Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ye Munsif Kab Katehre Mein Ayen Ge?

Ye Munsif Kab Katehre Mein Ayen Ge?

ذوالفقار علی بھٹو کو مصلوب ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، لیکن نوازشریف اور پاناما، کی داستان "وارداتِ جاریہ" کی طرح ابھی چل رہی ہے۔ بُغض و عداوت میں لتھڑے ہوئے فیصلے کے اثرات ابھی تک موجود ہیں لیکن گواہیاں ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہیں۔ اگر تاریخ واقعی عدالت کا درجہ رکھتی ہے تو اِن گواہیوں کے بعد پاناما، کا فیصلہ، ایک فردِ جرم کی شکل اختیار کر چکا ہے اور یہ فیصلہ تحریر کرنے والا گروہِ منصفان، کٹہرے میں کھڑا ہے جس کے سرخیل، جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ تھے۔

تحریکِ انصاف کے راہنما اور معروف قانون دان، حامد خان نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ "چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سیاست میں نہیں پڑتا چاہتے تھے اس لیے وہ زیادہ آگے نہ بڑھے لیکن اُن کے جانے کے بعد عدالت کا ماحول بدل گیا۔ نوازشریف کے خلاف پاناما کا فیصلہ، عدالتی فیصلے سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ " اِس انکشاف کی فضیلت صرف اس قدر ہے کہ "زبانِ غیر" کے ذریعے سامنے آیا ورنہ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس آبرو باختہ ناٹک کا سکرپٹ کہاں تیار ہوا، کون اِس کا ہدایت کار تھا اور کن کرداروں نے اس میں رنگ بھرا۔

البتہ برادر عزیز سہیل وڑائچ نے پی ٹی آئی کے کسی اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے واقعی ایک بڑا انکشاف کیا ہے۔ اس عہدیدار نے بتایا "ہمارے پاس تو الزامات اور اخباری پلندوں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ ہمیں تو پورا کیس خود جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تیار کرکے دیا۔ " سات برس قبل ارشد شریف مرحوم کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ تو مایوس ہو چکے تھے لیکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا، "سڑکوں پہ کیا کر رہے ہو، ہمارے پاس آؤ۔ " بلاشبہ اِسے "اُمّ الانکشافات" کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تصدیقِ مزید پی ٹی آئی کے راہنما اسد عمر نے بھی کی۔

پاناما کی پیالی میں طوفان اٹھنے کے بعد، اگست 2016 میں جماعت اسلامی نے نوازشریف کے خلاف کارروائی کے لیے پہلی پٹیشن دائر کی۔ تب جسٹس انور ظہیر جمالی، چیف جسٹس تھے۔ تین دن بعد پانچ بڑے اعتراضات لگا کر اسے "ناکارہ، فضول، کھوکھلی، لایعنی، غیر سنجیدہ اور اوچھی (Frivolous) قرار دے کر واپس لوٹا دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد تحریکِ انصاف کی پٹیشن کا بھی یہی حشر ہوا۔ خان صاحب مایوس ہو کر جولان گاہِ کوچہ و بازار کو لوٹ آئے۔ اعتزاز احسن بولے، "میں نے کہا تھا نا، کہ سپریم کورٹ مت جاؤ۔ " کسی کو اندازہ نہ تھا کہ اس خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں چھپی ہیں۔

نوازشریف کو سیاست بدر کرنے کی مہم جب آخری مرحلے میں داخل ہو رہی تھی تو عسکری منصوبہ سازی جنرل (ر) فیض حمید کے ہاتھ میں تھی۔ سپریم کورٹ میں اس کارِ عظیم کے لیے جسٹس کھوسہ کا انتخاب کیا گیا۔ پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ آنے کی پیشکش کے فوراً بعد "فضول، ناکارہ اور لایعنی" پٹیشن مقدس و معتبر ٹھہری۔ پانچ رکنی بینچ بن گیا اور یکم نومبر 2016 سے سماعت شروع ہوگئی۔ ناپاک ٹھہرائی جانے والی پٹیشن کو "غسلِ طہارت" دینے والوں میں جسٹس کھوسہ پیش پیش تھے۔ انور ظہیر جمالی اس لایعنی پٹیشن کو کڑی حدود کے اندر رکھنا چاہتے تھے لیکن وہ دسمبر میں ریٹائر ہو گئے۔

ثاقب نثار نے جسٹس سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دے دیا۔ اُدھر راحیل شریف ریٹائر ہو گئے اور نومبر کے اواخر میں فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ نے سنبھال لی۔ یوں نوازشریف کو مکمل طور پر نرغے میں لے لیا گیا۔ ایک طرف باجوہ اور فیض حمید ادارہ جاتی فیصلے کو آگے بڑھا رہے تھے، دوسری طرف ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ اس کے پاسبان بن گئے۔ جس طرح جنرل باجوہ نے نوازشریف سے نجات کا مشن جنرل فیض حمید کو سونپ دیا اسی طرح ثاقب نثار نے پاناما کے حوالے سے سارے اختیارات آصف سعید کھوسہ کے حوالے کر دئیے۔

کھوسہ کی سربراہی میں بینچ بنتے ہی، ایک دِن چیف جسٹس ثاقب نثار نے رجسٹرار ارباب محمد عارف کو اپنے چیمبر میں طلب کیا۔ رجسٹرار پہنچے تو دیکھا کہ جسٹس کھوسہ بھی تشریف فرما تھے۔ ثاقب نثار نے تلقین کے لہجے میں حکم جاری کیا "آج کے بعد پاناما کیس کے تمام معاملات جسٹس کھوسہ دیکھیں گے چاہے وہ عمومی انتظامی نوعیت کے ہوں۔ " اپنے اپنے "مختارِ کل" سے "مختار نامے" لینے کے بعد فیض حمید اور آصف سعید کھوسہ بے مہار ہو گئے۔

