سو باتوں کی بات وہ ہے، جو ہنری کسنجر نے واشنگٹن میں سفارت کے فرائض انجام دینے والی سیدہ عابدہ حسین سے کہی تھی "دشمنوں سے زیادہ امریکہ اپنے دوستوں کے لیے خطرناک ہے۔"
اس ماحول میں ضیاء الحق یاد آتے ہیں۔ نکتہء نظر انہی کا درست تھا۔ وہ افغانستان میں اتفاق رائے سے قائم ہونے والی ایک پاکستان دوست حکومت چاہتے تھے اور ایک اسلامی بلاک کی تشکیل۔ انہیں اندیشہ تھا کہ امریکیوں کو موقع ملا تو افغان سرزمین پہ امن کبھی واپس نہ آئے گا۔ وہ خواہاں تھے کہ دو بڑی جماعتوں، حکمت یار کی حزبِ اسلامی اور برہان الدین ربانی کی جمعیتِ اسلامی کے غلبے پر مشتمل ایک حکومت کابل میں قائم ہو۔ بتدریج دوسرے افغان گروہ بھی جس کا حصہ بنتے جائیں۔
برسوں اس کے لیے انہوں نے ریاضت کی تھی۔ امریکی براہِ راست افغانوں کو اسلحہ نہیں دے سکتے تھے۔ افغان لیڈروں سے ان کی ملاقاتیں بھی بہت محدود رکھی جاتیں۔ امریکی سفیر کو آئی ایس آئی کے ایک میجر نے خیر آباد کے پل پر روک دیا تھا۔ ضیاء الحق کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے کہ فعال طبقات برہم ہیں۔ پاکستا ن میں امریکہ کے حامی مضبوط ہیں۔ تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھکی، جب وزیرِ اعظم محمد خاں جونیجو نے بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی سمیت کل جماعتی کانفرنس منعقد کی اور جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار تو ضیائ الحق ترکِ اقتدار پر بھی آمادہ ہو گئے۔ ڈاکٹر نجیب نے انہیں پیغام بھیجا کہ مجھے ہٹانے پر تلے ہو مگر خود حکومت سے چمٹے رہنا چاہتے ہو۔ جواب میں انہوں نے کہا: آئیے ہم دونوں مل کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں اور بیک وقت دونوں ہی دست بردار ہو جائیں۔ مستقبل کے لیے خود اپنے بارے میں سوچتے تھے، نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر ان کی ادھوری سوانح عمری باقی رہتی، جس کے ڈیڑھ سو صفحات لکھے جا چکے تھے تو شاید کچھ اندازہ قائم کیا جا سکتا۔
سترہ اگست کا سانحہ رونما ہوا تو بیگم شفیقہ ضیاء الحق یہ سمجھیں کہ بغاوت فوج نے کی ہے؛چنانچہ یہ اوراق جلا ڈالے۔ پاکستان جنیو ا معاہدے پر دستخط کر چکا تھا۔ یہ دستخط ایک ایسے وزیرِ خارجہ نے کیے، جو کبھی پانچ سو روپے ماہوار پر آئی ایس آئی کا مخبر رہا تھا۔
آخری دنوں میں ضیاء الحق اور امریکیوں کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ ایک شام چند اہم امریکیوں کی باہمی گفتگو ضیاء الحق کو سنائی گئی، جو محمد خاں جونیجو سے مل کر آئے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا :Look how this naive Sindhi is dealing with the Punjabi Hawks۔ دیکھو یہ سادہ لوح سندھی کس مہارت سے پنجابی عقابوں کے مقابل ہے۔ جنرل محمد ضیائ الحق اور جنرل اختر عبد الرحمٰن۔ بار بار مدعو کیے جانے کے باوجود جنرل اختر امریکی دورے سے گریزاں رہے۔ وہ ضیاء الحق کے ساتھ تھے۔
آخری دنوں میں جنرل اختر کی ڈائری کے اوراق بعض حقائق واشگاف کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے انگریزی جملوں میں وہ بنیادی نکات لکھا کرتے۔ ایک ورق پر لکھا ہے:غیر جماعتی انتخابات، ضیاء الحق کی مکمل تائید۔ پھر نپولین کا ایک قول "There are enemies and allies in politics، no friends"۔ سیاست میں دشمن ہوتے ہیں اور حلیف، دوست کوئی نہیں۔ آئی ایس آئی کی بجائے جنرل اختر اب جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چئیرمین تھے۔
