہوگی توبڑے پیمانے پر تیاری کا مرحلہ آتا ہے۔
رہا سازش کا دعویٰ تو یہ کس نے کی؟ کیا چین مرتکب ہے؟ سب سے پہلے تواسی کو نقصان پہنچا۔ چینی حکومت اگر ذمہ دار ہوتی تو اپنے شہریوں کو بچا رکھتی۔ امریکہ اگر ذمہ دار ہوتا تو عذاب میں مبتلا کیوں ہوتا؟ 37فیصد معیشت سکڑ گئی ہے۔
ویکسین تو جب آئے گی، تب آئے گی۔ ایک آدھ نہیں، کئی ادویات اب دستیاب ہیں، جن کے استعمال سے مریضوں کی عظیم اکثریت صحت یاب ہو رہی ہے۔ بعض اعتبار سے برصغیر ایک استثنا ہے۔ اس کی وجوہات ہیں۔ مچھروں کی افزائش کے طفیل پرہیزی ادویات کا ایک صدی پر پھیلا ہوا سلسلہ۔ ثانیاً آلودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قوتِ مزاحمت۔
قدرتِ کاملہ نے انسانوں کو عقل و دانش عطا کی، فہم و فراست بخشی۔ آدمی سے وہ غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ ملوکیت، جاگیرداری اور غلامی کی ان گنت صدیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ذہن غیر متحرک ہو گئے۔ تقدیر پرستی عام ہے۔ سب سے بڑھ کر مذہب کے میدان میں۔ جو کچھ پیشوا نے کہہ دیا، وہی پورا سچ ہے، خواہ وہ خود بھی ایک سطحی اور کم علم آدمی ہو۔
ملّا تو سزاہے ہی، پرسوں کے کیمونسٹ، کل کے سوشلسٹ اور آج کے لبرل ایک دوسرا عذاب ہیں۔ ان کے پاس ادبار سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے، مغرب کی اندھی تقلید۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ ہر خطہء ارض، ہر قوم اور معاشرے کا ایک الگ مزاج ہوتاہے۔ ایک دن نہیں، یہ صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے بدلتا نہیں۔ مشرقِ بعید میں جاپان، ملائیشیا، سنگاپور سے لے کر چین، کوریا اور ترکی تک۔ بیتے عشروں میں جن اقوام نے تیزی سے ترقی کی، ان میں سے ہر ایک کا اندازِ حکومت مختلف ہے۔ جرمنی، برطانیہ، سکینڈے نیویا، فرانس اور انکل سام کا بھی۔ کہیں صدارتی نظام ہے تو کہیں پارلیمانی۔ کہیں آزادی، پوری یا ادھوری، کہیں پابندی۔ بہترین معاشرہ وہ ہوتاہے، جہاں پوری آزادی اور مکمل ڈسپلن کارفرما ہو۔
پاکستانیوں کو دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک سمجھا جاتاہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی طالبِ علم دوسروں سے بہتر ہیں۔ آئی ٹی میں ہم نے سرمایہ کاری نہ کی۔ جو چند ہزار نوجوان تربیت پا گئے، وہ عالمی سطح کا معیار رکھتے ہیں۔
ایک عشرہ ہوتاہے، ارفعٰ کریم کے گرامی قدر والد میرے پاس تشریف لائے۔ ایک سبکدوش کرنل۔ شاد تھے لیکن پریشان بھی۔ ان کی نورِ نظر کو قدرت نے غیر معمولی ذہانت اور یادداشت عطا کی تھی۔ مرحلہ وہ آن پہنچا تھا کہ اساتذہ کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ میں نے انہیں عارف کے پاس بھیجا۔ کچھ دعائیں انہوں نے تعلیم کیں اور کچھ احتیاطی تدابیر بتائیں۔ استثنا کے طور پر دنیا میں ایسے بچے ہوا کرتے ہیں۔ سلیقہ مندی سے کام لیا جائے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ ارفعٰ کی خیرہ کن کارکردگی سے متاثر ہو کر بل گیٹس نے امریکہ مدعو کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
درویش نے اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ فطری موت نہیں مری بلکہ زہر کا شکار ہوئی۔ وہ زہر جو بتدریج اثر کرتاہے۔ ڈاکٹر اگر جائزہ لیتے تو شاید راز کھل جاتا اور وثوق سے حکم لگایا جا سکتا لیکن وہ صدمے کا شکار تھے۔ ایک آدھ نہیں، اس خطہء ارض میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں۔ فرانسیسی زبان سکھانے والے اداروں میں یورپی طالبِ علموں کو دو سے تین برس صرف کرنا ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ مدت ایک سال ہے۔ 9ماہ میں پاکستانی پائلٹ ایف سولہ اڑانا سیکھتے ہیں۔ دوسرے بہترین یعنی اسرائیلی دو سال کی مشقت سے گزرتے ہیں۔
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کو بہترین سمجھا جاتاہے۔ میرے ہم مکتب، پاکستانی ڈاکٹر سعید باجوہ دنیا بھر میں دماغی امراض کے بہترین معالج سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ایک عم زاد کی کتابیں امریکہ کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ کم از کم ایک پاکستانی ادارہ ایسا ہے، جو دنیا میں بہترین مانا جاتا ہے، ہماری مسلّح افواج۔ شورش زدہ ممالک میں اقوامِ متحدہ پاکستانی فوج کو دوسروں پر ترجیح دیتی ہے۔ ایک وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ آزمائش کے سخت ترین مرحلوں سے گزرتے ہیں۔ حبّ وطن ہی نہیں، ان کے اذہان میں ایمان اور ایقان کا بیج بھی بویا جاتاہے کہ ثمر بار ہو تو خیرہ کن نتائج پہ منتج ہوتاہے۔ دوسری یہ کہ ہر اعتبار سے یہ ایک جدید تنظیم ہے۔ اپنے زمانے کی ضرورتوں سے ہم آہنگ۔ غلطیاں ضرور سرزد ہوتی ہیں لیکن نظم و نسق کا ایک قابلِ اعتبار نظام قائم ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی افسر کھڑے کھڑے اپنے ماتحت کا تبادلہ کر دے۔ اسے وجہ بتانی ہوگی اور صدر دفتر کو مطلع کرنا ہوگا۔ ایک کور کمانڈر ایک کپتان کے مستقبل کا تعین نہیں کر سکتا۔
سول ادارے جدید خطوط پر کیوں تعمیر نہیں ہو سکتے؟ ایف بی آر، پولیس، عدلیہ اورسول سروس۔ حقیقی مشاورت اور بھرپور ضابطہ پسندی ان کا شعار کیوں نہیں ہو سکی؟ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمہ وقت ہم جذباتیت کا شکار رہتے ہیں۔ غور و فکر کی فرصت کسی کو شاذ ہے۔ سوچ بچار سے گریزاں لوگوں کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب کیا کہتی ہے؟ "بدترین جانور"یہ ہم ہیں، یہ عرب ہیں اور بعض دوسری مسلم اور غیر مسلم اقوام۔
قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اللہ کے قوانین ہیں اور کبھی تم انہیں بدلتا ہوا نہ پاؤگے۔ قدرت کے قوانین ہی قدرت کا فیصلہ ہیں اور کون ہے جو ان فیصلوں کو بدل سکے۔