بساط کب لپیٹی جائے گی۔ ندیوں، آبشاروں اور سبزہ و گل سے آراستہ اس نیلگوں سیارے پرآدمی کو کب تک جینا ہے۔ Brief History of Timeکے مصنف، اس نادرِ روزگار سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا:زیادہ سے زیادہ ایک سو برس۔ کچھ دوسرے نابغہ یہ کہتے ہیں کہ چار ساڑھے چار سو برس۔ کروڑوں سال سے اچھلتی کودتی حیات کو پھر بجھ جانا ہے۔ پہاڑ جب روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے، ریت کے ذروں کی طرح بکھر جائیں گے۔
کل شب دہلا دینے والا ایک حادثہ ہوا۔ سسکیوں اور آہوں کے درمیان عمر اقبال نے کہا: دادا جی فوت ہو گئے۔ بس اڈے پر جانے کے لیے اپنی گاڑی دے دیجیے۔ پوچھا: پہنچنا کہاں ہے؟ چہرے پہ بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ بولا:سرگودہا کے ایک گاؤں میں۔ بلال حیدر نے موبائل اٹھایا، کچھ بٹن دبائے اور کہا:شہر کے باہر سڑکیں دھند سے بھری ہیں۔ بچوں کے سے معصوم ڈرائیور نے مجھے سمجھایا: کہر کا تو کہیں وجود ہی نہیں۔ وہ صرف آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا ہے۔ اکثر انسانوں کی طرح ذہن کو زحمت خال ہی دیتاہے۔
ایک گھنٹے کے بعد فون کیا۔ جیسا کہ اندازہ تھا، ٹول پلازا سے پلٹ کر اب وہ لاہور کی بند روڈ پر تھا۔ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر سات گھنٹے میں طے ہوا۔ سحر بیت چکی۔ گیارہ بجے ہیں۔ تھکا ماندہ ڈرائیور گھوڑے بیچ کر سورہا ہے۔ بیداری کے بعد لوٹ کر آئے گا تو اسلام آباد روانہ ہو سکوں گا۔ آدمی کی قسمت میں یہی لکھا ہے:تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔ اللہ کی آخری کتاب میں رقم ہے:زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں، جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتاہے کہ کہاں وہ ٹھہرے گا اور کہاں سونپا جائے گا۔ سحر احساس یہ تھا کہ کل کا دن رائیگاں رہا۔ برادرم اجمل نیازی کے بقول نیازی قبیلے کے سردار منیر نیازی نے کہا تھا:
کل دا دن وی ایویں لنگیا
کل وی کجھ نئیں کیتا
نہ میں پڑھی نماز
تے نہ میں جام شراب داپیتا
کل کا دن بھی رائیگاں رہا۔ کل بھی اپنے مالک کو یاد نہ کیا۔ خود فراموشی کے لیے جام بھی نہ اٹھایا۔
سحر دم صدیوں سے صوفیا قرآنِ کریم کی آیت کا ورد کرتے آئے ہیں:اس کائنا ت کا مالک صرف وہ ہے، جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں۔ ھوا الذی لا الہ الا ھو? ہمارے عہد کا عارف رات کے تیسرے پہر سو بار اس کا ورد کرتا ہے۔
اس لیے کہ پروردگار کے اٹھارہ نام اس میں ہیں۔ ایک بار دہرانے سے سات سو فرشتے آدمی کی حفاظت کرتے ہیں۔ سو بار پڑھنے والے کی ستر ہزار۔ ایک شب خلوت میں وہ مسکرائے اور کہا: پروردگار کا کون سا اسم ہے، جس کی برکت بندوں کو بخشی نہیں جاتی۔ صد شکر ہے کہ شیطانی اور رحمانی خیال میں امتیاز کی توفیق عطا ہوئی۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتاہے حقیقت میں قرآں
قرآنِ کریم کی مذکورہ سورہ میں یہ بھی لکھا ہے: آدمی اپنے مالک کو جب فراموش کردیتا ہے تواپنا آپ بھی اسے بھلا دیاجاتاہے۔ عمر بھر تاریکی میں جیتا ہے۔ یہ گندگی پہ گرتے سیاست کار اور حکمران، یہ دھن دولت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے کھرب پتی، یہ خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے دانشور۔ سب وہی ہیں۔ وہی ہیں اور بدل نہیں سکتے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ ان کی تقلید سے بچائے اور سچی توبہ کی توفیق دے۔
