Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Syeda Zainab Ki Betian

Syeda Zainab Ki Betian

اللہ کی ان پہ لاکھوں رحمتیں ہوں، تو یہ سیّدہ زینبؓ کی بیٹیاں ہیں؟ جو شہید ہوئے، وہ شہید ہوئے۔ اب یہ ان کی مشعل بردارہیں۔

جنرل اختر عبد الرحمٰن کے صاحبزادوں، ایک کے بعد دوسرے نے جب اپنی دادی امّاں کی کہانی سنائی تو مجھے ماں جی یاد آتی رہیں، نانی امّاں۔ سارا دن تخت پر بیٹھی جو تسبیح اور نوافل پڑھا کرتیں اور ایک حکمران کی طرح فیصلے صادر کرتیں۔ جنرل عبد المجید ملک نے اپنی والدہ محترمہ کا ذکر چھیڑا تو سامع نے حیرت سے کہا: دو ایسی محترم خواتین اور بھی تھیں۔ جہاندیدہ آدمی نے سر اٹھایا اور بولا: پاکستان کے بے شمار گھرانوں میں، ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں۔ اس معاشرے کو انہی نے تھام رکھا ہے۔ پہلے وہ اپنے والدین، پھر شوہر اور عمر بھر اپنے بچّوں کی خدمت کرتی ہیں۔ اس کے عوض وہ کچھ بھی طلب نہیں کرتیں۔

ربع صدی ہوتی ہے کہ میرے ایک کم سخن اور نجیب پڑوسی نے سرکارؓ کو خواب میں دیکھا۔ کہوٹہ کی لیبارٹری سے یورینیم چراتے سفید فام اور ان سے الجھتے پاکستانی۔ غیر ملکیوں کا تعاقب کرتے وہ ماڈل ٹاؤن سے متصل پل کے قریب پہنچے تو ختم المرسلینؐ کو اپنے دو اصحابؓ کے ساتھ سواں ندّ ی کے کنارے پایا۔ فرمایا"غزوۂ ہند کی قیادت میں خودکروں گا اور میرے مشیر خالد بن ولیدؓ ہوں گے۔" یہ ایک طویل خواب تھا، جو نقل کر دیا گیااور درخواست کی گئی کہ تعبیر کرنے والے اس کی تعبیر کریں۔ اس پر اسلام آباد کی ایک خاتون ڈاکٹر کا فون موصول ہوا۔ ایک بے ریا، سادہ سی خاتون، جس نے تعبیرِ رویا کا علم باقاعدہ حاصل کیا تھا۔ محتاط اس قدر کہ تعبیر سے انکار کر دیا۔

تجسس نے تحقیق پر اکسایا تو معلوم ہوا کہ اکلوتے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ جھیل چکیں۔ خدمتِ خلق کو پھر انہوں نے شعار کیا۔ اب ابرِ رحمت ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر برسا۔ بے نوا، غریب بچّیوں کو گھر لے آتیں۔ پال پوس کر، پڑھا لکھا کر ان کی شادیاں کر دیتیں۔

ایسے لوگ چھپایا کرتے ہیں مگر ایک بہت قریبی دوست کی اہلیہ کے بارے میں اچانک معلوم ہوا کہ پابندی سے وہ تہجد پڑھتی ہیں۔ خود انہی نے بتایا تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں سر ڈھانپنے کا حکم صادر ہوا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ میاں ان کے ایسے کہ خاندان تو کیا، دوست بھی ان پہ فخر کیا کرتے۔ دنیا سے اٹھے تو منفرد شاعر اظہار الحق نے ان کامرثیہ لکھا۔

لپیٹ لو خوان حاتمِ وقت جا چکا ہے

وہ ابر، وہ منبعِ کرم ختم ہو گیا ہے

ایسی ہی ایک خاتون کو ایک دن عارف کے ہاں دیکھا۔ مغربی لباس مگر حیا، مگر وقار۔ قومی اسمبلی کی ممبر تھیں۔ سرکاری پارٹی کا حصہ ہونے کے باوجود سترھویں ترمیم کی حمایت سے انکار کیا اور استعفے کی پیشکش کر دی۔ چند دن بعد جھجکتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس خاتون کے بار ے میں میراتاثر ٹھیک ہے؟ کہا: بالکل۔ پوچھا: کس چیز نے یہ مرتبہ اسے بخشا ہے۔ بولے: سیّد عبد القادر جیلانی ؒ کی اولاد ہیں۔ حیرت سے سوال کیا کہ اس سے کیا ہوتاہے؟ کہا: کیوں نہیں ہوتا، دعا سفر کرتی ہے۔ گاہے صدیوں تک، ہزاروں برس تک۔ ایک دن معاًاپنی اولاد کے بارے میں سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا یاد آئی اور اللہ کا فرمان"لیکن میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا"

