Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saza

Saza

یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ ہماری خوئے غلامی، ہماری شخصیت پرستی کی، ہمارے جذباتی عدمِ توازن کی۔

سٹاک ایکسچینج پر حملہ بھارت نے کرایا، وزیرِ اعظم کو یقین ہے۔ ظاہرہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی توثیق کے بغیر اس درجہ مکمل اطمینان ممکن نہیں۔ بیچارے گنتی کے بلوچ دہشت گرد کیا بیچتے ہیں۔ صدیوں سے سرداروں کی غلامی میں جینے والے، اکثر چٹے ان پڑھ۔ ان میں سے بعض کو تو یہ بتایا گیا ہے کہ خاکی وردی والے اللہ، رسولؐ اور یومِ آخرت پہ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ یہ افغانستان کی خدمتِ اطلاعاتِ دولتی ہے، جسے این ڈی ایس کہا جاتاہے۔

ظاہرہے کہ یہ پاکستان توڑنے کے لیے بنایا گیا ادارہ Research and Analysis Wing ہے۔ ہم سب جسے "را" کے نام سے جانتے ہیں لیکن ان دونوں کی ایک ماں ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سی آئی اے۔۔۔ اور سی آئی اے کی تربیت اس چڑیل ایم آئی سکس نے کی ہے، جو کم از کم تین سو برس سے برصغیر کی رگ رگ سے واقف ہے۔ ایک بچہ بھی سمجھ سکتاہے کہ سی آئی اے، پینٹا گان اور امریکی صدر کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے کر خاداور "را" پاکستان میں تخریب کاری نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر میں سب اخبار نویس جانتے ہیں، سب حکومتیں جانتی ہیں کہ بلوچستان میں تخریب کاری پربھارتی حکومت ہر سال سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یورپی ممالک کے ذریعے امریکہ کے نخچیر پاکستان میں ایسی این جی اوز پالی گئی ہیں، جو ملک کو تقسیم درتقسیم کرنے میں جتی رہتی ہیں۔

سٹاک ایکسچینج کے حملہ آور تو ناکام رہے، برا سہی، اس کا اثر عارضی ہے لیکن وہ تصویر؟ بوڑھے نانا کی لاش پر بیٹھے چار سالہ حیرت زدہ بچے کی تصویر۔ وہ تو کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔ مجھ جیسے خستہ حال آدمی کے دل میں بھی یہ خیال جاگا کہ اس زندگی سے موت بہتر ہے۔ اس لیے کہ مرنے والا میرا بھائی تھا۔ انسانیت کی ایک رمق بھی اگر میرے اندر موجود ہے تو مجھے اس غم کو پالنا ہوگا۔ ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ کیونکر اس کا جواب دیا جا سکتاہے۔ ایک نہیں، وہ میرے ایک لاکھ بھائیوں کو قتل کر چکے۔ میری ہزاروں بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو اذیت دے چکے۔ میرے ہزاروں بیٹے ان کے اذیت خانوں میں پڑے ہیں۔ کورونا سے خوفزدہ، اپنے کمرے میں، چند آنسو بہا کر میں ان کا قرض چکا نہیں سکتا۔ ہر صبح، ہر شام میرا مالک مجھ سے پوچھتا ہے: تم ان کے لیے کیوں نہیں نکلتے، جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ اس بستی کے لوگ بہت ظالم ہیں۔ اے اللہ ہمارے لیے کوئی خاص مددگار بھیج۔ وہ مددگار کہاں ہیں؟

اپنا پیٹ کاٹ کر ہم دنیا کی بہترین فوج پالتے ہیں اور ہمیں پالنی بھی چاہئیے۔ سینوں پر گولیاں کھا کر وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ چھ ہزار کڑیل جوان شہادت کو گلے لگا چکے۔ ہم ان کے مقروض اور احسان مند ہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی اگر ہمیں ان کے لیے گولہ بارود خریدنا پڑے تو خریدنا چاہئیے۔ اللہ کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کو انہوں نے لیبیا، شام اور یمن بننے سے بچا لیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ لیکن پھر ایک سوال ہے۔ تیز دھار چاقو کی طرح پیکر میں اترجانے والا سوال: کشمیریوں کوبھیڑیوں کے آگے کیوں ڈال دیا گیا۔ ان کشمیریوں کو جو پاکستانی پرچم کو بوسہ دیتے ہیں اور پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیے جاتے ہیں۔

