زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتاہے۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابہ گِل بھی ہے
اور نج ٹرین ایک نئی دلدل ہے۔ چند ہفتوں میں 35کروڑ کی بجلی برتی گئی۔ آمدن صرف 24 لاکھ روپے۔ لاہور میں میٹرو بس پہ کام کا آغاز ہوا تو شریف برادران کے ایک دیرینہ رفیق سے پوچھا: ان کا مسئلہ کیا ہے؟ پرویز الٰہی دور میں بننے والا زیرِ زمین ریلوے کا منصوبہ ترک نہ کیا جاتا تو خزانہ برباد نہ ہوتا۔ بی اوٹی، (بناؤ، چلاؤ اور حکومت کے حوالے کرو) کی بنیاد پر تھا۔ ٹرین اپنی بجلی خود پیدا کرتی۔ ٹریفک پولیس کو بہتر بنا کر بھی ہڑبونگ ختم ہو جاتی۔ ریلوے لائن شہر کے وسط سے گزرتی ہے۔ لوکل ٹرین چلا کر بہت سا بوجھ اس پر منتقل کیاجا سکتا۔ ربع صدی شاہی خاندان کے ساتھ بِتانے والے طباع آدمی نے کہا:ان لوگوں کو آپ جانتے نہیں۔ پھر ایک خیالی منظر انہوں نے تراشا: ایک نوکدار ہتھوڑی ہاتھ میں لیے، بڑے میاں صاحب نے برادرِ خورد کو طلب کیا اور کہا: شہباز! اب تک تم نے کیا کیا؟ الیکشن سر پہ آن پہنچے۔ ووٹروں کو لْبھانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ عمران خان جیسا ایک جلسہ بھی ہم نہ کر سکے۔ اب کیا ہوگا؟ خواجہ صاحب کا خیال تھا کہ میٹرو بس کا منصوبہ ایسے ہی کسی منظر میں پھوٹا۔
لاہور کے ایک دانش ور سے پوچھا۔ ان لوگوں کو ہوا کیا ہے؟ اس کا جواب یہ تھا: شریف خاندان کی صلاحیت تب بروئے کار آتی ہے، جب سیمنٹ اور سریے کے ڈھیر سامنے پڑے ہوں۔ اس پر اسلام آباد کے دو آرٹسٹ یاد آئے۔ ایک اشتہاری کمپنی میں ڈیزائن تخلیق کرنے والے حسن کار۔ شبیر اور اقبال۔ جہاں کہیں براجمان ہو ں، ماحول کو معطر کیے رکھتے۔ شبیر پہلے ہی سے کمپنی سے وابستہ تھے۔ خوش گلو اقبال کو اس نے لکھا: یہاں چلے آؤ، اس نیم پہاڑی شہرمیں۔ ہوا خوشگوار ہے، تنخواہ معقول، ماحول مددگار، دفترائیر کنڈیشنڈ۔ وہ آن پہنچا۔ اوّل دن کے اختتام پر شبیر نے اقبال سے پوچھا: کہو، کیسا رہا؟ بولا: باقی سب تو بجا مگر دن بھر کی کمائی ایک دراز میں سما گئی۔ گجرات میں ہم سینما کے بورڈ بنایا کرتے تو شہر کا شہر دیکھتا اور خود ہمارا جی فرطِ مسرّت سے لبریز سا ہو جاتا۔
شبیر نے کہا: اشتہار اخبار میں چھپے گا۔ ٹی وی پر دکھایا جائے گا۔ اقبال کی تشفی نہ ہو سکی۔ شبیر نے اس پرجھلّا کر کہا: اگر کوئی بڑا، بہت نمایاں اور سب کو دکھائی دینے والا کام کیے بغیر تمہاری تسلّی ہو نہیں سکتی تو ایسا کرو کہ راولپنڈی کے متروک ہوائی اڈے پر دھان کے گٹھے سوکھنے کے لیے ڈالاکرو اور گیت گایا کرو۔
شریف برادران کا مسئلہ بھی یہی تھا۔ معمول کا، ڈھنگ کا، سلیقے کا روایتی سا کام وہ نہیں کر سکتے۔ تماشا چاہیے۔ صبح سے شام اور شام سے سویر تک انہیں داد چاہئیے۔ میاں محمد نواز شریف کو کرکٹر بننا تھا، نہ بن سکے، اداکار بننا تھا مگر اجازت نہ ملی۔ قسمت انہیں سیاست میں لے آئی۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ جنرل غلام جیلانی اور جنرل محمد ضیاء الحق ایسے مربّی ملے۔ خوش بختی کی انتہا یہ ہے کہ مقابلہ پیپلز پارٹی سے تھا، خلق جس سے نالاں تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سیاست کا فہم رکھتی تھیں اور محاذ آرائی کی تاب بھی مگر اردو بول سکتی تھیں اور نہ سندھی۔ دروغ بر گردنِ حسین حقانی، انہوں نے یہ کہا تھا "اذان بج رہا ہے"۔ اس پر حقانی سمیت دائیں بازو کے پروپیگنڈہ کرنے اور نفرت بیچنے والے۔ ایجنسیوں کی پشت پناہی بھی۔