جنرل اسلم بیگ کو وہ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک شام جب معمول کے مطابق آرمی ہاؤس سے متصل گالف کلب میں طویل چہل قدمی کے بعد وہ واپس آرہے تھے تو انہوں نے ایک غیر متوقع منظر دیکھا۔ جنرل ضیاء الحق جنرل اسلم بیگ کے ساتھ گالف کھیل رہے تھے۔ جنرل نے ان سے سوال کی جسارت کی: جنرل اسلم بیگ کے ساتھ گالف کھیلنے کی مصلحت کیا تھی؟ ضیاء الحق کا جواب یہ تھا: I am trying to read his mind۔
کیا سانحہء 17اگست کے بارے میں جنرل اسلم بیگ پر شبہ کیا جا سکتاہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے۔ واقعات کی گہری تہہ جم چکی۔ کچھ اور سوالات بھی ہیں، جن کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ امریکیوں نے اس واقعے کی تحقیقات کیوں نہ کیں؟ ریاست ہائے متحدہ کا قانون یہ کہتاہے کہ بیرونِ ملک اگر کسی ایک امریکی کی موت واقع ہو تو ایف بی آئی سراغ لگانے کی کوشش کرے گی۔ بعد میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو اس کا جواب یہ تھا:It did not occur to me۔ مجھے اس کا خیال ہی نہ آیا۔ ملتان کے کور کمانڈر اور پاک فضائیہ کے سربراہ کے بارے میں بھی سوالات تھے۔ زہریلی گیس کی ڈبیا جہاز میں کیسے پہنچی۔ آموں کی پیٹیاں تلاشی کے بغیر کیسے لاد دی گئیں۔
جنرل اختر کے صاحبزادے ہارون اختر نے، جو خاندان کے ذہین ترین فرد سمجھے جاتے ہیں، معلوم کرنے کی کوشش کی کہ امریکی تحقیقات سے گریزاں کیوں ہیں۔ تھوڑ ا سا آگے بڑھنے کے بعد معاملہ رک کیوں جاتا ہے۔ ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔
یاللعجب خود پاکستان میں بھی تحقیقات نہ ہوئیں۔ جنرل ضیاء اور جنرل اختر کے خاندانوں نے اصرار کیا تو وزیرِ اعلیٰ نواز شریف نے ایک ایس پی کو تحقیقات پہ مامور کیا۔ بیچارے کی بساط ہی کیا تھی کہ کوئی اسے منہ لگاتا؛اگرچہ مقدور بھر اس نے کوشش کی لیکن اعلیٰ افسر اس کی کیوں سنتے۔ انہی دنوں ضیاء الحق کے سابق وزیرِ داخلہ، پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی کے ہم جماعت بوڑھے اسلم خٹک سے ملاقات ہوئی تو انہیں کریدنے کی کوشش کی۔ وہ دل شکستہ اور رنجیدہ تھے بلکہ قدرے چڑچڑے۔
انہوں نے کہا "کوئی بھی اچھا تھانیدار دو ہفتے میں سراغ لگا سکتاہے"برسوں بعد آئی ایس آئی کے ایک سبکدوش افسر کرنل خلیل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی نے چکلالہ اور بہاولپور کے ہوائی اڈوں سے چار مشکوک افراد کو گرفتار کیا تھا۔ یہ چاروں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور پچھلی صدی کے پانچویں عشرے میں بہار سے پاکستان پہنچے تھے۔ ان لوگوں کا کیا ہوا، کچھ معلوم نہیں۔ مرحومین جنرل حمید گل اور غلام اسحٰق خاں سے جب بھی اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی، وہ ٹال گئے۔
سانحہء 17اگست کے فوراً بعد واشنگٹن سے ایک پیغام اسلام آباد موصول ہوا "روسی ریچھ کی دم مروڑنے کی کوشش نہ کی جائے"۔ انہی دنوں حسین حقانی نے کسی برطانوی اخبار میں چھپنے والا ایک تجزیہ مجھے دیا، جس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جنرل ضیاء، جنرل اختر اور ان کے ساتھیوں کو امریکیوں نے شہید کرایا ہے۔
میجر عامر نے بالاخر ایک ملزم کو پکڑ لیا۔ پاک فضائیہ کے اس سابق افسر نے اعتراف کیا کہ زہریلی گیس کی ڈبیا وہ لایا تھا۔ یہ آدمی اسرائیلی ایجنٹ تھا۔ فوجی عدالت نے اسے قید کی سزا سنائی لیکن پھر وہ اس طرح غائب ہو گیا، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
سو باتوں کی بات وہ ہے، جو ہنری کسنجر نے واشنگٹن میں سفارت کے فرائض انجام دینے والی سیدہ عابدہ حسین سے کہی تھی "دشمنوں سے زیادہ امریکہ اپنے دوستوں کے لیے خطرناک ہے۔"