اچھے اور برے شاعر کا فرق کیا ہے؟ ریاض اور مسلسل ریاض۔
خشک ڈھیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتاہے
تب نظر آتی ہے، اک مصرعہء تر کی صورت
ریاضت ہماری سیاست میں نا م کو نہیں۔ ایک کے بعد دوسرے حکمران کو پچھاڑنے سے ہم نے کیا حاصل کیا کہ عمران خان کی برطرفی سے جیت لیں گے؟
1988ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت دھاندلی سے قائم نہ ہوئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ تھی۔ پنجاب میں ان کی حکومت خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے برسرِ اقتدار آئی۔ 1990ء میں بے نظیر کو چلتا کیا اورجشن منایا گیا۔ نواز شریف سے 1993ء میں غلام اسحٰق خان اس سے کہیں زیادہ ناراض تھے، جتنے کہ 1990ء میں پیپلزپارٹی سے۔
اجلال حیدر زیدی صدر کے قابلِ اعتماد رفقا میں سے ایک تھے۔ انہی دنوں ایک بار انہوں نے کہا: یہ وہ خان صاحب نہیں، جنہیں ہمیشہ سے ہم جانتے تھے۔ اب وہ بات سنتے ہی نہیں۔ پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمٰن کا تاثر بھی کم و بیش یہی تھا۔ صدر صاحب اب کان بھرنے والوں میں گھرے تھے۔
ایک دن پیغام ملا کہ وہ ناچیز سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد پہنچا۔ ملٹری سیکرٹری کو فون کیا۔ دن پہ دن گزرتے گئے۔ ان بریگیڈئیر صاحب کو یاددہانی کرائی تو وہ تلخی سے پیش آئے۔ اس کے سوا کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنے پسندیدہ لوگوں کے سوا، و ہ صدر سے کسی کی ملاقات نہیں چاہتے۔ چند ہفتے بعد یہ راز کھلا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ تھے۔ اسلام آباد میں ایک عدد پلاٹ ان کی خدمت میں پیش کیا جا چکا تھا۔ محلاتی سازشوں کا انداز یہی ہوتاہے۔
1996ء میں بے نظیر ایک بار پھر برطرف کر دی گئیں۔ نواز شریف نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا۔ 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹ دیا اور 9برس تک کوس لمن الملک بجاتے رہے؛ تاآنکہ امریکی کاوشوں سے برطانیہ نے میثاقِ جمہوریت کا ڈول ڈالا۔ 1990ء کی دہائی کو بعض دانشور ضائع ہو جانے والا عشرہ، Lost Decadeکہتے ہیں۔ قرضوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ امریکی رسوخ بڑھتا گیا۔ افغانستان میں خانہ جنگی کے بطن سے طالبان ابھر آئے۔ باقی تاریخ ہے۔ ایک بار پھر یہ 1990ء کی دہائی سے مماثلت رکھنے والی مہ و سال ہیں۔
اس میں دو آرا نہیں کہ عمران خاں ناکام ہیں۔ وجوہات آشکار ہیں۔ جس تبدیلی کی ان سے امید باندھی گئی تھی، اس کا عشرِ عشیر بھی برپا نہ ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب نے اسی وقت نظامِ زر و ظلم سے سمجھوتہ کر لیا تھا، کرپٹ سیاستدانوں کے لیے جب پی ٹی آئی کے دروازے چوپٹ کھول دیے تھے۔ 30اکتوبر 2011ء میں لاہور کے جلسہء عام کے بعد توقع یہ تھی کہ زیادہ نہیں تو کم از کم نصف یا ایک تہائی ٹکٹیں وہ درمیانے طبقے سے ابھرنے والے امیدواروں کو دیں گے۔ بالکل برعکس کرم خوردہ لیڈروں کو ترجیح دی۔ 2014ء کا دھرنا ناکام ہونے کے بعد ہمت وہ ہار چکے تھے۔ 2013ء میں تمام اندازے یہ تھے کہ وہ 80سے 90نشستیں جیت لیں گے لیکن صرف 34 لے سکے۔ اس لیے کہ ٹکٹوں کے اجرا کا کوئی نظام قائم نہ کر سکے۔ اب اقتدار کے لیے بدترین راہ چنی۔ پارٹی کی بجائے ٹکٹ عنایت کرنے کا اختیار دوسروں کو سونپ دیا۔
مہنگائی، کرپشن اور پہاڑ ایسے ملکی اور غیر ملکی قرضوں پہ خلقِ خدا برہم تھی؛چنانچہ فاش غلطیوں کے باوجود بالاخر وہ جیتے، جن میں پارٹی الیکشن کا بے وقت فیصلہ بھی شامل تھا، نہایت بے ڈھنگی سے جو بروئے کار آیا۔