جنرل غلام جیلانی مرحوم غیر معمولی ادراک کے آدمی تھے مگر ان کے انتخاب پہ حیرت ہے۔ جعلی قیادت ایسی ہی ہوتی ہے۔ بھٹو فیلڈ مارشل کے دربار سے ابھرے اور ان سے کہیں زیادہ سفّاک۔ ذہین بے حد مگر ان کی ذہانت کس کام آئی۔ کیسی عجیب قوم ہے، جو جانتی نہیں کہ افرا د کی نہیں، اداروں کی عمل داری چاہیے۔ برطانوی وزیراعظم ایوان میں موجود رہتاہے۔ ایک سے ایک تلخ سوال کا جواب دیتاہے۔ سینٹ کو تو خیر دو بار ہی زیارت نصیب ہو سکی، جمہوریت کے علمبردار میاں محمدنواز شریف، نصف درجن وزارتیں جن کی جیب میں تھیں، خال ہی قومی اسمبلی میں تشریف لے جاتے۔ خاں کا کمال یہ ہے کہ ایسے آدمی کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔
ہم اور کتنی دیر ہیں، تم اور کتنی دیر؟
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر؟
ایک عامی بھی جانتاہے کہ پاکستان کے دفاع کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بھارت اس کی تباہی کے درپے ہے۔ مشرقی پاکستان کو اسی نے الگ کیا۔ کشمیر پر دو جنگیں اس کے سوا۔ 2000ء سمیت دو تین بار جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پاکستان کا وجود بھارت کی ہندو رائے عامہ کے دلوں پر ایک زخم کی مانند ہے۔ سرحد نہیں، دونوں ملکوں کے خطِ امتیاز کو ان کے لیڈ ر اور دانشور لکیر کہتے ہیں۔ نفرت تو کسی حال میں روا نہیں مگر کیا ا س ملک کے ساتھ ہمارے مراسم کم از کم نہ ہونے چاہئیں؟ معاہدہ کہ ایک دوسرے کے خلاف تشدّد سے گریز مگر اس کے سوا کیا؟ تجارت؟ اگر امن قائم ہو اورسازشوں کا سلسلہ تمام۔ جس ملک کی فلمی صنعت ہر سال درجنوں فلمیں ہمارے خلاف بناتی ہو، دوستی کجا، اس کے ساتھ معمول کے تعلقات بھی کیسے ممکن ہیں۔
پاکستانی قوم دنیا بھر میں سب سے زیادہ عطیات دینے والی قوم ہے مگر این جی اوز کے نکھٹوؤں پر امریکہ سے ہن برستا ہے۔ ایک سوارب روپے سالانہ۔ آخر کس لیے؟ میڈیا اور سول سوسائٹی پر انکل سام کی سرمایہ کاری کا مقصد کیا ہے؟ پیہم اور مسلسل یہ لوگ مسلّح افواج کے بارے میں افواہیں کیوں پھیلاتے ہیں؟ جس کا کھاتے ہیں، اس کا گاتے ہیں۔ آزادیء اظہار برحق مگر اس کی حدود ہیں۔ دنیا میں یہ تماشا کہیں اور نہیں ہوتا کہ تخریب کاری کے مناظر براہِ راست دکھائے جائیں۔ ایسی آزادی انتہا کو پہنچتی ہے تو خود اپنی موت کا سامان کرتی ہے۔ اقبالؔ نے لکھا تھا
"People who have no hold over their process of thinking,are likely to be ruined by liberty of thought. If thought is immature, liberty of thought becomes a method of converting men into animals"?
جو لوگ اپنے اندازِ فکر کو یکسر آزاد چھوڑ دیتے ہی، آخر کار آزادیء اظہار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ خیال اگر خام ہو تو وہ آدمی کو جانور بنا دیتا ہے"۔ مشرق کے عظیم شاعر نے یہی بات باالفاظِ دیگر بھی کہی تھی ع
آزادیء اظہار ہے ابلیس کی ایجاد
پچھلے برس ایک ہسپتال پہ حملہ کیا تھا۔ مریضوں کو زدو کوب کیا۔ کئی ایک جان سے گئے۔ وکلا حضرات کل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے دفتر پہ چڑھ دوڑے۔ نتیجہ یہ کہ عدالتیں بند ہیں، بنچ اور بار میں محاذ آرائی۔
کوئی وزیراعظم نہ کوئی عدالت، کوئی پارلیمنٹ نہ کوئی جماعت، کوئی میڈیا اور نہ دانشور، کسی کی آزادی لامحدود نہیں ہو سکتی۔ سبھی جوابدہ ہوتے ہیں اور سب کے لیے اخلاقی ضابطے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مارشل لا کوئی حل نہیں۔ لوہے کو یہ حق نہیں دیاجا سکتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے۔ جمہوریت مگر آئین کی بالا دستی ہے، بے مہار او رمادر پدر آزادی نہیں۔ وزیراعظم سمیت ہر آدمی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے وگرنہ وقت اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتاہے۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گِل بھی ہے