Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Zehni Ghusal

Zehni Ghusal

ذہنی غسل ایک عجیب چیز ہے۔ اس کے مارے ہوئے خال ہی شفایاب ہوتے ہیں۔ نفیسہ شاہ فرماتی ہیں: ارطغرل پہ مقامی ہیروز کو ترجیح دینی چاہئیے۔ ہمارے بزرگ کالم نگار نے لکھا کہ پی ٹی آئی کی بجائے شبلی فراز کو بھارت نواز نیشنل عوامی پارٹی سے وابستہ ہونا چاہئیے تھا۔

مولانا مفتی محمود مرحوم کا یہ جملہ مشہور ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ یہ 1971ء کے بعد کا اظہارِ خیال تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو ایک سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرح ملک چلا رہے تھے۔ پریس پابہ زنجیر تھا۔ ان کی ذاتی فوج ایف ایس ایف بروئے کار تھی۔ پارٹی کے بانی سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کو مار پیٹ کر نکال دیا گیا تھا۔ صنعتیں قومیا کر برباد کر دی گئی تھیں۔ ملک ٹوٹ چکا تھا۔ ایوب خانی عہد کی سات فیصد شرح ترقی کے مقابلے میں شرح نمود دو اڑھائی فیصد پہ آن ٹھہری تھی۔

ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر ممتاز دولتانہ نے بھٹو کے دربار میں حاضری دی اور برطانیہ میں پاکستان کے سفیر ہو گئے تھے۔ سردار شوکت حیات کو بھی یہی مشورہ انہوں نے دیا تھا کہ سمندر پار کہیں پناہ ڈھونڈیں۔ اس لیے کہ پاکستان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کو ایک محتاج ملک دیکھنا چاہتا تھا۔ امداد دی تو اسی لیے اور پاکستان کی تباہی پر تلے ہوئے بھارت کو تزویراتی حلیف بنایا تو اسی لیے۔ بلوچستان، قبائلی پٹی اور ملک کے بڑے شہروں میں تخریب کاری کرنے والی "را" اور این ڈی ایس کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں تو بھی اسی لیے۔

آخری تجزیے میں امریکہ پاکستان کا بدترین مخالف ثابت ہوا۔ اب تو خود امریکی حکومت کی جاری کردہ دستاویزات کی بنا پر یہ ثابت ہوچکا کہ لیاقت علی خاں کو انہی نے قتل کرایا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور بے نظیر کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کی رائے یہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اس لیے کہ افغانستان کے باب میں امریکی عزائم کا ساتھ دینے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ وہ کابل میں اتفاق رائے سے قائم ہونے والی حکومت چاہتے تھے۔ امریکی اپنے مہرے مسلط کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ بے نظیر کو غالباً اس لیے راستے سے ہٹا دیا گیا کہ بظاہر مان لینے کے باوجود خطے میں بھارتی بالادستی انہیں قبول نہ تھی، اپنے مرحوم والد کی طرح۔ زرداری صاحب کو قبول تھی۔ اس لیے ان کے دور میں بلیک واٹر کے سینکڑوں"مجاہدین" ملک بھر میں پھیل گئے۔ حسین حقانی فراوانی سے ویزے جاری کرتے رہے۔

خیر یہ بعد کی باتیں ہیں۔ مفتی محمود مرحوم کا ایک جملہ یاد آیا تھا: ہم وہ لوگ پیدا کرتے ہیں، جو معاشرے کا حصہ ہی نہیں بن سکتے۔ ابھی ابھی جس عہد کا ذکر تھا، ایک نہیں، اس دور میں پاکستان کے دو دشمن تھے۔ امریکہ ہی نہیں، سوویت یونین بھی۔ ماسکو کی کیمونسٹ پارٹی کا فلسفہ یہ تھا کہ سوویت یونین کی حدود میں بسنے والی درجنوں قومیتیں تو ایک قوم ہیں لیکن پاکستان میں ایک نہیں، پانچ قومیں بستی ہیں۔ ایک آدھ نہیں، پاکستان میں سرحد پار دیکھنے والے کئی گروہ ہیں۔ سعودی عرب، ایران، بھارت اور امریکہ کی طرف۔ کلاسیکل بائیں بازو کے کچھ وارث ابھی بروئے کار ہیں۔ انہی میں سے ایک کو بھارت نواز نیشنل پارٹی پی ٹی آئی سے بہتر لگی۔ موصوف کو معلوم ہی نہیں کہ احمد فراز تحریکِ انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔ فرزند نے انہی کی پیروی کی۔ یہ کہانی پھر کبھی۔