ہمیشہ، ہر دن جنگ کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ کبھی پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے، کبھی صبر کرنا پڑتا ہے لیکن جہاد صرف قتال تو نہیں، جہاد کی تیاری کی جاتی ہے۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا "راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے"۔ جہاد باللسان بھی ہوتا ہے۔ کبھی فریاد بھی جہاد ہوتی ہے۔ سفارت کاری بھی جہاد ہوتی ہے۔ دنیا بدلتی رہتی ہے۔ مقابلے اور محاذ آرائی کے قرینے بھی بدلتے رہتے ہیں۔

وزیرِ اعظم یہ کیوں کہتے ہیں کہ جنگ کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں۔ اس بات کو دہراتے کیوں رہتے ہیں؟ اخبارات میں چھپنے اور ٹی وی پر نشر ہونے والے 90فیصد بیانات میں تین الفاظ مشترک ہیں "مذمت، افسوس اور انسانی ضمیر"میرے بھائی اسد عمر نے تو بھارتی ضمیر کو بھی جگانے کی کوشش کی، جو ایک عشرے سے نریندر مودی کے گندے بوٹوں تلے سسک رہا ہے۔

سامنے کے حقائق ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ سامنے کے یہ حقائق لیڈرانِ کرام کو دکھائی کیوں نہیں دیتے۔ وہ اندھے کیوں ہو گئے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے، ہر ہوشمند جانتا ہے کہ امن میں جنگ کی تیاری لازم ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے، ہر جاننے والا جانتا ہے کہ امن کا حصول خوف کے توازن سے ممکن ہے۔ یہ بھی کہ خوف ایک ایسا ہتھیار ہے، جو بہت سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرنا چاہئیے۔

جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی ہوا میں قتل کر دیے گئے۔ جنرل نے افغانستان امریکیوں کے حوالے کر نے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنی کمزوریوں کا اسے ادراک نہ ہو سکا۔ ہمیشہ نہیں تو اکثر سوجھ بوجھ سے کام لینے والا جنرل حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر سکا۔ اس کے باوجود دہلی خوفزدہ تھا۔ سہولت کاروں کی مدد سے سوئٹزرلینڈ میں آئی ایس آئی اور "را" کے سربراہوں کی ملاقات ہوئی۔ بھارتی ڈرے ہوئے تھے۔ اس یقین دہانی کے عوض کہ ان سے انتقام نہیں لیا جائے گا، سندھ میں "را" کا پورا نیٹ ورک وہ سمیٹنے کے لیے تیار تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے انکار کر دیا۔

بھارتی اندیشے بے بنیاد نہیں تھے۔ مشرقی پنجاب اور کشمیر سے لے کر بنگلہ دیش کی سرحد تک پھیلی ہوئی علیحدگی کی تحریکیں۔ اب اپنی کمزوری کا انہیں ادراک تھا۔ ان کے خیال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ضیاء الحق کے قتل میں بھارت کو ملوث سمجھتی تھی۔ انہیں احساس تھا کہ زخمی ہونے کے باوجود پاکستان قرض چکا سکتاہے۔ مکمل صلح سے انکار کر دیا گیا مگر عارضی جنگ بندی کر دی گئی۔ اڑھائی سو برس پہلے مذاکرات کے ہنگام شیوا جی نے افضل خان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا تھا۔

شیوا جی کے وارثوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ نریندر مودی، امیت شاہ اور اجیت دوول شیوا جی کے وارث ہیں۔ اسی کے نقشِ قدم پہ چلنے کا تہیہ کیے ہوئے۔ انہیں یقین ہے کہ بھارتی فوج بالاتر ہے۔ ان کے عساکر، لڑاکا طیاروں اور میزائلوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ پاکستانی قوم تقسیم ہے، تقسیم درتقسیم۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم قصاص کی بجائے انتقام چاہتاہے اور اس کے حریف بھی۔ ملکی معیشت مضمحل ہے۔ اس تقسیم درتقسیم اور کورونا کے طفیل اور بھی مضمحل ہوتی جا رہی ہے۔

اب ایک آخری سوال۔ آدمی اپنی ترجیحِ اوّل کے لیے جیتا ہے یا دوسری اور تیسرے درجے کی ترجیحات کے لیے؟ ارشاد محمود سے میں نے پوچھا: صبح آٹھ بجے اٹھ کر تم بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہے ہو تو کیا میری فرمائش پر ایک مضمون لکھنے میں میری مدد کرنے کو ترجیح دو گے یا ٹال دو گے؟ وہ ایک عجیب سی ہنسی ہنسا اور اس نے کہا: آ پ جانتے ہیں۔ ارشاد محمود جانتاہے اور عمران خان نہیں جانتے۔ یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ ہماری خوئے غلامی، ہماری شخصیت پرستی کی، ہمارے جذباتی عدمِ توازن کی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.