کیسے ہم ناکردہ کار ہیں کہ جنیدؒ و بایزیدؒ کی بجائے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیسے احمق کہ سرکارؐ کی بجائے برٹرینڈرسل سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، خود نوشت میں اس نے لکھا: اپنی خوش دامن کو دیکھ کر خود پہ قابو رکھنا مشکل ہو جاتا۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فلسفی بھی حیوان ہی نکلا۔ اپنی مشہور کتاب:Why i am not a Christian جب وہ لکھ چکا تو اس سے پوچھا گیا: کیا آپ نے قرآن پڑھا ہے؟ اس کا جواب یہ تھا: Why should I like. All gospel truth. is alike وہ جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ قرآنِ کریم اور بائبل میں بہت فرق ہے۔ بائبل اللہ کی کتاب ہے مگر قصے کہانیاں اس میں شامل کر دی گئیں۔ قرآنِ کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اسے نازل کرنے والے نے لیا ہے۔ فلسفی کا المیہ یہ تھا کہ سچائی کا سامنا کرنے کی تاب نہ تھی۔ کسی نہ کسی درجے میں ہم سب کا المیہ یہی ہے۔
ایک عشرہ ہوتاہے، درویش نے پوچھا:آپ کا خیال کیا ہے؟ آدمی کیا خود سوچتا ہے؟ عرض کیا: جی نہیں، خیالات خارج سے آتے ہیں۔ اس لیے کہ بعض خیالات آدمی کے تمام تر تجربات سے بڑے اور مختلف ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ کے سب سے فصیح آدمی نے یہ کہا تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
غالبؔ ہی نہیں، اس کی تتلانے والی خادمہ کے سر میں اترنے والے خیالات بھی غیب ہی سے آتے تھے۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے: ایک فرشتہ آدمی کی طرف وحی کرتاہے اور ایک شیطان۔ ایک چمک درویش کی آنکھوں میں ابھری اورکہا: امسال اس موضوع پر میں لیکچر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ کیا انسان سوچتا ہے۔ پچاس برس میں دیے گئے چار پانچ سو خطبات میں سے شاید یہ اہم ترین خطبہ۔ فقط قرآنِ کریم کی آیات اور احادیث نہیں، پچھلی ایک صدی میں ہونے والی شاندار سائنسی تحقیقات کی روشنی میں۔ تیس برس تک کھوج میں لگے رہنے والے ریاست ہائے متحدہ کے ڈاکٹر مارکس بھی اسی نتیجے پر پہنچے۔ ایک آلہ انہوں نے ایجاد کیا، جو آدمی کے سر پہ لگا دیا جائے تو زبان کھلنے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ تجویز کردہ دو راستوں میں سے کون سا راستہ چنا جائے گا۔
کل کا دن رائیگاں نہ رہا۔ عمر اقبال کے دادا کی اچانک موت نے بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ کل کی پوری شام فیروز پور بیدیاں لنک روڈ پر زمین کے ایک موزوں ٹکڑے کی تلاش رہی جس پر فارم ہائوس تعمیر کیا جاتا۔ کل شب اس خیال کو دفن کیا۔ خدا کرے کہ دفن ہی رہے۔
خواجہ مہر علی شاہؒ نے کہا تھا: خیالِ خیر برق کی طرح چمکتا ہے اور وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں۔ خیالِ خیرکو آدمی تھام لے تو باطن جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ روشنی مگر عارضی ہوتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے خیالِ خیر کو تھامے رکھنے کی نعمت عطا ہو تو باطن کا اجالا دائمی۔
بساط کب لپیٹی جائے گی۔ ندیوں، آبشاروں اور سبزہ و گل سے آراستہ اس نیلگوں سیارے پرآدمی کو اور کتنے دن جینا ہے۔ Brief history of timeکے مصنف، اس نادرِ روزگار سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا:زیادہ سے زیادہ ایک سو برس۔ کچھ دوسرے نابغہ یہ کہتے ہیں کہ چار ساڑھے چار سو برس۔ کروڑوں برس سے اچھلتی کودتی حیات کو پھر بجھ جانا ہے۔ پہاڑ جب روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے، ریت کے ذروں کی طرح بکھر جائیں گے۔