انور ظہیرجمالی کی رخصتی، ثاقب نثار کا عطا کردہ مختار نامہ، پانچ رکنی بینچ کی سربراہی اور فیض حمید کی پشت پناہی کے بعد کھوسہ صاحب کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ قانون و انصاف پر یقین رکھنے والے جج کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اپنا آئینی حلف ہوتا ہے جو لازم قرار دیتا ہے کہ فیصلے بلا رغبت و عناد کرو۔ لیکن پاناما کے حوالے سے جسٹس کھوسہ کے فیصلے کے ایک ایک لفظ سے بُغض و عناد کا تعفّن اٹھ رہا ہے۔

جے آئی ٹی کے لیے "ہیرے" بھی کھوسہ نے چُنے۔ انصار عباسی کی سٹوری آنے پر جب وزیراعظم نوازشریف کے سیکرٹری فواد حسن فواد نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار، ارباب محمد عارف کو فون کرکے حقیقتِ حال جاننا چاہی تو رجسٹرار نے بتایا "مجھے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ " "وٹس ایپ کالز" کی بے چہرہ کہانی صرف مطلوب ہیروں کی تلاش تک محدود نہیں، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے سربراہ ظفر حجازی اور اُن کے صاحبزادے پر جو گزری وہ "عناد" میں لت پت منصفوں کی خوئے انتقام کا شاہکار ہے۔

پانچ رُکنی بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس کھوسہ نے خاصے جَتن کیے کہ کسی تحقیق و تفتیش کا دفتر کھولے اور کسی الزام کا کھوج لگائے بغیر ہی نوازشریف کو فارغ کر دیا جائے۔ جسٹس گلزار راضی ہو گئے۔ باقی تین کا خیال تھا کہ اس طرح کی عریاں ڈھٹائی اور رسوائی بھی، تھوڑی سی حیا مانگتی ہے۔ جسٹس کھوسہ کا عناد، کسی حیا، کا متقاضی نہ تھا۔ 20 اپریل 2017 کو پانچ رُکنی بینچ فیصلہ سُنانے بیٹھا تو روایت کے مطابق، تین ارکان کا اکثریتی فیصلہ پڑھنے کے بجائے، مرکزی کرسی پر بیٹھ کر جسٹس کھوسہ نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھنا شروع کر دیا جس کا آغاز امریکی مصنف میریو پوزو، (Mario Puzo) کے معروف ناول "دی گارڈ فادر" (The Godfather) کے ایک اقتباس سے ہوتا ہے۔ یہ اقتباس بطور خود بُغض و عناد کی ایک افسوسناک کہانی بیان کر رہا ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آصف سعید کھوسہ کا اختلافی نوٹ کسی بھی پیمانے سے عدالتی فیصلہ نہیں لگتا۔ یہ ایسے شخص کا تحریر کردہ "جواب مضمون" (Essay) ہے جو انگریزی ادب پر عبور کا تاثر دینا چاہتا ہے۔

بظاہر ایک سہہ رکنی بینچ جے آئی ٹی کی نگہبانی کر رہا تھا لیکن اُس کی باگیں جسٹس کھوسہ کے ہاتھ میں تھیں۔ 28 جولائی 2017 کو نوازشریف کے خلاف حتمی فیصلہ آنے تک آصف سعید کھوسہ، جنرل فیض حمید کے پہلو بہ پہلو پوری طرح متحرک رہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کو نیب عدالتوں کا مانیٹر لگانے کا تصور بھی انہی کی شاخِ فکر پر پھوٹا تھا۔

جب کوئی جج اپنی روشن ضمیری کے تحت، آئین، قانون، اپنے حلف اور اپنے ضابطہ اخلاق کے مطابق ایک فیصلہ لکھ دیتا ہے تو وہ اس کے نتائج سے بے نیاز ہو کر معاملہ اللہ اور عوام کی عدالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب "فیصلے" کی بنیاد کدورت، بغض اور عناد پر ہو تو جج کا لبادہ پہنے شخص اپنے ہدف کا تعاقب جاری رکھتا ہے۔ 2019 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ دیا تو آصف سعید کھوسہ انگاروں پر لوٹنے لگے۔ فیصلہ تو نہ پلٹا لیکن عدالت کو کھری کھری سنائیں اور ضمانت کے لیے اتنی کڑی شرائط عائد کر دیں کہ وہ ممکن ہی نہ رہی۔ اسی طرح جب احتساب عدالت کے جج ارشد کی وڈیو آڈیو کیسٹیں سامنے آئیں تو انہیں بطور شہادت قبول کرنے کے امکانات ہی معدوم کر دئیے۔

پاناما فیصلے جیسی دستاویزِ ملامت کو عدالتی فیصلوں کی کتاب کا حصہ بنانے والے "منصفوں" کے ہر تارِعبا اور بندِ قبا سے انصاف کُشی کی عفونت اٹھ رہی ہے۔ 280 آرٹیکلز اور ہزاروں ذیلی شقوں پر مشتمل آئین پاکستان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یہ خود آئین کی تشریح و تعبیر کرنے والے ہیں اور بات نہ بنے تو مرضی کا آئین بھی خود لکھ لیتے ہیں۔