بار بار خود سے میں نے سوال کیا: پاکستانی عورت کو کس کی دعا لگی ہے؟ شاید خود سرکارؐ کی کہ ہند کے ساحلوں سے انہیں ٹھنڈی ہوا آئی تھی۔ سر چادروں سے ڈھکے ہیں اور نہیں بھی مگر ان میں کچھ ایسی ہیں کہ رشک آتاہے، ایک آدھ ٹی وی میزبان بھی۔ وہ عورتیں جو دلاورجنتی اور شہید پالتی ہیں۔ لوریاں دیتی اور پھر اپنے ہاتھوں سے مٹی کو سونپ کر، عمر بھر ان پہ فخرکرتی ہیں۔

کئی برس ہوتے ہیں، جی ایچ کیو میں یومِ شہدا کی ایک تقریب میں، ایک دیہاتی ماں نے کہا: بچّے پالنا آسان نہیں مگر میں نے بسم اللہ کر کے ملک پر اسے قربان کر دیا۔ دوسری نے، جس کے سر پہ دوپٹہ نہیں تھا، یہ کہا: تم نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ملک پہ قربان ہو گئے۔ میں بھی اپنا عہد نبھا رہی ہوں۔ تمہارے بچوں کی پرورش ٹھیک اسی طرح ہوگی، جس طرح کہ تمہاری آرزو تھی۔ کردار کسی علاقے اور قبیلے کا نہیں ہوتا۔ کسی نسل اور مکتبِ فکر کا نہیں، مرد اور عورت کا امتیاز بھی اس میں نہیں ہوتا۔ رجحانات اور مزاج ہوتے ہیں۔ جہاں تک حبّ وطن کا تعلق ہے، خواتین بازی لے گئیں۔ یہ پاکستانی عورت ہے، جو اپنے بھائی اور اپنے شوہر کی پشت پناہ ہے، جب وہ میدانِ جنگ میں شہادت کا انتخاب کرے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو گھرقبرستان ہو جاتے۔

بہت دن ہوتے ہیں، محترمہ نسیم زہرہ نے بتایا کہ پاک بھارت جنگ کے ہنگام خاندان کے سب افراد کو ان کے والد نے بلایا۔ ایک لاکھ پچیس ہزار بار آیتِ کریمہ پڑھنے کے لیے۔ یومِ شہدا کی جس تقریب کا ذکر ہے، پورا مجمع روتا رہا۔ کاش وہ یہاں ہوتا، پاکستان کو بھارت کا ایک صوبہ بنانے کا خواب دیکھنے والا۔ کاش وہ یہاں ہوتے، مزارات، مارکیٹوں اور مساجد میں جیتے جاگتے انسانوں کے چیتھڑے اڑانے والے، قاتلوں کے مدح سرا سیاستدان اور قلمکار۔ کاش وہ یہاں ہوتے، آزادی ٔ اظہار کے نام پر قومی دفاع میں سوراخ کرنے والے۔ نوکری پیشہ، جو ہیرو بننے کی آرزو میں دیوانے ہوئے اور مسترد کر دیے گئے۔ اتنی سی بات جو نہیں جانتے کہ زندگی تناسب و توازن طلب کرتی ہے۔ ترجیح ایک کے بعد دوسری ہوا کرتی ہے۔

مگر وہ پاکستانی خاتون؟ آخر کوسیّدہ زینبؓ یاد آئیں۔ یزید کے دربار میں جب امام ؓ اور اہلِ بیتؓ کا مذاق اڑایا گیا تو آپؓ نے ارشاد کیا"اللہ کی شان کہ خدا پرست، شیطانی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوں۔ اے یزید، تجھے قسم ہے کہ کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا لیکن اللہ کی قسم، تو ہمارے ذکر اور ہماری زندگیوں کو فنا کر نہیں سکتا۔ اس خونِ نا حق کا دھبّہ تیرے دامن پہ ہمیشہ رہے گا۔

تیری رائے غلط، تیری زندگی محدود اور تیرے اردگرد کا مجمع تتّر بتّر ہو جانے والا ہے۔ وہ دن بہت قریب ہے، جب منادی کرنے والا ندا کرے گا: ظالمو! تم پر اللہ کی لعنت ہے۔ شکر ہے، اس پروردگار کا، جس نے ہمارے پیش رو بزرگوں کا انجام سعادت کے ساتھ اور آخری بزرگ کا انجام شہادت و رحمت کے ساتھ مقرّر کیا۔ وہی اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین ناصر و معین ہے "

اللہ کی ان پہ لاکھوں رحمتیں ہوں، تو یہ سیّدہ زینبؓ کی بیٹیاں ہیں؟ جو شہید ہوئے، وہ شہید ہوئے۔ اب یہ ان کی مشعل بردارہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.