2013ء اور 2018ء دونوں انتخابات میں پارٹی کے ٹکٹ خریدے اور بیچے گئے۔ کاروبارِ حکومت چلانے کی تیاری تھی ہی نہیں۔ خاکسار سے شکایت یہ ہے کہ عمران خان کی قائدانہ صلاحیت کو اس نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میں اس پر معافی مانگ چکا اور ایک بار پھر مانگتا ہوں۔ طعن توڑنے والے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ 2013ء میں ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور 2014ء کے دھرنے کی میں نے ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ رویے میں کچھ نرمی اب بھی برقرار رکھی کہ شاید ملک کو لٹیروں سے نجات مل جائے۔ مگر اب میں ان کا حامی نہ تھا۔ ایک دن حبیب اکرم سے انہوں نے کہا: ہارون کو کیا ہوا؟ اس نے کہا: آپ دونوں بہتر جانتے ہیں۔ ایک آدھ ملاقات ہوئی تو وہ نالاں نظر آئے۔ کہا: تمہاری تنقید کے ہم عادی ہو چکے۔ عرض کیا کہ فردوس عاش اعوان ایسوں کی بجائے آپ کو فخر امام ایسے لیڈروں سے رابطہ کرنا چاہئیے۔ نیک نامی کی فصل اجڑ رہی ہے۔ وہ متذبذ ب تھے۔ اس لیے کہ سرپرستوں کا مشورہ مختلف تھا۔
طعنہ دیا جاتاہے کہ وزیرِ اعظم نے تمہیں اہمیت نہ دی۔ اس لیے تم ناخوش ہو۔ حقیقت برعکس ہے۔ ایک نہیں، تین بار ناچیز سے رابطہ کیا گیا مگر اس نے معذرت کر لی۔ انہی سے نہیں، کچھ اور لوگوں سے بھی۔ ثانیاً اگر خان صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتا ہوں تو کیا ان کے حریفوں کی تائید کی جاتی ہے؟ ایک ذرا سی نرمی بھی ان سے نہیں کی۔ جذبات کے وفور میں مگر جو کردار کشی پر تلے ہوں، دلیل ان کے سامنے کیا بیچتی ہے۔ حقائق سے انہیں کیا غرض؟
حرفِ آخر یہ کہ خان صاحب اگر ناکام ہیں تو ان کے حریف زیادہ ناکام۔ سندھ کا حال کیا ہے؟ کراچی کے دو کروڑ شہری گویا جنگی قیدی ہیں۔ عمران خان پہ مولانا فضل الرحمٰن، محترمہ مریم نواز یا بلاول بھٹو کو ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے؟ وہ بلاول بھٹو جو کراچی کو ڈوبتا چھوڑ کر شہباز شریف سے ملنے چلے آئے۔ وہ شہباز شریف جو خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ وہ حضرت مولانا، اس المناک بحران میں بھی بھائی کو ڈپٹی کمشنر بنوانا، جن کی ترجیح تھی؟
عمران خان غلطی پہ غلطی کر رہے ہیں۔ خود کو وہ برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا لیڈر، جسے نجات دہندہ کے طور پر پیدا کیاگیا۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ کوئی مدبّر اس خبط میں مبتلا نہیں ہوتا۔ ڈنگ سیاؤ پنگ، مہاتیر محمد اور نہ لی کوان یو۔ معاشی انقلاب کے ہنگام ڈنگ سیاؤ پنگ کے بیٹے کو تیسری منزل سے دھکا دیا گیا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ اس نے لیکن صبر سے کام لیا۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اقتدار کے پانچ پانچ برس پورے کیے۔ پی ٹی آئی کو بھی گوارا کیا جائے۔ تبھی جمہوریت جڑیں پکڑے گی ورنہ سول ادارے کمزور تر ہو تے جائیں گے۔ ترقی استحکام سے مشروط ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا منصوبہ کامیاب ہوا تو استحکام نہیں انتشار پھیلے گا۔
جب طوفان برپا ہوں تو کامیاب وہی ہوتے ہیں، سچائی کے ساتھ جو صبر کا دامن تھامے رکھیں۔ نعرہ بازی کی بجائے غور و فکر کو شعار کریں۔ جو بڑی تصویر دیکھ سکتے ہوں۔ اچھے اور برے شاعر کا فرق کیا ہے؟ ریاض اور مسلسل ریاض۔
خشک ڈھیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتاہے
تب نظر آتی ہے، اک مصرعہء تر کی صورت
ریاضت ہماری سیاست میں نا م کو نہیں۔