این جی اوز عہدِ رواں کا نیا تحفہ ہیں۔ یہ بھی مغرب کے نمائندے ہیں اور بعض تو بھارت کے بھی۔ کچھ کھلم کھلا، کچھ خفیہ، کچھ نیم دروں نیمِ بروں۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد دو بڑے گروہ ملک میں بے یقینی پھیلانے لگے۔ ایک کٹھ ملّا اور ایک ترقی پسند۔ ان ترقی پسندوں کا مائی باپ سوویت یونین تھا۔ فیض احمد فیضؔ نے لکھا:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

جنابِ والا دم لیجیے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس کی غلامی سے ملک آزاد ہوا ہے۔ دس لاکھ آدمی قتل ہو گئے۔ کروڑوں اجڑے۔ بھارتی اشرافیہ نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ پنڈت نہرو ارشاد فرما رہے ہیں: شبنم کے قطروں کی طرح، جنہیں سورج کی اولین کرنیں تحلیل کر دیتی ہیں، پاکستان ختم ہو جائے گا۔ وقت چاہئیے ہوتاہے۔ قوموں کی تعمیر کے لیے مہلت چاہئیے ہوتی ہے لیکن ملّا او رترقی پسند اس پر آمادہ نہ تھے۔ مذہبی جماعتوں کا مطالبہ اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ اسلامی نظام یعنی چہ؟ معاشرے کو تعلیم دی جاتی ہے، تربیت کی جاتی ہے۔ اللہ کا پیغام دلوں میں اترتا ہے۔ تزکیہء قلب ہوتا ہے تو معاشرہ اسلام کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ محض قوانین کے نفاذ سے ممکن ہوتا تو ایک صدی پہلے سعودی عرب، چالیس برس پہلے ایران اور ربع صدی پہلے افغانستان اسلامی ریاستیں بن چکے ہوتے۔ سب جانتے ہیں کہ اوّل الذکر ملوکیت ہے اور باقی دونوں میں ملّا کا راج رہا۔ وہی کہ

میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی

پاکستان کے مذہبی طبقات ماضی میں جیتے ہیں۔ مخلص کارکنوں کی کمی نہیں مگر منجمد ذہن۔ ان میں سے بعض نے خدمتِ خلق کے میدان میں قابلِ فخر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مگر افسوس وہ سیاست کی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور نہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو۔ ایک واضح اصول بھی نظر انداز: معاشرے کی علمی اور اخلاقی اصلاح ایک چیز ہے اور سیاست دوسری۔ دونوں ایک دوسرے کی دشمن ہیں اور ہمیشہ دشمن رہیں گی۔ ایک آگ ہے اور دوسرا پانی۔ اقتدار مقبولیت سے ملتا ہے اور مقبولیت کی تمنا ایک ذہنی مرض ہے۔ پارٹی منشور کے لیے ووٹ مانگا جائے تو دوسری بات ہے۔ اس لیے کہ عصرِ حاضر میں ملک سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ہی چلائے جا سکتے ہیں لیکن ایک شخصیت کے نام پر یہ معاشرے کی تخریب کا باعث تو ہوگا، تعمیر کا نہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی طرح مذہبی جماعتوں نے بھی دیوتا ہی پیدا کیے۔ نتیجہ سامنے ہے۔

نفیسہ شاہ کے بیان سے صدمہ ہوا کہ پی ٹی وی سے ارطغرل نام کا ڈرامہ دکھایا نہ جانا چاہئیے۔ اس جملے کا سیدھا، صاف مطلب یہ ہے کہ امت کے تصور سے قوم دستبردار ہو جائے۔ پاکستان کے بنیادی نظریے سے دستبردار ہوجائے۔ مقامی ہیرو ز سر آنکھوں پہ لیکن ارطغرل بھی ایک مقامی ہیرو ہے۔

ہمارا کوئی سچا دوست ہے تو ترکی۔ جب بھی پاکستان کو زخم لگتا ہے، ترکوں کے دل پر بھی چوٹ لگتی ہے۔ ایک پاکستان ہی کیا، برما، بھارت اور فلسطین میں مسلمان وحشت کا شکار ہوتے ہیں تو اردوان چیخ اٹھتا ہے۔ ذہنی غسل ایک عجیب چیز ہے۔ اس کے مارے ہوئے خال ہی شفایاب ہوتے ہیں۔ آدمی ایک بار جب اس سے گزر چکتا ہے تو بعض اوقات ٹھوکریں کھانے کے باوجودطے کردہ راستے پہ چلتا رہتاہے۔ پیہم ناکامی اور کبھی کبھی تو عظیم الشان حادثات بھی اس کی رائے تبدیل نہیں کر سکتے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.